... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
جمشید ساحل نے عرصہ پہلے کہا تھا
پانی بھی تماشا ہے
کبھی آنسو بنا تو کبھی سیلاب
جو میرے ارمان بہا کر لے جاتا ہے
اس سیلاب نے 15لاکھ لوگوں کو بے گھر کیا ۔یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں لیکن تباہی کی زد میں اس سے کئی گنا زیادہ لوگ آئے ۔سیلاب آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں؟ یہ سوال اب بچکانہ نہیں رہا، یہ طنز ہے، تلخ حقیقت ہے، اور شاید ہماری اجتماعی نالائقی کا آئینہ ہے۔ بارشیں تو ہزاروں برس سے برس رہی ہیں، دریا بھی ہمیشہ سے بہہ رہے ہیں، زمین بھی اسی طرح پانی جذب کرتی رہی ہے، لیکن پچھلی چند دہائیوں میں یہ کیا ہوا کہ ہر برس برسات آفت لگنے لگی؟ اس کا جواب بڑا سیدھا ہے۔ سیلاب قدرت نہیں، ہم خود لاتے ہیں۔
قدرت کا ”جرم” صرف اتنا ہے کہ بادل برساتے ہیں۔ باقی سب قصور ہمارا ہے۔ برساتی نالے ہم نے پختہ مکانات اور پلازوں کے نیچے دفن کر دیے، درخت ہم نے لکڑی کے نام پر کاٹ دیے، پانی کے قدرتی راستے ہم نے سڑکوں اور کالونیوں سے بند کر دیے، اور پھر جب بارش ہوتی ہے تو پانی ہم سے حساب مانگنے آتا ہے۔ یہ وہی معاملہ ہے جیسے کوئی خود ہی اپنے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑے اور پھر شور مچائے کہ ”چور آ گیا”۔
حکمرانوں کا حال تو اور بھی دلچسپ ہے۔ ہر سال سیلاب کا موسم ان کے لیے ”سیاسی شو” کا موسم بن جاتا ہے۔ وزرا رینجرز کی کشتیوں میں فوٹو سیشن کرتے ہیں، کسی کا بوٹ پانی میں ڈبکیاں کھاتا ہے تو تصویر اخبار کی زینت بنتی ہے۔ امداد کے بڑے بڑے اعلان ہوتے ہیں، اربوں روپے کے پیکیج کا چرچا ہوتا ہے، لیکن غریب کے خیمے میں دال کا ایک پیکٹ بھی نہیں پہنچتا۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ آفات نہیں، بلکہ اقتدار کے اشتہار ہیں۔کہا جارہا ہے کہ ”بل گیٹس فائونڈیشن ”نے دس لاکھ ڈالر کی امداد کی ،یو این او کے ادارے نے 6لاکھ ڈالر پرووائیڈ کئے ،جبکہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے 30لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔
اور عوام؟ وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں۔ نالوں میں پلاسٹک بیگ ہم پھینکتے ہیں، کچرا ہم بہاتے ہیں، غیر قانونی تعمیرات ہم کرتے ہیں۔ پھر جب پانی چھتوں تک آتا ہے تو حکومت کو کوستے ہیں۔ قصوروار دراصل ہم سب ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے سیلاب کے لیے اپنی اینٹ پانی کے راستے میں رکھی ہے۔اداروں کا حال تو اور بھی مضحکہ خیز ہے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے بڑے بڑے دفاتر ہیں، اربوں کے بجٹ ہیں، لیکن آفت آتے ہی ان کی کارکردگی بھی ڈوب جاتی ہے۔ ان کے افسر صرف ٹی وی اسکرینوں پر نظر آتے ہیں، اور عوام صرف کشتیوں پر۔ لگتا ہے جیسے یہ ادارے کاغذی قلعے ہیں جو ہر سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ان حادثات کو ”قدرتی” قرار دے کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔ بارش کو گالی دیتے ہیں، آسمان کو کوستے ہیں، مگر اپنی کوتاہیوں کو نہیں دیکھتے۔ بارش تو زمین کو زرخیز کرنے آتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرنے آتی ہے۔ لیکن جب ہم نے پانی کے راستے مسدود کر دیے، درخت کاٹ ڈالے، ڈیم نہ بنائے، نالے نہ صاف کیے تو یہ رحمت لعنت میں بدل گئی۔دراصل مسئلہ صرف پانی کا نہیں، مسئلہ ہماری نیتوں اور ترجیحات کا ہے۔ ہم پل بنانے کے بجائے اشتہاری بورڈ بناتے ہیں۔ ڈیم بنانے کے بجائے جلسوں کے اسٹیج بناتے ہیں۔ سکول، اسپتال اور نکاسی? آب کے منصوبے ہمارے لیے اہم نہیں، مگر ووٹ بینک کے لیے سڑک کا افتتاح کر دینا سب سے بڑا کارنامہ لگتا ہے۔ یہ قوم زندہ رہتی ہے فوٹو سیشن پر، اور ڈوبتی ہے پانی میں۔
طنز کی تلخی یہ ہے کہ جب تک یہ کھیل جاری ہے، سیلاب آتے نہیں رہیں گے، بلکہ لائے جاتے رہیں گے۔ کبھی قدرت کی آڑ میں، کبھی سیاست کے کھیل میں، کبھی ہماری اپنی غفلت میں۔ اور جب تک ہم یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اصل آفت ہماری بدنظمی ہے، تب تک ہر سال یہ پانی ہماری بستیوں کو بہاتا رہے گا، ہماری زندگیاں اجاڑتا رہے گا اور ہم چیختے رہیں گے ”حادثہ ہو گیا”۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حادثے نہیں ہوتے، ہم خود حادثے پیدا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔