... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
ایک وقت تھا کہ ہم کھیلوں کے سلطان ہوا کرتے تھے۔ ا سکولوں سے لیکر کالجز اور یونیورسٹیوں تک کھیلوں کے ٹورنامنٹ ہوتے رہتے تھے ان مقابلوں میں اچھا کھیلنے والے پھر قومی ٹیم میں شامل ہو جاتے جسکے بعد دنیا میں ہماری الگ پہچان ہو گئی اور اس دور کے بنے ہوئے ریکارڈ آج تک کوئی توڑ نہیں سکا ۔
پاکستانی کی ہاکی ٹیم جہاںجاتی کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر واپس آتی مسلسل تین بار ہاکی کا ورلڈ کپ جیت کر نیا ریکارڈ قائم کیا اسی طرح سکوائش میں مسلسل 11بار ورلڈ چیمپئن رہنے والا پاکستان آج اس کھیل سے بھی محروم ہوگیا کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سفارشی کھلاڑیوں نے اس کھیل کا بھی بیڑہ غرق کردیا اور رہی سہی کسر تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی بندش سے پوری ہوگئی جسکے بعد ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات نے لے لی ۔ہماری نوجوان نسل نشہ کی عادی ہوگئی۔ اب بھی ہم کھیلوں کے بادشاہ بن سکتے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس عقیل جاوید بٹ جیسے کوچ ہوںجنکی محنت سے آج لڑکیاں بھی کھیل کے میدان میں آکر فخر سے اپنا سر بلند کررہی ہیں۔ اگر حکومت نے ان قابل فخر کھلاڑیوں کے سر پر دست شفقت نہ رکھا تو پھر صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے ۔جیسا کہ اب پاکستان میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اس کے عادی افراد کی تعداد میں خطرناک اضافہ اس قدر سنگین صورت اختیار کرچکا ہے اور یہ مسئلہ قومی سطح پر سب سے بڑے چیلنجز میں شمار کیا جارہا ہے۔ گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں جب یہ بات کہی گئی کہ ”کالج اور جامعات میں بچے بچیاں منشیات استعمال کررہے ہیں اے این ایف صرف ایک مہینہ دل لگا کر کام کرلے تو ملک سے منشیات ختم ہوسکتی ہے یہ ہماری آنے والی نسلوں کا معاملہ ہے تو یہ جملہ محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک گہری حقیقت کی عکاسی کرتا ہے یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ منشیات نے کس طرح تعلیمی اداروں اور نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ناسور آنے والے برسوں میں ایک تباہ کن سماجی سانحہ بن جائے گا معاملہ کس قدر بگڑ چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج ملک کے ہر بڑے شہر میں منشیات عام دستیاب ہیں خاص طور پر تعلیمی ادارے، جو نوجوانوں کی شخصیت سازی اور کردار سازی کے مراکز ہونے چاہئیں تھے وہاں منشیات کے اڈے قائم ہیں ۔یہ صرف چند گمراہ عناصر کا کھیل نہیں بلکہ ایک منظم مافیا ہے جو منشیات کے کاروبار کو ریاستی کمزوریوں کے سبب فروغ دے رہا ہے۔ اس بگاڑ میں ہر اُس ادارے کا کردار شامل ہے جو جرائم خصوصاً منشیات کے انسداد کے لیے بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انسدادِ منشیات فورس (اے این ایف) سے لے کر مقامی پولیس تک اکثر جگہوں پر صورتحال یہ رہی ہے کہ یا تو یہ ادارے بے بس دکھائی دیے یا پھر براہِ راست اس کاروبار سے مالی طور پر مستفید ہوتے رہے ۔کئی شہروں میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تھانے منشیات کے اڈے بن گئے۔ کچھ پولیس اہلکار خود نشے کا شکار ہوکر نہ صرف اپنی ڈیوٹی کے اہل نہ رہے بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس نے معاشرے میں منشیات فروشوں کو بد مست ہاتھی کی طرح دندناتے پھرنے کی ہمت دی۔
اب سوال یہ ہے کہ ان اداروں کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ سب سے بڑی وجہ ناقص حکمتِ عملی اور بدعنوانی ہے منشیات کے خاتمے کے لیے اگرچہ مختلف قوانین، خصوصی فورسز اور نگرانی کے نظام تشکیل دیے گئے مگر ان سب میں ہم آہنگی کا فقدان ہے 32 ادارے بظاہر اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں لیکن عملی میدان میں ان کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ آج بھی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کھلے عام دستیاب ہیں۔ قائمہ کمیٹی میں یہ بھی بتایا گیا کہ بچے اور بچیاں واٹس ایپ کے ذریعے منشیات منگواتے ہیں موٹرسائیکل سوار ڈیلر یہ نشہ گھروں تک پہنچاتے ہیں ۔اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ہر گلی اور محلے میں منشیات دستیاب ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ادارے اکثر محض اعداد و شمار پیش کرکے اپنی کامیابی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کچھ کلو منشیات پکڑ لینے یا چند افراد گرفتار کرنے سے یہ تصور دینا کہ ملک منشیات سے پاک ہورہا ہے سراسر دھوکہ ہے۔ اگر اس مسئلے کو صرف اجلاسوں، کاغذی کارروائیوں اور دکھاوے کی مہمات تک محدود رکھا گیا تو یہ آنے والی نسلوں کو تباہی کی طرف دھکیل دے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ریاستی ادارے محض بیانات اور بریفنگز سے آگے بڑھ کر عملی سطح پر ایسے اقدامات کریں جو اس ناسور کا جڑ سے خاتمہ کریں۔ بصورتِ دیگر یہ المیہ آنے والی دہائیوں میں پاکستان کو ایک ”نشہ زدہ معاشرہ” بنا دے گا جس میں تعلیم، اخلاقیات اور انسانی اقدار سب کچھ برباد ہوجائے گا۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اداروں میں ایماندار اشخاص کو تعینات کیا جائے اور ساتھ میں تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی طرف توجہ دی جائے ۔بلاشبہ اس حوالہ سے پنجاب سپورٹس بورڈ بھی اچھا کام کررہا ہے اور کچھ محنتی قسم کے لوگ بھی مختلف کھیلوں میں جان مار رہے ہیں ۔میں نے شروع میں عقیل جاوید بٹ کا ذکر کیا تھا جنہوں نے نہ صرف لڑکوں میں بلکہ لڑکیوں میں بھی کھیل کا جنون پیدا کردیا ہے۔ ان کے درجنوں شاگر اپنی مدد آپ کے تحت محنت کررہے ہیں ۔ان میں سے میں صرف دو لڑکیوں کی مثال پیش کرتا ہوں ایک حرا خان جو شادی کے بعد اپنا شوق پورا کرنے کے لیے میدان میں اتری اور دوسری آرزو امجد جنہوں نے پاور لفٹنگ اور ویٹ لفٹنگ میں اپنا لوہا منوایا۔
کھیلوں کی دنیا میں اکثر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ شادی کے بعد خواتین اپنے خوابوں اور شوق کو ترک کر دیتی ہیں مگر حرا خان نے اس روایت کو توڑ کر یہ ثابت کر دیا کہ اگر ارادے مضبوط ہوں تو راستے خود ہموار ہو جاتے ہیں شادی اور پھر تین بچوں کے بعد کھیل کے میدان میں قدم رکھنے والی حرا خان نے نہ صرف اپنی پہچان بنائی بلکہ پنجاب بھر میں شاندار کامیابیاں سمیٹ کر نئی تاریخ رقم کی۔ اسی طرح آرزو امجد کی کامیابی بھی اسی سلسلے کی ایک روشن کڑی ہے ۔ خواب دیکھنے اور انہیں پورا کرنے کے لئے صرف ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے ۔ان کی یہ کامیابی دراصل ان تمام لڑکیوں کی کامیابی ہے جو سماجی دباؤ، معاشرتی رکاوٹوں اور گھریلو ذمہ داریوں کے خوف کی وجہ سے اپنے خوابوں کو دبانے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں اکثر بیٹیوں کو ”کھیلوں” کو وقت کا ضیاع سمجھا کر روکا جاتا ہے وہاں آرزو نے سب کے سامنے یہ پیغام رکھا ہے کہ کھیل صرف جسمانی طاقت کا نام نہیں بلکہ اعتماد، خود اعتمادی اور عزتِ نفس کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ اب بھی اگر حکومت اور حکومتی اداروں نے اس طرف توجہ نہ دی تو پھر قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی رپورٹ ہمارے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔