وجود

... loading ...

وجود

پانی بھی تماشا ہے !

پیر 01 ستمبر 2025 پانی بھی تماشا ہے !

ب نقاب /ایم آر ملک

جمشید ساحل نے عرصہ پہلے کہا تھا
پانی بھی تماشا ہے
کبھی آنسو بنا تو کبھی سیلاب
جو میرے ارمان بہا کر لے جاتا ہے
اس سیلاب نے 15لاکھ لوگوں کو بے گھر کیا ۔یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں لیکن تباہی کی زد میں اس سے کئی گنا زیادہ لوگ آئے ۔سیلاب آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں؟ یہ سوال اب بچکانہ نہیں رہا، یہ طنز ہے، تلخ حقیقت ہے، اور شاید ہماری اجتماعی نالائقی کا آئینہ ہے۔ بارشیں تو ہزاروں برس سے برس رہی ہیں، دریا بھی ہمیشہ سے بہہ رہے ہیں، زمین بھی اسی طرح پانی جذب کرتی رہی ہے، لیکن پچھلی چند دہائیوں میں یہ کیا ہوا کہ ہر برس برسات آفت لگنے لگی؟ اس کا جواب بڑا سیدھا ہے۔ سیلاب قدرت نہیں، ہم خود لاتے ہیں۔
قدرت کا ”جرم” صرف اتنا ہے کہ بادل برساتے ہیں۔ باقی سب قصور ہمارا ہے۔ برساتی نالے ہم نے پختہ مکانات اور پلازوں کے نیچے دفن کر دیے، درخت ہم نے لکڑی کے نام پر کاٹ دیے، پانی کے قدرتی راستے ہم نے سڑکوں اور کالونیوں سے بند کر دیے، اور پھر جب بارش ہوتی ہے تو پانی ہم سے حساب مانگنے آتا ہے۔ یہ وہی معاملہ ہے جیسے کوئی خود ہی اپنے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑے اور پھر شور مچائے کہ ”چور آ گیا”۔
حکمرانوں کا حال تو اور بھی دلچسپ ہے۔ ہر سال سیلاب کا موسم ان کے لیے ”سیاسی شو” کا موسم بن جاتا ہے۔ وزرا رینجرز کی کشتیوں میں فوٹو سیشن کرتے ہیں، کسی کا بوٹ پانی میں ڈبکیاں کھاتا ہے تو تصویر اخبار کی زینت بنتی ہے۔ امداد کے بڑے بڑے اعلان ہوتے ہیں، اربوں روپے کے پیکیج کا چرچا ہوتا ہے، لیکن غریب کے خیمے میں دال کا ایک پیکٹ بھی نہیں پہنچتا۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ آفات نہیں، بلکہ اقتدار کے اشتہار ہیں۔کہا جارہا ہے کہ ”بل گیٹس فائونڈیشن ”نے دس لاکھ ڈالر کی امداد کی ،یو این او کے ادارے نے 6لاکھ ڈالر پرووائیڈ کئے ،جبکہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے 30لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔
اور عوام؟ وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں۔ نالوں میں پلاسٹک بیگ ہم پھینکتے ہیں، کچرا ہم بہاتے ہیں، غیر قانونی تعمیرات ہم کرتے ہیں۔ پھر جب پانی چھتوں تک آتا ہے تو حکومت کو کوستے ہیں۔ قصوروار دراصل ہم سب ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے سیلاب کے لیے اپنی اینٹ پانی کے راستے میں رکھی ہے۔اداروں کا حال تو اور بھی مضحکہ خیز ہے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے بڑے بڑے دفاتر ہیں، اربوں کے بجٹ ہیں، لیکن آفت آتے ہی ان کی کارکردگی بھی ڈوب جاتی ہے۔ ان کے افسر صرف ٹی وی اسکرینوں پر نظر آتے ہیں، اور عوام صرف کشتیوں پر۔ لگتا ہے جیسے یہ ادارے کاغذی قلعے ہیں جو ہر سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ان حادثات کو ”قدرتی” قرار دے کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔ بارش کو گالی دیتے ہیں، آسمان کو کوستے ہیں، مگر اپنی کوتاہیوں کو نہیں دیکھتے۔ بارش تو زمین کو زرخیز کرنے آتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرنے آتی ہے۔ لیکن جب ہم نے پانی کے راستے مسدود کر دیے، درخت کاٹ ڈالے، ڈیم نہ بنائے، نالے نہ صاف کیے تو یہ رحمت لعنت میں بدل گئی۔دراصل مسئلہ صرف پانی کا نہیں، مسئلہ ہماری نیتوں اور ترجیحات کا ہے۔ ہم پل بنانے کے بجائے اشتہاری بورڈ بناتے ہیں۔ ڈیم بنانے کے بجائے جلسوں کے اسٹیج بناتے ہیں۔ سکول، اسپتال اور نکاسی? آب کے منصوبے ہمارے لیے اہم نہیں، مگر ووٹ بینک کے لیے سڑک کا افتتاح کر دینا سب سے بڑا کارنامہ لگتا ہے۔ یہ قوم زندہ رہتی ہے فوٹو سیشن پر، اور ڈوبتی ہے پانی میں۔
طنز کی تلخی یہ ہے کہ جب تک یہ کھیل جاری ہے، سیلاب آتے نہیں رہیں گے، بلکہ لائے جاتے رہیں گے۔ کبھی قدرت کی آڑ میں، کبھی سیاست کے کھیل میں، کبھی ہماری اپنی غفلت میں۔ اور جب تک ہم یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اصل آفت ہماری بدنظمی ہے، تب تک ہر سال یہ پانی ہماری بستیوں کو بہاتا رہے گا، ہماری زندگیاں اجاڑتا رہے گا اور ہم چیختے رہیں گے ”حادثہ ہو گیا”۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حادثے نہیں ہوتے، ہم خود حادثے پیدا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول وجود پیر 01 ستمبر 2025
نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول

ہندوتوا سے مسلمان غیر محفوظ وجود پیر 01 ستمبر 2025
ہندوتوا سے مسلمان غیر محفوظ

نشہ یا کھیل ایک سوالیہ نشان؟ وجود پیر 01 ستمبر 2025
نشہ یا کھیل ایک سوالیہ نشان؟

پانی بھی تماشا ہے ! وجود پیر 01 ستمبر 2025
پانی بھی تماشا ہے !

پاکستان اور بنگلہ دیش دوستی کانیا سفر وجود اتوار 31 اگست 2025
پاکستان اور بنگلہ دیش دوستی کانیا سفر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر