... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
بہار ایس آئی آر معاملے میں سپریم کورٹ کے اندرسماعت بالکل فلمی ہوگئی ہے ۔ اس میں پروفیسر یوگیندر یادو دو ایسے لوگوں کے ساتھ پہنچ
گئے جنھیں الیکشن کمیشن نے مردہ قرار دے کر اپنی فہرست سے خارج کر دیا۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نظام پاشا نے
عدالت میں الزام لگایا کہ فارم جمع کرنے کے باوجود لوگوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے مثال دی کہ صرف ایک
ہی بوتھ سے 231 ایسے افراد کے نام ہٹا دیئے گئے جو 2003 کی ووٹر فہرست میں شامل تھے ۔ اس پر جسٹس باغچی کو کہنا پڑا کہ ہم
درخواست گزاروں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے فہرست دینے کے لیے کہا تاکہ معاملہ درست کیا جا سکے ۔ سپریم کورٹ نے جب
الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ 65 لاکھ ووٹروں کے جو نام فہرست سے ہٹائے گئے انہیں عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟ 22 لاکھ لوگ
مردہ پائے گئے ہیں تو ان کے نام کیوں ظاہر نہیں کیے جا رہے ؟ اور حکم دیا کہ یہ ڈیٹا عوامی کیا جانا چاہیے ۔ تو الیکشن کمیشن کوکہنا پڑا ٹھیک ہے ،
اگر عدالت کا یہ حکم ہے تو وہ یہ ڈیٹا عوام کے سامنے پیش کر دیں گے ۔
سپریم کورٹ نے بہار ایس آئی آر معاملے پر الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ تین دن کے اندر65 لاکھ افراد کا ڈیٹا ضلعی سطح کی ویب
سائٹ پر عوامی کریں اور ان کے ہٹائے جانے کی وجہ بھی بتائیں۔ عدالت نے کہا کہ بوتھ سطح کے افسر بھی ہٹائے گئے ووٹروں کی فہرست
آویزاں کریں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ اس فہرست کی اشاعت کے بارے میں بہار کے سب سے زیادہ
پڑھے جانے والے اخبارات کے ذریعے وسیع پیمانے پر مطلع کرے ۔ اس کے علاوہ اس فہرست کو دوردرشن اور ریڈیو چینلوں پر بھی نشر کیا جانا
چاہیے ۔ اگر کسی ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر کا سوشل میڈیا پیج ہے تو وہاں بھی پبلک نوٹس لگایا جائے ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ عوامی نوٹس میں یہ
واضح طور پر لکھا ہونا چاہیے کہ متاثرہ شخص اپنے دعوے کے ساتھ آدھار کارڈ کی کاپی بھی جمع کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ الیکشن
کمیشن تسلیم شدہ دستاویزوں میں آدھار کو شامل کرے ۔اس غیر متوقع فیصلے سے حزب اختلاف خوشی سے فیض احمد فیض کے اس قطعہ کی
مصداق جھوم اٹھا
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
جسٹس باغچی نے دورانِ سماعت الیکشن کمیشن سے بڑی سادگی کے ساتھ پوچھا کہ’آپ ویب سائٹ پر مردہ، ٹرانسفر یا ڈپلیکیٹ ووٹروں
کے نام کیوں نہیں ڈال رہے ہیں؟انہوں نے نرمی سے فرمایا ‘ ہم آپ پر تنقید نہیں کر رہے لیکن شفافیت سے ووٹرز کا اعتماد بڑھے گا۔ آپ
ایک اضافی قدم کیوں نہیں اٹھاتے اور وجوہات کے ساتھ اس فہرست کو ویب سائٹ پر کیوں نہیں لگا دیتے ، تاکہ لوگ اصلاح کر سکیں’؟ یہ
دراصل چور کی داڑھی میں تنکا والی بات ہے ۔کوئی کام اگر بری نیت سے کیا جائے اور اس مقصد جائز رائے دہندگان کو ان کے ایک بنیادی
حق سے محروم کردینا ہو تو الیکشن کمیشن کیوں اصلاح چاہے گا؟ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب راہل گاندھی نے ووٹر لسٹ میں ہیرا
پھیری کا الزام لگانے کے لیے پریس کانفرنس کی تو اس کے ایک دن بعد الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ سے ڈرافٹ لسٹ کے سرچ
ایبل ورژن کو ہٹا دیا تاکہ لوگوں کو اپنا نام تلاش کرنے میں مشکلات پیش آئیں اور وہ تھک ہار کرچھوڑ دیں ۔الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں
نام شامل کرنے کے لیے 11دستاویز میں جان بوجھ کر آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی یا راشن کارڈ کو شامل کرنے کے بجائے برتھ اور ڈومیسائل
جیسے مشکل دستاویزات کو شامل کیاگیا۔ ویسے ایک چالاک آدمی نے اپنے کتے کا ڈومیسائل بناکر اس نظام کی کمزوری کو ظاہر کردیا۔
بھارتیہ جنتاپارٹی کے لوگ مختلف مسائل کو الجھا کر توجہ ہٹانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی بحث کو ان لوگوں شہریت
ثابت کرنے سے جوڑ کر الیکشن کمیشن نے شہری ہونے کا ثبوت مانگناشروع کردیا حالانکہ یہ اس کے دائرۂ اختیارسے باہرہے ۔ وزارت داخلہ کی یہ ذمہ داری ہے اور وہ خود ایسے دستاویزوں کی فہرست نہیں دے پا رہا ہے جو شہریت کو ثابت کرتے ہوں تو الیکشن کمیشن کی اس
حرکت کو چور دروازے سے این آر سی نافذ کرنے کی سازش قرار دیا گیا اور سرکار کی مشکلات اضافہ ہی ہوا۔ اس بیچ سینئر ایڈوکیٹ گوپال شنکر
نارائنن نے سپریم کورٹ میں یہ انکشاف کردیا کہ ریاستی حکومت سے مشاورت کے بغیر ہی مغربی بنگال کو تین دن پہلے ایس آئی آر نوٹس
موصول ہوگیا۔ اس طرح ملک بھر میں خصوصی نظرثانی کی آڑ میں شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ہر ووٹر پر ڈال دیا گیا ۔ ابھیشیک منو سنگھوی کے
مطابق ایس آئی آرکے تحت، شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ووٹروں پر ڈالنا غلط ہے ۔ انہوں نے اسے سپریم کورٹ کے لال بابو حسین بنام
الیکٹورل رجسٹریشن آفیسر (1995) فیصلے کے خلاف بتایا، جس میں نئے اور موجودہ ووٹرز کے درمیان فرق کیا گیا تھااور الیکشن کمیشن کو
موجودہ ووٹرز پر شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ڈالنے سے روکا گیا تھا۔
جسٹس جوائے مالیہ باغچی کا کہنا ہے کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے متعدد دستاویز دستیاب ہونے کو ووٹروں پر پابندی کے طور پر نہیں
بلکہ مفاد میں مانا جائے گا ۔سپریم کورٹ نے جب یہ کہاکہ ‘شہریت کے معاملے کا فیصلہ وزارت داخلہ کو کرنا چاہیے نہ کہ الیکشن کمیشن کو۔’ تو اس
کے خلاف الیکشن کمیشن نے عدالت میں جوابی حلف نامہ داخل کرکے اصرار کیاکہ اسے شہریت کا ثبوت مانگنے کا حق ہے ۔اس کی دلیل تھی کہ
الیکشن کمیشن کو یہ جانچ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ مجوزہ ووٹر انتخابی فہرست میں اندراج کے لیے مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟اس
میں دیگرامور کے ساتھ آئین کی دفع 326 کے تحت شہریت کاتعین کرنابھی شامل ہے ۔ اس طرح کی جانچ آئینی طور پر لازمی ہے اور یہ
واضح طور پر عوامی نمائندگی ایکٹ 1950(آرپی ایکٹ)کے تحت طے شدہ ہے ۔ یہ اختیار براہ راست آرٹیکل 324 کوآرٹیکل 326
اور آر پی ایکٹ 1950 کی دفعہ 16 اور 19 کے ساتھ پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔
الیکشن کمیشن نے صاف کہا کہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے کہ شہریت سے متعلق معاملات کو دیکھنے کا حق صرف مرکزی حکومت کو
ہے ۔ یہی بات اگر کوئی اور ادارہ کہتا تو امیت شاہ اسے تڑی پار کردیتے مگر الیکشن کمیشن تو انہیں کی ایماء پر یہ کہہ رہا ہے اس لیے اس کا قصور
معاف ہے ۔الیکشن کمیشن کی دلیل ہے کہ:’شہریت ایکٹ، 1955 کی دفعہ 9 صرف ان صورتوں میں شہریت کے خاتمے سے متعلق ہے
، جہاں کسی شخص نے رضاکارانہ طور پر کسی غیر ملک کی شہریت حاصل کی ہو، اور اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یہ طے
کرے کہ ہندوستان کے کسی شہری نے کب اور کیسے کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کی ہے ۔ یہ صرف اس محدود مقصد کے لیے ہے کہ یہ
مراعات مرکزی حکومت کو دی گئی ہے ، اور دیگر تمام اتھارٹی کو اس سے باہر رکھا گیا ہے ‘۔الیکشن کمیشن کے اس بیان سے ایسا لگتا ہے گویا طوطا
اپنے مالک کے پر کترنے جارہا ہے اس لیے کہ اس نے حلف نامہ میں لکھا تھاشہریت سے متعلق دیگر پہلوؤں کی تحقیقات جومتعلقہ اتھارٹی
اپنے مقاصد کے لیے کر سکتی ہیں، ان میں وہ بھی شامل ہے اور آئینی طور پر ایسا کرنے کا پابند ہے ۔
سپریم کورٹ نے جب اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا توکمیشن نے عدالت کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ‘ایس آئی آر مشق کے تحت، کسی
شخص کی شہریت محض اس بنیاد پر ختم نہیں کی جائے گی کہ وہ ووٹر لسٹ میں اندراج کے لیے نااہل پایا گیا ہے ‘۔ماضی میں یعنی ایس آئی آرسے
پہلے تک خود کو نئے ووٹر کے طور پر رجسٹر کرنے کے لیے شہریت کا صرف سیلف ڈیکلیئریشن کافی ہوتا تھا۔ الیکشن کمیشن کا فارم 6 میں اب
تک صرف اس اعلان کی ضرورت ہوتی تھی کہ درخواست گزار ہندوستانی شہری ہے نیز عمر اور پتہ کا ثبوت کے علاوہ کسی دستاویزی ثبوت کی
ضرورت نہیں تھی لیکن بہار ایس آئی آر کے لیے ایک نئے اعلان نامہ میں شہریت کا دستاویزی ثبوت فراہم کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں الگ سے اس مطالبے کو چیلنج کیا گیا ہے ، اور جسٹس جوائے مالیہ باغچی اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ ہی اس کی سماعت کررہی
ہے ۔ بنچ کی سربراہی جسٹس سوریہ کانت کر رہے ہیں۔ اس پرجسٹس جوائے مالیہ باغچی کا کہنا ہے کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے متعدد
دستاویز دستیاب ہونے کو ووٹروں پر پابندی کے طور پر نہیں بلکہ مفاد میں مانا جائے گالیکن مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن عوام دشمن سرکار کو فائدہ
پہنچانے کے لیے سرگرمِ عمل ہے ۔ حکومت اپنے مخالف ووٹرس کو محروم کرکے الیکشن جیتنا چاہتی تھی مگر اس کی چوری پکڑی گئی ہے اور اس کا
نتیجہ یہ ہے کہ پورے ملک میں فی الحال ‘ووٹ چور گدی چھوڑ’ کا نعرہ گونج رہا ہے ۔
٭٭٭