... loading ...
ایم سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔
آواز
اچھی خاصی دُکان چل رہی تھی۔ روزانہ ہزاروںکی سیل ، چھٹی کے دنوںمیں لاکھ سے بھی تجاوزکرجاتی ۔گاہک پرگاہک ہر وقت رش نے سہیل کو کچھ بدمزاج بھی بناڈالا ۔ قرب و جوارمیں بڑا سٹورنہ ہونے کے سبب لوگوںکی آمدورفت کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔ کچھ عرصہ گزرا ۔اس کے سامنے ایک بہت بڑا ڈیپارٹمنٹل اسٹورکھل گیاجہاں گروسری،ہوزری،میڈیسن،کاسمیٹک الغرض دنیاجہان کی لوکل اور امپورٹڈ پراڈکٹس وسیع رینج میں دستیاب تھیں۔ رفتہ رفتہ اس کے گاہک اور سیل کم ہوتی چلی گئی توبدمزاج کے ہوش اڑ گئے۔ اب وہ ہرگاہک سے بڑے حسن ِسلوک سے پیش آنے لگا ۔یہ ایک شخص کی کہانی نہیں دنیا میں سینکڑوں ہزاروں افراد کی کہانی ہوسکتی ہے۔ جب وسائل اورنعمتوں کی افراط ہوتی ہے تو انسان سمجھتاہے یہ اس کا کمال ہے۔ اس نے اپنی محنت سے یہ سب کچھ کردکھایا۔میں ایک الیکٹرونکس کی دکان پر کچھ سامان خریدنے کیلئے کھڑا تھا ۔رش کے باعث کئی کسٹمرادھر ادھرکھڑے باری کاانتظارکررہے تھے ۔میرے ساتھ کھڑے ایک نوجوان نے دکاندارکو سامان لکھی ایک پرچی پکڑا ئی۔ دکاندارنے ایک سرسری نظرڈالی اور نوجوان کو کہا میرے پاس آپ کا سامان نکالنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ میں یہ سن کر جیسے سن ہوگیا۔ میں نے سوچا اتنا ناشکرا شخص جس کے پاس گاہک کو سامان دینے کا ٹائم نہیں ہے۔ اگر اللہ لوگوںکے دلوںکو پھیردے وہ سارا دن مکھیاںمارتا پھرے اور گاہک ایک بھی نہ آئے، پھر میں دیکھوںکہ اس کے پاس تھوڑا سامان کی خریداری کے لئے آنے والے کے لیے وقت ہی وقت ہوگا۔حالانکہ دوکان پر گاہک اللہ بھیجتا ہے۔ یہ فلسفہ جس کی سمجھ میں آگیا اس نے راز پالیا ۔کہتے ہیں ترکی کی قدیم روایات میں ایک یہ بھی ہے کہ دکاندار جب صبح دکان کھولتے ہیں تو وہ باہرایک کرسی یا اسٹول رکھ دیتے ہیں جونہی وہ بسم اللہ کرتے ہیں، اسے اٹھا کر دُکان کے اندر لے آتے ہیں۔
ایک شخص کچھ خریداری کے لئے ایک اسٹورمیںگیا۔ اس نے سیل مین کو کچھ سامان نکالنے کو بولا ۔کائونٹرپربیٹھے مالک نے کسٹمرکو کہا آپ یہ سامان سامنے والے اسٹور سے خرید لیں۔
”کمال ہے کسٹمر نے کہا اتنا بڑاا سٹور اور آپ کے پاس میرا مطلوبہ سامان نہیں ہے”۔
”سامان تو افراط میں موجودہے” ،مالک نے بڑے ادب سے جواب دیا ۔
”پھر۔۔ اس نے حیرت سے پوچھ ہی لیا ،سامان موجودہے تو پھر آپ دے کیوںنہیں رہے ؟ کیا میرے پیسے پیسے نہیں ہیں۔
”نہیں جناب ۔۔ دُکاندارنے بڑی نرمی سے جواب دیا میں نے صبح سے ہزاروںکی سیل کرلی ہے لیکن میں دیکھ رہاہوں وہ سامنے والے اسٹورمیں ابھی تک ایک گاہک بھی نہیں گیا۔ میں چاہتاہوں آپ سامان ان سے خرید لیں۔ گاہک کو حیرت کاایک جھٹکا لگا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں ورنہ تو پروفیشنل جیلسی میں دُکاندار لڑنے مرنے پراتر آتے ہیں ۔۔گاہک کے ہونٹوںپردل آویزمسکراہٹ پھیل گئی اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھایاپھر عقیدت سے اسٹورکے مالک کاہاتھ چوم لیا۔
یہ واقعہ ایک برطانوی نژاد مائیکل نے اپنی یادداشتوں میں پہلے نمبرپرتحریر کیا تھا جس نے اعتراف کیا کہ بزنس مینجمنٹ کی کتابوں میں اس نے ہمیشہ اپنے مد مقابل منافس(compititor) کو نیچا دکھا کر آگے بڑھنا ہی سیکھا تھا جب برطانیہ، چین اور ملائشیا مشہور سپرا سٹورز میں کام کرنیوالے ایک لائق فائق منیجر کو بن داؤد سپرا سٹوز مکہ میں کام کرنے کا اتفاق ہوا ۔اس نے مکہ مکرمہ میں کچھ عرصہ بطور ریجنل منیجر کے اپنی خدمات سرانجام دیں، اس نے دیکھا کہ ایک معروف سپرا سٹور کی برانچ اس کے اسٹور کے بالکل سامنے کھلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں جس میں وہ خدمات انجام دے رہا تھا۔ اس نے سوچا نیا اسٹور یقینا ا اس کے اسٹور کی سیل پر اثر انداز ہوگا۔ لہٰذا اس نے فورا بن داؤد سپر اسٹورکے مالکان کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس نئے سپرا سٹور کے متعلق کچھ معلومات، مشورے اور آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرنے کی تجاویز دیں ۔
”یہ تو اچھی بات ہے ۔ہمارے ایریا میں نیا سپرا سٹور کھل رہاہے ۔ بن داؤد سپرا سٹوز کے مالک نے موبائل پر اس سے کہا۔ سنو نئے سپر اسٹور کے ملازمین کی سہولت کیلئے ان کا سامان رکھوانے، اسٹور کی تزئین و آرائش اور ان کے کھانے چائے پانی کا خاص خیال رکھنے کی اب تمہاری ذمہ داری ہے ۔مائیکل کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔مائیکل نے بزنس مینجمنٹ اور کاروباری حریفوںکا مقابلہ کرنے کے لئے جو کچھ پڑھا سنا تھا یہ سب اس کاالٹ تھا۔ حقیقتاً اس کوزندگی میں حیرت کا شدید ترین جھٹکا کبھی نہیں لگا تھا۔اس کی سب تھیوریاں دھری کی دھری رہ گئیں تھیں۔
” جناب وہ کیوں مائیکل نے پریشانی کے عالم میں پوچھ ہی لیا وہ تو ہمارے کاروباری حریف ہیں۔
” وہ کاروباری حریف ہیں تو پھرکیا ہوا ؟بن داؤد اسٹورز کے مالک نے کہا کہ وہ اپنا رزق اپنے ساتھ لائیں گے اور ہمارا رزق ہمارے ساتھ ہوگا۔ اگر اللہ نہ چاہے تو ہم اپنے لکھے گئے رزق میں ایک ریال کا اضافہ نہیں کرسکتے اور نئے ا سٹور والوں کے رزق میں ہم ایک ریال کی کمی نہیں کرسکتے تو کیوں نہ ہم بھی اجر کمائیں اور مارکیٹ میں نئے آنیوالے تاجر بھائی کو خوش آمدید کہہ کر ایک خوشگوار فضا قائم کریں کیوں ٹھیک ہیں نا۔
دوسرا واقعہ بھی عام لوگوںکے لئے عجیب و غریب ہوسکتاہے۔حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والوں نے یقینا مکہ مکرمہ میں ایک عظیم الشان مسجد، مسجد فقیہ بھی دیکھی ہوگی بلکہ ہزاروں لاکھوںنے شاید نماز بھی پڑھی ہو یہ مسجد مشہور الفقیہ پولٹری کمپنی کے مالک نے تعمیرکروائی تھی۔ یہ بھی کاروباری دنیا کا عجیب واقعہ ہے کہ اسکی حریف کمپنی الوطنیہ چکن لاکھوں ریالوں کی مقروض ہوکر دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئی۔ فقیہ کمپنی کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی مخالف کمپنی کے مالک کو ایک خط کے ساتھ ایک دس لاکھ ریال سے زائد کا چیک بھیجا ۔اس نے خط میں لکھا تھا” میں دیکھ رہا ہوں کہ تم دیوالیہ پن کے قریب کھڑے ہو مجھے افسوس ہوگا اگرتمہاری کمپنی بند ہوجائے جس سے جڑے سینکڑوں خاندان معاشی بدحالی کا شکارہوسکتے ہیں، میری طرف یہ رقم قبول کرو، اگر مزید رقم کی ضرورت ہے تو ضرور بتانا
پیسوں کی واپسی کی فکر مت کرنا ،جب تمہارے پاس ہوں لوٹا دینا”۔ اب دیکھئے کہ ارب پتی شیخ الفقیہ کے پاس الوطنیہ کمپنی خریدنے کا ایک نادر موقع تھا لیکن اس نے اپنے سب سے بڑے مخالف کی مالی مدد کرنے کو ترجیح دی۔یہ سچے واقعات آپ کو اسلامی تجارت کے اصولوں سے متعارف کراتے ہیں، کسی مخالف کمپنی سے پریشان نا ہوں، اگر آپ اپنا کام ایمانداری سے کرتے اور کسی پر احسان کرتے ہیںتو اللہ تعالیٰ آپ کا بازو پکڑ کر آپ کو کامیابی کی معراج تک پہنچا دیتے ہیں ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی کی ٹانگ کھینچنے سے آپ کا رزق زیادہ نہیں ہوگا،اس کے جو نصیب کا ہے ہرصورت مل کر رہے گا۔ غورکریں تو یہ سب مثبت سوچ سے ہی ممکن ہے ۔رزق اور عمرمیں اضافہ دکھی انسانیت کی دعائوںکے طفیل ہی ممکن ہے اور اس کی بدولت قیامت تک نام بھی زندہ رہتاہے جس کو یقین نہ ہو آزماکردیکھ لے یا پھر اس سے پہلے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرلے ہمارے اردگرداس کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ اچھی مثال قائم کرنے کے لئے دوسروںکااحساس کریں ۔ان کی مجبوریوںسے فائدہ اٹھانے کی کوشش نیکیوںکو غارت کردیتی ہے۔
٭٭٭