... loading ...
ریاض احمدچودھری
مبصرین کا کہنا ہے کہ قانونی اصلاحات کی آڑ میں ان قوانین کے نفاذ کا مقصد علاقے میںآبادیاتی تبدیلیوں کو آسان بنانا اور حق خودارادیت کے لیے کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کو دبانا ہے۔منوج سنہا نے بی آر امبید کر کے اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے آئین میں انصاف تک رسائی کی ضمانت اور پسماندہ برادریوں کے لئے حکومتی اقدامات کو اجاگر کیا۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان دعوئوں کو محض دکھاوا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے کیونکہ علاقے پر فوجی قبضے کے باعث بڑے پیمانے پر نگرانی اور جابرانہ قوانین کے نفاذ کی وجہ سے بنیادی آزادیاں سلب کی گئی ہیں۔غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں دہلی کے مسلط کردہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ اگست 2019میں خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد علاقے میں800سے زائد بھارتی قوانین کو نافذ کیا گیا ہے۔
منوج سنہا نے یہ انکشاف سرینگر میں ایک تقریب کے دوران کیا اور دعویٰ کیا کہ بھارتی قوانین کے نفاذ نے تمام شہریوں کے لیے انصاف اور مساوات کو یقینی بنایا ہے۔تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے ان کے بیان پرشدید تنقید کی ہے جو اسے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کو زبردستی ضم کرنے اور اس کی منفرد سیاسی اور قانونی شناخت کو مٹانے کے بھارتی ایجنڈے کا حصہ سمجھتے ہیں۔
کشمیری اور بین الاقوامی مبصرین نئی دہلی کی طرف سے کی گئی یکطرفہ تبدیلیوں کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے مسلسل خاتمے سے مقبوضہ علاقے میں جاری سیاسی بحران مزید بڑھ جائے گا۔غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک تنازع ہے جس کی توثیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بھی کی گئی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ بھارت کے 5اگست 2019کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات جن سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی، ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں بھارت اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے علاقے کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا بھارت کا کشمیر کو ایک تنازع تسلیم کرنے سے انکار اور اسے ایک اندرونی معاملہ قراردینا جوابدہی سے بچنے کی دانستہ کوشش ہے۔حریت کانفرنس نے دنیا پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت کی نوآبادیاتی پالیسیوں کو چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے طور پر تسلیم کرے۔ اقوام متحدہ کی خاموشی سے بھارتی مظالم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنی جارحیت کو روکے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کرے جن میں کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ حق خودارادیت کے مطالبے میں کشمیری عوام کی قربانیاں ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔بیان میں بھارت اورمقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظر بند حریت رہنماؤں اور کارکنوں کی بگڑتی ہوئی صحت پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا انہوں نے بھارتی حکام کی جانب سے علیل قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانیوالے مجرمانہ سلوک کو 1948میں قیدیوں کے حقوق کے بارے میں منظورشدہ انسانی حقوق کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی کی قیادت میں فسطائی بھارتی حکومت غیر قانونی طور پراپنے زیر قبضہ جموںو کشمیر اور بھارت میں اختلاف رائے کو دبانے کے لئے بغاوت کے قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ جب سے بھارت میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے کشمیری حریت پسند رہنمائوں کے خلاف بغاوت کے قانون کے تحت مقدمات میں تیزی آئی ہے۔اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق رپورٹ حقائق پر مبنی ہے اور بھارت کالے قوانین کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر میں ناقابل بیان مظالم ڈھا رہا ہے۔ بھارت کچھ نہیں چھپا رہا تو انکوائری کمشن بنانے کیلئے حمایت کرے۔ بھارت او آئی سی و انسانی حقوق کمشن کو مقبوضہ کشمیر میں رسائی دے۔ اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق رپورٹ حقائق پر مبنی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مودی سرکار پر ملک میں عدم برداشت کو ہوا دینے مخالفین کی غیرقانونی گرفتاریوں نسلی امتیازی سلوک ماورائے عدالت قتل اور آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے پر کڑی تنقید کی ہے۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے زیرسایہ قائم ہندو قوم پرست حکومت ملک بھر میں مسلمان اور دیگر اقلیتوں کیخلاف برپا فرقہ واریت کے سیکڑوں واقعات کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قانون ساز اور سیاستدان نہ صرف اپنی تقریروں میں مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کو جواز بھی مہیا کرتے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ مودی سرکار سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے گروپوں کو بھی ہراساں کرتی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا ہے کہ انتہاپسند مودی سرکار انسداد دہشت گردی قوانین کا غلط استعمال کرتے ہوئے حکومت کیخلاف مظاہرہ کرنے والے افراد کو گرفتار کر لیتی ہے اور جنوری سے اب تک 3200 افراد کو غیرقانونی حراست میں لے رکھا ہے جن پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔
٭٭٭