... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج صدیوں سے مشرق میں آنکھ کھولتا اور مغرب میں جا سوتا ہے!
بظاہر ہر روزایک سی صبحیں اور شامیں لیکر آتا ہے لیکن انسان اپنے کردار سے ہر دن کو الگ شناخت دیتا ہے۔ 14اگست 1947کا سورج بھی لاہو رکی شاہی مسجد کے بلند و بالا میناروں کا طواف کرتا ہوا روزمرہ رفتا رسے گزرا تھا۔
لیکن!
اس سورج نے اپنی آنکھ بند کرنے سے پہلے ایک منفرد نظارہ دیکھا تھا۔زبان پر کلمہ اور سینے میں قرآن رکھنے والوں نے کفر کو للکارا تھا۔۔۔
مسلمانوں کے سمندر نے اپنی الگ جنت بسانے کا اعلان کیا۔۔شاہی قلعہ کی آکاش کو چھوتی فصیلیں تاریخ کا رخ بدلتا دیکھ رہی تھیں۔۔
313خاکساروں کے جیش نے متاعِ حیات کا نذرانہ دے کر غزوہ بدر کی یاد تازہ کی۔
اک عزم جواں کا اظہار ہوا۔۔۔
ہندوستان کی ہر گلی آزادی،آزادی کے نعرے سن رہی تھی۔23مارچ 1940سے لیکر 14اگست1947تک سات برس دارو رسن سے عشق ہوا۔نیتائوں کے فرمان پر لکھنئو، اِلہ آباد،امرتسرمیں جیتے جاگتے لوگ بے جان ہوئے۔۔اک خواب کی تعبیر پانے کی لگن زندگیوں سے قیمتی قرار پائی۔۔۔
سچ لکھنے،سچ چھاپنے،سچ بولنے والوں پر سختیوں اور پابندیوں کی انتہا ہوئی۔۔۔مجاہدآزادی حسین احمد مدنی کی ننگی پیٹھ پر وطن سے ہزاروں میل دور جزیرہ مالٹا میں برف کی سِلیںرکھی گئیں۔سفید چمڑی والوں کے خلاف مجاہد حریت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ،مولانا ابو الکلام آزاد کی آواز جرم بن گئی ، اور کالے پانیوں کی سزا ان کامقدر بنی۔۔
زمیندار،کامریڈ،حُریت،سیاست کے صفحات جام شہادت نوش کرنے والوں کے لہو سے رنگین ہوئے۔۔۔14اگست1947کے روز جب آزادی کا سورج طلوع ہو ا تو زخم زخم لوگ جی اٹھے۔۔۔جو پاس تھا وہ بھی قربان کر دینے کا جذبہ سلامت تھا۔۔۔
پھر اِک آگ لگی۔۔۔
10لاکھ نفوس کو سانسوں کا نذرانہ دے کر آزادی کا خراج ادا کرنا پڑا۔۔۔
دن اندھے ہوئے اور راتیں جلنے لگیں۔۔۔کہا جاتا ہے کہ بُتوں کو سجدہ کرنے والے لوٹ مار میں سب کچھ بھول گئے۔گُرونانک کے پیروکاروں نے گھروں کی رونقیں چھین لیں۔۔۔چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔۔۔چادریں پھندا بنیں۔۔۔شیر خوار پھول نیزوں کی انیوں میں پرو دیے گئے ۔۔۔۔ان گنت ٹرینیں خون میں لت پت کٹی گردنیں اور ادھڑے دھڑ لے کر والٹن پہنچیں۔۔۔دھرتی آنگن بنی تو آکاش چھت سمجھی گئی۔۔۔
اپنی توتلی زبان سے پاکستان کا کلمہ اور قائد اعظم کی تصویر چومتی بچیاں جنہوں نے خواب دیکھے، خواب سوچے شباب سے ہوتی ہوئی، آج سفید بالوں کی برف رکھتی ہیںاُن کے چہرے جھریوں اور ابھری رگوں سے بھرے ہیں لیکن نصف صدی سے زائد عرصہ قبل دیکھے جانے والے خواب کی راکھ باقی ہے۔۔ان کے خواب کی تعبیر یہ نہیں تھی کہ انکی کوکھ سے جنم لینے والی نسلیں ایک بار پھر سفید چمڑی والوںکے ایجنٹوں کی غلامی میں درندگی کا قیامت خیز منظر دیکھیں گی۔۔۔بھوک سے بلکتے بچوں کو موت کی بے رحم موجوں کے حوالے کریں گی۔۔۔
وطن کے بیٹوں اور بیٹیوں کا مقدر جیلوں کے تاریک زنداںہوں گے۔۔9مئی جیسے خود ساختہ واقعات مائوں سے ان کے لخت ِ جگر ، بہنوں سے بھائی ،سہاگنوں کے سہاگ چھین لیں گے ،احتجاج ،آہیں ،آنسو ،گولیاں ،لاشیں ایک طرف صبر ہوگا اور دوسری جانب جبر ! دھرتی کے بیٹوں اور بیٹیوں کو دس دس برس کی سزائیں انصاف کے مندر وں میں بیٹھے منصفوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
ایک آزاد وطن کا خواب دیکھنے والوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ انگریز کے ایجنٹ آمریت کی کند چھری سے جمہوریت کا لہو کریں گے ۔۔۔
غربت اور بے روز گاری کا شکار کسی کاایم اے لخت جگر ہر دوپہر کسی درخت کے ساتھ جھولے گا۔۔۔دن اور رات کے دائروں کا سفر کبھی ختم نہیں ہوگا اور ہوس پرست حکمران اپنے سہولت کاروں کی سرپرستی میں باری کا کھیل جاری رکھیں گے ۔۔۔ ہر رات ایک طبقہ روشن خیالی کے راگ پرمغرب کی واہیات کو مشرق کی معصومیت پر آزمائے گا۔۔۔مسجدیں اپنی شہادت پر مرثیہ خواں ہونگیں اور شراب خانے کھلیں گے ۔
یہ حشر سامانیاں ہمارے ہاں روز کا معمول ہیں اور79برسوں سے یہ ناٹک جاری ہے۔
بڑی بوڑھیاں اس اندھیر نگری پر ماتم کناں ہیں ،وہ سورج سے آنکھ ملا نہیں پاتیں، جسے گواہ بنا کر سرحد پار کی تھی۔۔۔سورج مشرق تا مغرب سب کچھ دیکھتا ہے، اگلی صبح تک سوچتا ہوا سو رہتا ہے۔۔۔
آخر کب تک۔۔۔
اک دن اقبال کی دھرتی کا سورج بھی اس نا انصافی پر ضبط کے بندھن توڑ دے گا۔۔۔وہ کرنوں کے بجائے شعلے اُگلے گا ،پانی میں آگ لگا دے گا اور سبزے کو جلا کر راکھ کر دے گا۔۔۔
بظاہر یہ سب کچھ نا ممکن ہے مگر تاریخ گواہ ہے جہاں،انسانیت،انصاف کی تمیز باقی نہ رہے وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔کچھ بھی۔۔۔
٭٭٭