... loading ...
ریاض احمدچودھری
مسلمانوں سے بغض میں بی جے پی رہنما نے شرانگیزی پھیلاتے ہوئے کہا کہ ہندو علاقے میں کسی بھی مسلمان کو بریانی فروخت کرنے اور کھانے کے لیے دکان نہیں دی جائے گی۔ بھارت ریاست اتر پردیش کے ضلع مراد آباد میں ایک خاتون بی جے پی لیڈر نے مسلمان دکانداروں کو ہندو علاقہ رام گنگا وِہار سے دکانیں خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔خاتون رہنما کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔بی جے پی رہنما سنیتا شرما نامی خاتون نے یہ نفرت انگیز بیان دیا ہے جو کہ مقامی سطح پر سیاست کرتی ہیں، ویڈیو میں دیکھا گیا کہ وہ ہاتھ میں مائیک لے کر مسلم دکانداروں کو دھمکا رہی ہیں جنھوں نے رام گنگا وِہار کے علاقے میں نان ویج کی دکانیں کھول رکھی ہیں۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی لیڈر سنیتا شرما وہاں پہنچیں اور مسلمانوں کو ہندو علاقوں میں دکان دینے سے منع کرتی نظر آئیں، انھوں نے کہا کہ اگر کوئی مسلمان اس علاقے میں نان ویج کی دکان کھولتا ہے تو اس کے خلاف مظاہرہ کیا جائے گا۔
بھارت کی 14 فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل مسلمانوں کی بی جے پی کے دور حکومت میں نمائندگی پانچ فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔مسلمان خواندگی، آمدنی اور تعلیم تک رسائی میں ہندوؤں، عیسائیوں اور ہندوستان کی نچلی ذاتوں سے پیچھے ہیں، مودی سرکار کے بغض کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی بھارتی مسلمانوں کی کامیابی نہیں دیکھ سکتی، بی جے پی نے ہر لحاظ سے بھارتی سرزمین مسلمانوں کیلئے تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔تعداد کے تناظر میں دیکھا جائے توکیا کوئی جماعت مسلمانوں سے منہ موڑ سکتی ہے؟ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں مگر ان کو ٹکٹ دینے کے نام پر خاموش ہو جاتی ہیں۔ بھارت کی ساری سیاسی پارٹیاں خود کو سیکولر کہتی ہیں مگر جب سیکولر ازم کا عملی مظاہرہ کرنے کا وقت آتا ہے تو کٹر ہندو بن جاتی ہیں۔ کانگریس تو سیکولر ازم کی سب سے بڑی دعویدار ہے۔ مسلمانوں سے ظاہراً ہمدردی بھی رکھتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ملک کی واحد جماعت ہے جسے مسلمانوں کے مفادات کی پرواہ ہے لیکن دوسری طرف پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کانگریس کو بھی پسند نہیں۔ سیکولرازم کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کانگریس، راشٹر وادی کانگریس، بہوجن سماج پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل جیسی جماعتیں مسلمانوں کو سیاسی تحفظات دیے جانے کے مطالبہ پر اندھی ، بہری، گونگی ہوجاتی ہیں۔ مسلمانوں سے ووٹ لینے کیلئے ان کو ڈرایا جاتا ہے ، دھمکایا جاتا ہے ، فرقہ پرستی کا خوف دلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہمیں ووٹ نہ دیا تو پورا بھارت گجرات بن جائے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارتی آبادی کے 14 فیصد مسلمانوں کی لوک سبھا میں نمائندگی 5 فیصد سے بھی کم ہے۔
بھارت میںحالیہ عام انتخابات کے دوران 78مسلمان امیدوار وں میں سے صرف24 مسلمان اراکین پارلیمنٹ کامیاب ہوئے۔ جن نشستوں پر مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے ان میں سے 14 ایسی نشستیں ہیں جہاں مسلم کمیونٹی اکثریت میں ہے۔ کامیاب ہونیوالے تمام مسلمان امیدواروں کی وابستگی اپوزیشن اتحاد ،انڈیا سے ہے۔2019 کے انتخابات میں 26 مسلمان امیدوار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر قابض مودی سرکار نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کو نشانے پر ہوا ہے۔ مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی اور سیاسی طاقت کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے، اسکے علاوہ سرکاری نوکریوں اور سول سروسز کے اعلی امتحانوں میں ہر سال مسلمان امیدواروں کے اکثریت جان بوجھ کر کم رکھی جاتی ہے۔ بھارتی سول سروسز میں گزشتہ سال محض 6 مسلمان امیدوار منتخب ہوئے۔ مسلمان بھارت میں 200 ملین کی آبادی رکھتے ہیں جبکہ نام نہاد جمہوریت کی دعویدار مودی سرکار نے مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو بھی سبوتاژ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ حال ہی میں مودی نے انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریروں میں مسلم مخالف بیان بازی کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ، 2014 سے قبل بی جے پی میں جو مسلم نمائندگی موجود تھی وہ مودی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ختم ہو کر رہ گئی۔ بھارت اب ایسی ریاست بن چکا ہے جان بوجھ کر مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، مسلمانوں کی بھارت میں نمائندگی کو مٹانے میں مودی سرکار کا یہ مقصد پنہاں ہے کہ وہ تعلیم، نوکریوں، صحت اور دوسری تمام بنیادی سہولیات کا مطالبہ کرنے سے قاصر ہو جائیں۔
٭٭٭