وجود

... loading ...

وجود

غلطی

پیر 18 اگست 2025 غلطی

ب نقاب /ایم آر ملک

اسے انفرادیت پسندی کے خلاف اجتماعی اکٹھ کی فتح قرار دیا جاسکتا ہے ۔
سرمایہ دارانہ آمریت کے خلاف یہ کسی زلزلے ،کسی آتش فشاں ،کسی ناگہانی آفت کی ابتدائی نشانیاں ہیں یہ تحریک وطن عزیز کی تاریخ کے ایک بالکل نئے عہد کا اعلان ہے، اسے ہم عہد انقلاب کا عہد ہی کہہ سکتے ہیں جس میں ضرورت اپنا اظہار چاہ رہی ہے اور منزل کو رستے کی تلاش ہے۔ تبدیلی وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن کر سامنے آرہی ہے اور ایسا ہم اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ 78برسوں سے مسلط آمرانہ جمہوریت کے پاس اب مسائل کا حل نہیں رہا ۔
پسا ہوا طبقہ قدرے تلخ تجربے کے بعد یہ سمجھنے اور ماننے پر آمادہ ہوا ہے کہ اُس کو درپیش مصائب سے نجات کیلئے تبدیلی وقت کا تقاضا بن رہی ہے ،ناگزیر ہو گئی ہے۔ ہمیں اس نظام کے رکھوالوں سے نجات حاصل کرنا ہے ۔غربت اور مایوسی کی ماری ہوئی نسل ہے جو ”منظم بدمعاش گروہوں ” کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے۔ امیر امیر تر غریب غریب تر کی تفریق کے باعث مجتمع ہو جانے والے اثرات نے عوامی مزاحمت کی صورت اختیار کر لی۔
اقتدار کی صفوں سے یہ آواز اُٹھ رہی ہے ،حکومتی حواری یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ وطن عزیز مکمل بے چینی کی زد میں ہے اوعوام کے حق ِ خود ارادیت کو اس کے حقیقی نمائندوں کے ہاتھ میں دینا وقت کا تقاضا ہے۔ اگر دوسرے نقطہ نظر سے جانچا جائے تو عوام کے انبوہ ِعظیم نے انقلاب کی ریہر سل مکمل کر لی جس نے عوام کو شعوری طور پر ایک نئی راہ دکھائی کہ وہ پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ کے بغیر بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ روشنیوں کے شہر کے بعد اب دیگر شہروں میں عوامی شعور کا تسلسل اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 77ء کے بعد ایک بار پھر وہ طبقہ نکل رہا ہے جو مشینوں کا لوہا پگھلانے والی بھٹیوں ،کوئلہ کانوں ،ڈیزل مٹی کے تیل اور موبل آئل کے بد بو دار ماحول میں کام کرتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا وہ ورکر جس کا خمیر بھٹو نظریات سے اُٹھا جو بھٹو کے نظریات پر کٹ مرنے کیلئے بے تاب تھا مگر اُسے پارٹی سے والہانہ وابستگی اور وفا کی سزا پنجاب کے اُن حکمرانوں نے دی جن کا غرور اور رعونت اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے، ناجائز مقدمات ،سلاخوں کے پیچھے پابند سلاسل کر کے گزشتہ چھ سالوں کے دوران دی وہ ورکر جو اپنی پارٹی سے یہ اُمید اُستوار کئے ہوئے تھا کہ وہ ”دھاندلی ”کے ایشو پر لیفٹ ٹرن لے گی مگر یہ اُمید دم توڑ گئی جب وہ استحصال کار طبقہ کی پارٹی بن گئی۔ ایک ایسی جماعت کو بچانے کیلئے وہ تمام حدیں عبور کر گئی جس کے دامن پر لیڈر شپ کے خون کے دھبے ہیں، جس نے ضیا ء الحق کی سفاک اور درندہ صفت آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ،ضیاء الحق کی باقیات،اُس کی مارشلائی ٹیم اور اُس کے دلالوں نے جس نظریاتی ورکر کی پشت پر کوڑے مروانے کا فریضہ سر انجام دیا ،جس نے بھٹو کی پھانسی کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کیں، پیپلز پارٹی کے اس مایوس اور بد دل ورکر کو عمران کی شکل میں ایک اُمید کی ایسی کرن نظر آئی جو سچائی کے ساتھ اس بد دل ورکر کے حقیقی حریفوں کو للکار رہا ہے۔ اس ورکر نے اپنے احساسات اور جذبات کا سارا وزن پاکستان تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ آج بلاول زرداری انہی ورکروں سے معافی کا خواہاں ہے۔ سانپ گزرنے کے بعد اب لکیر کو پیٹنا عبث ہے۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے نظریاتی ورکر کے اذہان میں یہ بات گھر کر چکی ہے کہ عمران خان ہی وطن عزیز کی جعلی نہیں حقیقی زنجیر کی قیادت کر رہا ہے ۔غلط حکمت عملی جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو بیڑیوں کے سواروں (پیپلز پارٹی والوں )نے کی اس منافقت کے ساتھ کہ پنجاب کا ووٹ بنک بھی ہماری دسترس میں رہے اور پارلیمنٹ میں بیٹھی اشرافیہ کے مفادات پر بھی زک نہ لگے۔ زرداری نے بلاول ہائوس لاہور میں جتنے ڈیرے لگائے مگر تیر کمان سے اور بات زبان سے نکل جائے تو واپس نہیں آتے۔ پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول ہو چکا کیونکہ ایک اکثریت نے بھانپ لیا کہ پیپلز پارٹی محض باری بچانے کیلئے بھٹو دشمن رجیم کے ہر عیب پر چھتری لئے کھڑی ہے ،پیپلز پارٹی نے مفادات کی پچ پر کھڑے ہوکر اپنے لب سی لئے ،اُس وقت جب اس اکثریت سے تمام حاصلات علی الاعلان چھینی گئیں ، قومی اداروں کی نیلامی کا بازار اس ”فرینڈلی ناٹک ”کی سرپرستی میں سجایا گیا ،ایک ایسی عوامی پارٹی جس کے بارے میں شہید بھٹو نے کہا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، اُسی عوام کے حق خود ارادیت پر ڈکیتی ہوئی تو وہ پارٹی خاموش تماشائی بن گئی ، اس سرمایہ داری نظام کی عمومی شکست خوردگی کی مجسم تصویر بن گئی۔ محنت کشوں کا استحصال ہوتا رہا ،غربت اور ذلت کی کیفیات حاوی رہیں ،سیلاب زدگان کی بحالی ،بے روزگاری اور مہنگائی ،مزدوروں اور دہقانوں کی اذیت ناک مشقت اور استحصال کے”حل ”کو جعلی اور بد عنوان نظام جمہوریت کے غلاف میں مقید کر کے رکھ دیا گیا ،جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے قانون کی حکمرانی کو شرف قبولیت بخشا گیا ،شخصی بادشاہت کے شوقینوں نے اپنے سامراجی آقائوں کے رہن سہن کی بے ہودہ نقالی سے پورے معاشرے کو بد بودار کر دیا۔ الیکشن کے دنوں میں جس نے مستقبل کی بہتری کی اُمید اور خوشحالی کے وعدے کر کے عوامی اضطراب پر کاری ضرب لگائی ،اُسی کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹوکی سوچ اور فکر کو ایک غلط فیصلے کے ذریعے قتل کراد یا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری کے تذبذب میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے ۔قیادت کی صفوں میں اتھل پتھل نظر آرہی ہے۔ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ سیاسی غلطی کے ارتکاب کا پس منظر کیا ہے ؟
یہ سوال بھی اک عرصہ سے بھٹو کی جماعت کا پیچھا کر رہا ہے وہ پارٹی کہاں ہے ؟آج کی قیادت سیاسی اسباق کی انقلابی تشریح کرنے سے محروم ہے جب ایک انقلابی جدوجہد کیلئے مردو زن تاریخ کے معرکے کو سر کرنے نکلے ،جیل میں بیٹھے ایک قیدی کی کال پر عوام کا اتنی بڑی تعداد میں نکلنا اس نظام کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے جس نے منافعوں کو چند افراد تک محدود اور نقصان کو اکثریت پر لاگو کر رکھا ہے ۔اسے اُس جبر کا اظہار کہا جاسکتا ہے جو اپنے اندر ایک اُبلتا ہوا لاوا سموئے ہوئے ہے جو ایک ناقابل برداشت دبائو کے تحت اپنی مقداری تبدیلیوں سے معیاری تبدیلیوں کی جانب گامزن ہے۔ عوام کی سوچ اور شعور ایک مختلف مقام پر کھڑے ہیں لیکن مقتدر حلقے سقوط ِ ڈھاکہ کی طرح اس سے بے خبر ہیں ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کیا ہم دن کی روشنی دیکھ سکیں گے؟ وجود پیر 18 اگست 2025
کیا ہم دن کی روشنی دیکھ سکیں گے؟

فدائین اسلام، دہشت گرد گروپ وجود پیر 18 اگست 2025
فدائین اسلام، دہشت گرد گروپ

غلطی وجود پیر 18 اگست 2025
غلطی

'لال قلعہ' سے آرایس ایس کی ستائش وجود پیر 18 اگست 2025
'لال قلعہ' سے آرایس ایس کی ستائش

امن معاہدہ اور ٹرمپ راہداری! وجود اتوار 17 اگست 2025
امن معاہدہ اور ٹرمپ راہداری!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر