... loading ...
ماجرا/محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب انیس سال بیتتے ہیں!ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی قتل کر دیے گئے تھے۔ پورے پاکستان نے ٹھنڈے پیٹوں بلوچستان کو دائم فوجی کارروائیوں کے ساتھ قبول کیا ہے۔ اس حوالے سے ‘عسکری بیانیہ’ ہمیشہ’ قومی بیانیہ’ سمجھا گیا۔ سوال یہ ہے جراحتوں نے ہمارے قومی وجود کا کیا حلیہ بنا دیا ؟
نواب اکبر بگٹی کو ایک فوجی آپریشن کے دوران 26 اگست 2006ء میں قتل کیا گیا، تب اُن کی عمر 80 برس تھی۔اس سے قبل ایک اور بلوچ لیڈر کو پیرانہ سالی میں زنداں میں اس طرح ڈالا گیا کہ اُن کی لاش ہی جیل سے باہر آسکی تھی۔ یہ نواب نوروز خان تھے، جب اُن کی لاش حیدر آباد جیل سے نکلی تو عمر نوے برس تھی۔پاکستان میں ون یونٹ(1955) کے قیام پر بے چین بلوچستان تب بپھر گیا تھا جب قبائلی ڈھانچے اور سرداروں کے عادی اس معاشرے کو خان آف قلات کی 1958 میں گرفتاری سے چھیڑا گیا۔ خان کے خاندان نے تین صدیوں سے زائد عرصہ تک بلوچستان میں حکمرانی کی تھی۔ یہ ایوب خان کا دور تھا۔ جو طاقت کی حرکیات میں پاکستان کے پورے تخلیقی منصوبے کے برخلاف بروئے کا رتھے۔ بعد کے تمام ماہ وسال میں جرنیلی نفسیات میں ایوب خان کی روح بسی رہی۔خان آف قلات کی گرفتاری کے آمرانہ اور عامیانہ فیصلے نے بلوچستان کے اندر بغاوت کے بیج بو دیے۔ آہستہ آہستہ یہ بغاوت ایک طرف جھالاوان اور دوسری طرف مشرقی بلوچستان میں کوہلو اور ڈیرہ بگٹی تک جڑیں پکڑتی رہیں۔ایوب خان کے پاس کوئی حل نہ تھا۔ وہ دماغ کا کام بھی ہاتھوں سے لینے پر تُلے بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے بری اور فضائی طاقت استعمال کی۔اس دوران میں نواب نوروز خان نے ہتھیار سنبھالے اور پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ حالات کی ریت اقتدار کی مٹھی سے پھسلنے لگی تو مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ تاریخی حوالوں میں کسی برگیڈئیر ریاض حسین کا نام اُبھرتا ہے جو آپریشن کے کمانڈر تھے اور مذاکرات میں وعدے بھی کر رہے تھے۔ نواب نوروز نے وعدوں پر اعتبار نہ کیا تو ایک جرگہ اُن کے پاس بھیجا گیا جن کی گود میں قرآن تھا جسے بطور ضامن پیش کیا گیا۔ نواب نوروز قرآن پاک کے احترام میں وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے پہاڑوں سے نیچے اُتر آئے تو اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ آصف زرداری نے تو بہت برسوں بعد کہا تھا کہ معاہدے قرآن اور حدیث نہیں ہوتے۔ اُن سے بہت پہلے قرآن پر کیے گئے وعدے بھی روندے گئے ۔نواب نوروز کو مختلف جیلوں کے بعد حیدر آباد جیل منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اُن کے بیٹے سمیت سات ساتھیوں کو پھانسی ہوئی۔ بوڑھے نواب نے پھانسی پانے والے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا تو ہاتھ سے اُن کی مونچھوں کو بلند کردیا تھا۔ اس واقعے کے پانچ سال بعد وہ اسی جیل میں25دسمبر 1965کو انتقال کر گئے ۔پیرانہ سالی میں یہ سلوک بلوچ کبھی نہیں بھولے۔ اب اُن کی نسلوں کو یہ سارے واقعات ایک سبق کے طور پر یاد کرائے جاتے ہیں۔ اس خاکسار نے دو دہائیوں قبل ”بلوچ سرمچاروں ”کے طرزِ حیات میں دلچسپی لیتے ہوئے کوئٹہ کے لوڈز ہوٹل میں بسیرا کیا تو کالج کے اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے طلباء ان واقعات کا ذکر کیا کرتے تھے۔
نواب اکبر بگٹی کے اسی برس کی عمر میں قتل نے ان واقعات میںصرف اضافہ نہ کیا تھا، بلکہ بلوچ بغاوت کو نئی جہت بھی دے دی۔ جنرل پرویز مشرف نے کوئٹہ کے دورے میں بلوچستان سے ماضی کی زیادتیوں پر معافی مانگی تھی۔مگر دو سال بعد ہی فوجی کارروائی کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ وہ بلوچستان کی ترقی چاہتے ہیں۔ بلوچستان کو ترقی کے لیے ”سازگار” بناتے ہوئے وہ اکبر بگٹی کی لاش کا تحفہ بلوچ مزاحمت کاروں کو دے بیٹھے۔جنرل مشرف سے قبل ایک اور عسکری دور میں بھیانک غلطی ہو چکی تھی ۔ یہ جنرل ضیاء کا دور تھا، جن کے پاس بلوچستان سے بڑا محاذ افغانستان کا تھا، اُنہوں نے نواب خیر بخش مری کو افغانستان سے واپس مختلف وعدوں کے ساتھ بلا لیا تھا۔ وہ نومبر 1978ء میںسات سال کے لیے صوبائی اور مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دینے پر افغانستان چلے گئے تھے۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ وہ تحریک انصاف کے ارکان کو نااہل قرار دے کر باربار کی ہوئی غلطیاں دُہرا رہی ہے۔ نواب خیر بخش مری نے افغانستان سے واپسی کے بعد بلوچوں میں ”حق توار” (وہ جن کی بات سنی نہیں جاتی) کے عنوان سے فکری نشستیں شروع کیں۔ جن میں بلوچ محرومیوں کو فکری سطح پر اجاگر کیا جاتا اور ظلم کی تشریح میں وطن عزیز کے طاقت وروں کو ایک استعماری قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ۔ یہ وہ دور تھا جب فکری سطح کے مباحث تو موجود رہے مگر دہشت گردی کے واقعات بہت محدود ہو گئے تھے۔ اسی دور میں بلوچستان کے اندر فکری سطح پر محنت کی ضرورت تھی۔ مگر بندوق کی نفسیات قومی جسم میں سوائے ہاتھ کی حرکت کے کسی پر یقین نہیں رکھتی۔ موقع ضائع ہو گیا اور غلطی وہی ہوئی جو پہلے کی گئی ۔ نتائج پہلے مختلف نہیں تھے ، اب کیسے ہوتے؟
جنرل پرویز مشرف نے فوجی آپریشن شروع کرتے ہوئے بلوچستان کی ترقی کی بات کی تو بلوچ جو فکری سطح کی بے شمار سرگرمیوں میں افریقا سے لے کر لاطینی امریکا تک ترقی اور استعماریت کے درمیان ایک ”نامیاتی رشتہ” ذہنوں میں پہلے ہی رکھتے تھے، انگڑائیاں لینے لگے۔ اُن کے پاس مثالیں موجود تھیں ، طاقت کی اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ وہ ایوب خان کے دور کی مثال دیتے جب قرآن پاک کی ضمانت پر نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے اُتارا گیا۔ وہ جنرل مشرف کے آپریشن کے خلاف خود اُن کی دوسال پہلے کی مانگی گئی ”معافی” کا تذکرہ کرتے۔ ایسے میں 17 مارچ2005ء کو بگٹی قبائل اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کے درمیان جھڑپوںکے افسوس ناک واقعات ہوئے، نواب اکبر بگٹی کادعویٰ تھا کہ اس میں70سے زائد بے گناہ شہری نشانہ بنے۔ ان واقعات کے پس منظر میں لیڈی ڈاکٹر شازیہ سے مبینہ جنسی زیادتی کا غصہ شامل تھا۔ جس پر سرکاری موقف بلوچوں نے تسلیم نہیں کیا۔ان افسوس ناک واقعات کے تسلسل میں دوطرفہ حملے جاری رہے اور بآلاخر نواب اکبر بگٹی اپنی جان ہار بیٹھے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پر پرویز مشرف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ ، گورنر بلوچستان اویس احمد غنی، سابق وزیر اعلیٰ جام محمد یوسف مرحوم اور سابق ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی عبد الصمد لاسی کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ ایڈووکیٹ نے ایک عدالتی سماعت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے دلچسپ طور پر کہا تھاکہ نواب بگٹی کی موت کا واقعہ ایک حادثہ تھا اس لیے اسے ایک حادثہ اور خدا کی رضا کے طور پر قبول کیا جائے ۔تاریخ ایسے واقعات کو بھول چوک کے خانے میں نہیں رکھتی۔اور نہ ہی حادثہ کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہے کیونکہ سماج پر اس کے اثرات ہوتے ہیں اور تاریخ اُسے سمیٹنا شروع کر دیتی ہے۔
نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچ بغاوت نے پس منظر سے پیش منظر کی طرف چھلانگ لگائی۔ بلوچ بغاوت نے سیاسی نفسیات سے سماجی حرکیات تک سفر کیا۔ یہ اچانک سیاسی جماعتوں کی دسترس سے نکل کر متوسط طبقے کے پاس چلی گئی جسے پڑھے لکھے طبقے کی شمولیت نے کافی خطرناک بنا دیا۔ ابھی چند ہفتوں قبل سفیان کرد نامی ایک نوجوان اسی بغاوت کی نذر ہوا۔ مگر وہ کوئی سادہ یا غریب نوجوان نہ تھا۔ سفیان کرد نئی گاڑیوں میںسفر کرنے والا ایک خوش باش نوجوان تھا۔ ایک شاعر اور پولیٹیکل سائنس کا طالب علم تھا۔ اُس کی زندگی کا بیشتر حصہ بلوچستان میں گزرا بھی نہ تھا۔ وہ چوتھی سے میٹرک تک کراچی میں زیر تعلیم رہا۔ پھر پنجاب میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ ایک سال قبل اچانک وہ پنجاب سے بلوچستان پہنچا اور اپنے گھر ایک نوٹ بھیجا کہ وہ بلوچستان کی تحریک سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔پرویز مشرف کے وکیل کی طرح سفیان کرد نواب بگٹی کی موت کو حادثہ سمجھنے پر تیار نہیں، بلوچ سماج کے اندر اکبر بگٹی کے قتل کے بعد جس نفرت اور بغاوت نے پرورش پائی ، اس سے مزاحمت کی سیاسی بحث ختم ہو گئی ہے۔ یہ غریبوں سے امیروں تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس بغاوت کی قیادت سرداروں کے ہاتھوں سے پھسل کر متوسط طبقے اور دانشور حلقوں کے پاس آگئی ہے۔ اس تباہ کن بدلاؤ کو دعووں اوربیانات کے بجائے تاریخ کے سیاق وسباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔حکمرانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کے اقدامات اکبر بگٹی کی طرح مرتے نہیں۔ بلکہ تاریخ کے ساتھ سفر کرتے کرتے مستقبل میں مستقل نتائج پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اکبر بگٹی مرگئے مگر بلوچ بغاوت کو زندگی دے گئے۔
٭٭٭