وجود

... loading ...

وجود

بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام

منگل 19 اگست 2025 بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام

آواز
ایم سرور صدیقی

تاریخ بتاتی ہے کہ ”بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام اچھا نہیں ہوتا ۔سامراجی طاقتیں انہیں عبرت کا نشان بنادیتی ہیں اور بزدل قومیں احتجاج تک نہیں کرتیں ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ستم ظریفی ہوگی کہ بے حسی نے قومی ہیروز کو زیرو بناڈالا ہو، ہمیں اس کا مطلق احساس تک نہیں ۔1920ء میں دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد فرانسیسی جنرل نے بڑے غرور سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے مزار پر قبر کو ٹھوکر ماری اور دھاڑا ”اٹھو صلاح الدین! ہم دوبارہ آ گئے ہیں” ۔یہ وہ الفاظ تھے جس نے ہر ذی شعور کو جھنجھوڑ کررکھ دیا لیکن مسلم حکمرانوں پھر بھی ہوش نہیں آئے ۔اس لمحے اس مرد مجاہدکی صرف ایک قبر نہیں روندی گئی ۔پوری امت ِ مسلمہ کو زور دار طمانچہ ماراگیا تھا جس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے ۔اے صلاح الدین! دیکھ ہم واپس آ گئے ہیں کے الفاظ میں ایک پیغام دیا گیا تھا کہ ”ہم پھر آئے ہیں، اور تم سوئے ہو”!۔۔ تم کیا جانو سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھا؟یہ ایک تاریخ تھی، ایک غیرت تھی،یہ محض ایک قبر نہ تھی۔ امت کا وقار تھا صلیبی قوت کو نیست و نابود کرنے والا وہ کردار تھا جس سے دشمن آج بھی خوفزدہ ہیں۔ صلاح الدین ایوبی امت کی عزت کا نشان تھا جس کے مزار کو ٹھوکر مارنے کے باوجود مسلم حکمرانوںکا ضمیرنہ جاگا اب سوال یہ اٹھتاہے کہ امت ِمسلمہ کیا فرانسیسی جنرل کی مکروہ آواز تمہارے دل میں گونجی؟ کیا تم نے اس گستاخی کی کسک کومحسوس کیا؟ کیا یہ برا لگاہاتھ سے، کردار سے یا زبان سے اس گستاخی کا جواب دیا۔ کیا تمہیں یہ بھی یاد نہیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلہ ٔ اول بیت المقدس کو آزاد کرایا تھا؟ کیا بزدل قوموں کے بہادر لیڈر آپ کے اسی سلوک کے حقدار ہیں کہ ان کی قربانیوںکو فراموش کردیا جائے اور اپنی سنہری تاریخ کو بھلا دیا جائے ۔آج کا دور، مسلمانوںکی حالت اور حالات دیکھ کر غیرت مند قومیں یقینا ایسا ہی کرتی ہیں۔ یادرکھیں تاریخ بزدلوںکو یادبھی نہیں رکھتی۔
4 اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریک دن تھا جب ذوالفقارعلی بھٹو کو گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں کڑے پہرے میں دفن کر دیا گیا۔ جب ان کی قبر سے پہرہ ختم ہوا تو پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین فاتحہ خوانی کے لئے گئے، ان میں بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار بھی تھے۔ جب گائوں پہنچے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور پوچھنے لگے آپ تو ہمارے لیڈر کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ آخری وقت تک انہوں نے کوئی پیغام دیا یا کچھ کہا تو بتائیے۔ یہ سن کر یحییٰ بختیار کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور بولے ، بھٹو صاحب نے آخری ملاقات میں مجھ سے کہا ”بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا یہی انجام ہوتا ہے” ۔
کہا جاتا ہے کہ معروف حریت پسند رہنما چی گویرا کو اس کے خفیہ ٹھکانے سے گرفتارکیا گیا تو اس کی جاسوسی ایک چرواہے نے کی تھی، جو ایک غریب طبقے سے تعلق رکھتا تھا جن کے حقوق کے لئے چی گویرا کئی دہائیوں سے لڑ رہا تھا۔ جب اس بات کا پتہ ایک فوجی کو ہوا تو اس نے حیرت سے اس چرواہے سے پوچھا ”تم اس شخص کے ساتھ غداری کیسے کر سکتے ہو جس نے اپنی پوری زندگی تمہارے اور تمہارے حقوق کے دفاع میں گزاردی”؟!
چرواہے نے سکون سے جواب دیا: ”اس کی جدوجہد کے دوران ہونے والی لڑائیوں میں چلنے والی گولیاں میری بکریوں کو ڈراتی تھیں جس سے وہ تتر بتر ہوجاتی تھیں جنہیں اکٹھا کرنے میں مجھے بہت مشکل کا سامنا کرناپڑتا تھا۔ اب میں سکون میں ہوں ۔چی گویرا بھی ایک بزدل قوم کا بڑا رہنما تھاجو اپنی ہی جدوجہد کے دوران اپنوں کے ہاتھوں انجام کو پہنچا۔
برسوں پہلے مصر میںایک عظیم حریت پسندکمانڈر محمد کریم نے نپولین کی فرانسیسی سامراجی مہم کے خلاف مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی جب اسے گرفتارکیاگیا تو عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی لیکن نپولین بوناپارٹ نے اسے بلاکر کہا”مجھے انتہائی افسوس ہوگا کہ میں ایک ایسے شخص کو قتل کر دوں جس نے اپنے ملک کابڑی جرأت و بہادری سے دفاع کیا لیکن میں نہیں چاہتا کہ تاریخ مجھے ہیروز کے قاتل کے طور پر یاد رکھے۔ اگر تم میری فوج کے نقصانات کے بدلے 10 ہزار سونے کے سکے ادا کردو، تو میں تمہیں معاف کر دوں گا”۔ یہ سن کر حریت رہنما محمد کریم ہنس پڑا اس نے جواباً کہااس وقت میرے پاس اتنا پیسہ نہیں جو میںاداکرسکوںلیکن تاجروں پر میرا ایک لاکھ سے زائد سونے کے سکوں کا قرض ہے”۔ اگر مجھے ان تک رسائی دی جائے تو میں آپ کی مطلوبہ رقم کی ادائیگی کر سکتا ہوں۔نپولین نے اسے مہلت دے دی۔ حریت رہنمامحمد کریم زنجیروں میں جکڑا ہوا اور فوجیوں کی حفاظت میں بازار چلا گیا ۔اسے یقین تھا کہ جن لوگوںکے لئے اس نے قربانی دی وہ اس کی ضرور مدد کریں گے۔ لیکن خلاف توقع کسی تاجر نے رسپانس نہیں دیا۔ اس کے برعکس انہوں نے اس پر الزام لگا دیا کہ وہ اسکندریہ کی تباہی اور ان کے کاروباری بحران کا ذمہ دار ہے۔ اسے واپس نپولین بوناپارٹ کے پاس لایاگیا اپنے ہم وطنوںکے سرد روئیے سے حریت رہنمامحمد کریم اندر سے روحانی طور پر ٹوٹ چکا تھا۔ تب نپولین نے اس سے کہا ”میں تمہیں اس لیے نہیں ماروں گا کہ تم نے ہمارے خلاف جنگ لڑی، بلکہ اس لئے کہ تم نے ایک بزدل قوم کے لئے اپنی جان قربان کردی، جو آزادی سے زیادہ تجارت سے محبت کرتی ہے یعنی اس کا صاف صاف مطلب ہے ”جو رہنما اپنی جاہل قوم کے حقوق کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ اس شخص کی مانند ہے جو اندھوں کے لئے راستہ روشن کرنے کی خاطر اپنے جسم کو آگ لگادیتا ہے لیکن جاہلوں کے ضمیر سوئے رہتے ہیں۔ یہ کہاوت پاکستانیوںپر صادق آتی ہے جن کی بزدلی اور جہالت نے کتنے ہی قومی رہنمائوں اور ہیروز کوبے حسی کی بھینٹ چڑھادیا ۔قائد ِاعظم، لیاقت علی خان، بے نظیربھٹو، ڈاکٹر قدیر خان کی مثالیں سب کے سامنے ہیں سچ ہے ”بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا یہی انجام ہوتا ہے”۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ایس آئی آر کے پسِ پردہ این آر سی وجود منگل 19 اگست 2025
ایس آئی آر کے پسِ پردہ این آر سی

روس۔یوکرین کشیدگی اور سفارت کاری وجود منگل 19 اگست 2025
روس۔یوکرین کشیدگی اور سفارت کاری

کشمیریوں کی جائز جدوجہد کودبایا جا رہا ہے! وجود منگل 19 اگست 2025
کشمیریوں کی جائز جدوجہد کودبایا جا رہا ہے!

بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام وجود منگل 19 اگست 2025
بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام

کیا ہم دن کی روشنی دیکھ سکیں گے؟ وجود پیر 18 اگست 2025
کیا ہم دن کی روشنی دیکھ سکیں گے؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر