... loading ...
آفتاب احمد خانزادہ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈچ فلسفی باروچ اسپینوزا کہتا ہے ریاست کا اصل کام افراد کو کنٹرول کرنا نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر خوف و ہراس میں مبتلا کیے رکھنا ہے، بلکہ ریاست کا بنیادی مقصد ہر انسان کے لیے تحفظ اور امن و امان کی صورتحال یقینی بنا کر شہریوں کو خوف سے آزاد کرنا ہے ۔ جیسا کہ ایک ریاست اس طرح سے حفاظت کرنے کی اپنے ملک کے شہریوں سے سالانہ ایک بھاری قیمت وصول کرتی ہے ۔تاکہ شہری تحفظ کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں اور اپنا کام دلجمعی کے ساتھ کر سکیں۔میں دہراتا ہوں کہ ایک ریاست کا مقصد اعلیٰ اور قابل ذہنوں کے حامل عقلمند انسانوں کو جنگلی جانوروں یا مشینوں میں تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ ریاست کا کام اپنے لوگوں کو ایسی زندگی فراہم کرنا ہے جس میں وہ لطف اندوز ہو سکیں ۔ ان کا ذہن اور سوچنے کا انداز آزادانہ ہو، تاکہ وہ بزور طاقت، نفرت یا غصے کی شکل میں اپنے ساتھ ہونے والی بددیانتیوں اور نا انصافیوں کا بدلہ نہ لیتے پھریں ۔ریاست کا اصل مقصد لوگوں کو آزادی کی ضمانت فراہم کرنا ہے!
ذرا ا ن آوازوں پر توجہ دیجیے ” میں بہت مایوس اور حوصلہ ہارے ہوئے ہوں ۔ میری تو کوئی زندگی نہیں ہے میں تو ٹو ٹ پھوٹ چکا ہوں۔ میں اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہوں، میری زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ میں یہاں سے کہیں بھاگ جانا چاہتاہوں ۔ کوئی بھی نہ تو میری قدر کرتا ہے اور نہ مجھے سمجھتا ہے ، میری آمدنی ہی اتنی نہیں کہ ضروریات پوری ہوسکیں، ہرا میر اور بااختیار آدمی مجھے ذلیل کرتا پھرتا ہے ۔ہمارے ملک کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے ۔ ملک میں کرپشن اور لوٹ مار ایسے ہی چلتی رہے گی ۔ میرے نصیب کبھی نہیں بدلیں گے ۔ کوئی بھی میرے متعلق نہیں سو چتا ہے ۔ میں بدانتظامی کا شکار ہوں میرا دم گھٹ رہا ہے ۔ میں اس منافقانہ سیاست سے تنگ آگیاہوں ۔ سب چور ہیں ، میں اندیشوں میں مبتلا رہتاہوں خوف زدہ ہوں ۔ میں اکیلا حالات تبدیل نہیں کرسکتا ۔ کچھ بدلنے والا نہیں ہے ،آئندہ بھی ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ یہ تمام آوازیں ہمارے دفتروں ، گھروں ، بازاروں ، گلیوں اور محلوں میں سنائی دیتی ہیں ۔یہ آوازیں لاکھوں والدین ، ملازموں ، ماتحتوں ، محنت کشوں ، طالب علموں ، آجروں ،ٹھیلہ لگانے والوں ، رکشہ چلانے والوں کی ہیں ، یہ آوازیں پاکستان کے ان افراد کی ہیں جو اپنی دنیا کو ایک نئی حقیقت میں تبدیل کرنے کی جنگ میں مصروف ہیں ۔یہ آوازیں اس اذیت کی عکاس ہیں جو ذاتی بھی ہے اور گہری بھی ۔ ان آوازوں میں بہت سی خود آپ کی بھی ہوسکتی ہیں ۔اسی لیے کارل روجر نے کہا تھا ” جوکچھ انتہائی ذاتی ہے وہ انتہائی عام ہے ”۔ایڈورڈ بین فیلڈ کہتے ہیں ” کسی بھی سیاسی نظام کو ایک حادثے سے تعبیر کیاجاسکتا ہے یہ فی الواقع آزمائش و خطاکے طویل عمل سے سلامت بچ نکلنے والے رسوم و رواج ، عادات و تعصبات اور اصولوں اوربدلتے ہوئے حالات کے نتیجے میں پیداہونے والے مسلسل رد عمل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اگر مجموعی طورپر یہ نظام ٹھیک کام کرتا دکھائی دے تو اسے ہم ایک خوشگوار حادثہ تعبیر کرتے ہیں۔ کسی معاشرے ، اس معاشرے کے تمام اداروں اس کے پورے کردار اور اس میں وضع پانے والی انسانی اضاف کا اصل دارومدار حکومت اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے ”۔ ہماری خوشی کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتاہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ہے ہمارا کردار کیا ہے ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں اور ہم کہاں اور کن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھریہ بھی کہ ہمار انصیب کیسا ہے لیکن شہروں اور قوموں میں انسانی خوشی کے لیے سب سے زیادہ اہم جو بات ہوتی ہے، وہ آب و ہوا یا آس پاس کے قدرتی مناظر اچھے یا برے جین یا قومی کردار نہیں ہوتے بلکہ وہاں جاری حکومت کا معیار ہوتا ہے۔ برطانیہ ، یورپ ، امریکہ ، کینیڈا، آسٹریلیا تک یہ ریاست کے ہی اوصاف ہیں جو لوگوں کی خوشحالی کا تعین کرتے نظر آتے ہیں ۔حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعداد و شمار حاصل کرکے ایک تجزیہ مرتب کیاگیا ہے جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیاگیا ہے۔ اس تجزئیے جسے کہ ہم اب تک کیا جاناوالا بہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کہ مطابق عوام کی خوشی و خو شحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے، وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جو کہ اچھی تعلیم اچھی آمدن اوربہتر صحت سے مرتب ہوتے ہیں۔ بری حکومت ایسی حکومت ہوتی ہے کہ جو جوابدہی سے انکاری ہو، چھپنا شروع کر دے جو خود کو ہی اپنا جواز ماننے لگے اور باقی سب کے احتساب کے در پے ہوجائے جو اپنی حقیقت خود تخلیق کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ تانگ عہد کاایک چینی وزیراعظم بادشاہوں کی برائیاں یوں گنواتا ہے جتنے کی ترجیح ، اپنی غلطیوں کا سن کر غصہ میں آجانا ، اپنے اختیار میں اضافہ اور اپنی مضبوط خواہش پر قابو پانے میں ناکامی ۔ وہ بتاتا ہے کہ جب انہیں یہ جراثیم لگ جائیں تو پھر وہ لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا بندکردیتے ہیں اور انتشار و افراتفری کے بیج پنپنا شروع کردیتے ہیں ، بری حکومت اور برائی کاجنم خود نہیں ہوتا ہے یہ ہم ہی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں جب ایک بار ان کا جنم ہوجاتا ہے تو ان کے وارث خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور ہرآنے والا وارث اور بر ااوربرائی والا ہوتا ہے۔ اگر آج ہمیں بری حکومت اور اس کی برائیوں کا سامنا ہے تو یہ آغاز نہیں ہے بلکہ یہ تو تسلسل ہے۔ ہمیں تو آغاز ہی سے بر ی حکومت اور اس کی برائیوں کا سامنا ہے ایسا کرتے ہیں کہ ہم پہلے ہی دن سے آج تک کی حکومتوں کا جائزہ لے لیتے ہیں اور عام لوگوں کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں ۔مہنگائی ، بیروزگاری ، خارجہ پالیسی ، پڑوسیوں سے تعلقات ، بجلی ، پانی ، گیس کی صورتحال ، بدانتظامی ، بدنظمی ، برداشت ، رواداری، انتہاپسندی، دہشت گردی، خواتین اور اقلیتوں کی صورتحال ،کرپشن ، لوٹ مار کوبغورٹٹولتے ہیں گورننس کو باریکی سے دیکھتے ہیں اور پھر دوبارہ آج میں لوٹ آتے ہیں اور آج کے اور ماضی کے اعداد و شمار کو سامنے رکھ لیتے ہیں ۔فرق صاف ظاہر ہوجائے گا یا تو ہمارے نصیب ہی خراب ہیں یا پھر ہم خودہی خراب ہیں، ان دونوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، ورنہ کیا ہمیں ایک اچھی حکومت نہ ملی ہوتی کہ جس کے وارث پیدا ہوجاتے اور ہم سب بھی دنیا کے باقی لوگوں کی طرح چین و سکون اور آرام و خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہوتے ۔اور جو جو آج کل ہورہاہے، ایسا نہ ہورہا ہوتا۔ ایسی ایسی کرپشن اور لوٹ مار جو کبھی پہلے نہ سنی اور نہ پڑھی دنیا بھرکے نامور کرپٹ اور راشی حضرات نے ہماری کرپشن اور لوٹ مار دیکھ کر اپنے کام ہی سے توبہ کرلی کیونکہ ان کے ساتھیوں نے ان پر اس قدر لعنت ملامت کی کہ ایک تم ہو اور دوسر ی طرف پاکستانی ہیں۔ اپنی کر پشن اور لوٹ مار دیکھو اور دوسری طرف ان کی دیکھو لعنت ہے تم پر۔ اس قدر محنت ، رسک ، خطرے ، کے بعد ہاتھ اور جیب میں کیا خاک آتاہے اور دوسری طرف ہر وقت مقدمات ، پولیس اور جیل کا خوف ڈراتا رہتا ہے ۔
اصل میں ہمارے حکمران صر ف خود جیتنا چاہتے ہے اور 25 کروڑ انسانوں کو ہرانا چاہتے ہے۔ اس لیے مبارک ہو حکمرانوں تم جیت گئے اور 25 کروڑ انسان ہار گئے۔ اب صرف تم فاتح ہو اور ہم سب مفتو ح ہیں اب صر ف تم زندہ ہو اورہم سب مردے ہیں ۔اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ تمہاری سلطنت میں اب سب مردہ ہیں۔ شادیانے اورتیز بجائو اور جشن منائو کیونکہ تم جیت گئے ہو اورہم سب ہار گئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔