... loading ...
محمد آصف
ناپ تول میں کمی ایک سنگین اخلاقی، سماجی اور دینی جرم ہے جو آہستہ آہستہ کسی بھی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ جس طرح اسلام میں عبادات کو اہمیت دی گئی ہے ، اسی طرح معاملات میں دیانت داری، انصاف اور حق داری کو بھی بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی سخت مذمت کی گئی ہے ۔ سورة المطففین میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، جو لوگوں سے پورا ماپ لیتے ہیں لیکن
جب دوسروں کو ناپ کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں”۔
یہ آیت واضح طور پر خبردار کرتی ہے کہ تجارت میں دھوکا دینا صرف ظلم نہیں بلکہ اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے ۔ حضرت شعیب علیہ
السلام کی قوم اسی گناہ کی مرتکب ہوئی اور آخرکار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار بنی۔قومِ مدین، جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا، تجارت میں خوشحال اور مالی طور پر مستحکم تھی، مگر بددیانتی، ناپ تول میں کمی اور بے ایمانی ان کی سرشت میں شامل ہو چکی تھی۔ وہ جب خریداری کرتے تو پورا تول لیتے ، لیکن جب فروخت کرتے تو کمی کرتے ۔حضرت شعیب نے بارہا انھیں عدل، دیانت اور حق داروں کو پورا حق دینے کی تلقین کی۔ سورة ہود(آیت 85) میں ان کے الفاظ یوں نقل کیے گئے ہیں:
”عدل کے ساتھ پورا ناپو اور تولو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں نقصان نہ دو، اور زمین میں
فساد مت پھیلاؤ”۔
لیکن ان کی قوم نے ان کی بات کا مذاق اُڑایا اور جواب دیا:
”کیا تیری نماز ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے طریقے چھوڑ دیں،یا
ہم اپنے مال میں جو چاہیں نہ کریں”؟ (سورة ہود: 87)
بار بار کی تنبیہات کے باوجود وہ اپنی بدعنوانی پر قائم رہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ایک زبردست زلزلے اور چیخ نے ان کی بستی کو ہلا کر رکھ دیا اور پوری قوم نیست و نابود ہو گئی۔قرآن مجید میں (سورة الاعراف: 91) میں فرمایا گیا:
”پس زلزلے نے انھیں پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ”۔
یہ واقعہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ناپ تول میں کمی کوئی معمولی غلطی نہیں بلکہ ایسا گناہ ہے جو اللہ کے قہر کو دعوت دیتا ہے اور پوری قوم کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔اسی مفہوم کو ایک تاریخی واقعے سے مزید تقویت ملتی ہے ، جو خلیفہ ہارون الرشید اور عقلمند بہلول کے درمیان پیش آیا۔ ہارون الرشید نے بہلول کو حکم دیا کہ بازار میں جا کر قصائیوں کے ترازو اور تولنے کے پتھر چیک کریں اور جن کے پتھر کم نکلیں انھیں گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا جائے ۔بہلول بازار گئے اور پہلے قصائی کا پتھر چیک کیا، وہ کم نکلا۔ جب بہلول نے قصائی سے اس کے حالات پوچھے ، تو اس نے کہا:”بہت برے حالات ہیں، دل کرتا ہے یہ چھری اپنے جسم میں گھسادوں”۔
دوسرے قصائی کا پتھر بھی کم نکلا۔ اس نے کہا:”میری زندگی ذلت سے بھر گئی ہے ، کاش پیدا ہی نہ ہوا ہوتا”۔ تیسرے قصائی کا پتھر مکمل درست تھا۔ بہلول نے اس سے زندگی کے حالات پوچھے ، تو اس نے خوشی سے کہا:”الحمد للہ! اللہ کا بڑا کرم ہے ، نیک اولاد ہے ، زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے ”۔
جب بہلول واپس دربار میں آئے ، تو خلیفہ نے پوچھا:”تو تم نے ان بے ایمانوں کو گرفتار کیوں نہ کیا”؟
بہلول نے جواب دیا:”اللہ خود ان کو سزا دے رہا ہے ، ان کی زندگیاں تنگ ہو چکی ہیں، ان پردنیا تنگ ہو گئی ہے ، اب دربار میں لانے کی کیا ضرورت ہے ”؟
یہ واقعہ ہمارے موجودہ حالات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ آج ہم بھی دنیا کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے ہیں، نہ حلال و حرام کا
خیال ہے ، نہ ہی آخرت کی فکر باقی ہے ۔آج کے دور میں ناپ تول میں کمی نے جدید شکلیں اختیار کر لی ہیں۔ پیٹرول پمپس پر کم مقدار دینا،
پیکنگ میں وزن سے کم دینا، ڈیجیٹل ترازو میں چالاکی کرنا ،یہ سب وہی پرانے گناہ ہیں جو نئی صورتوں میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایسے اعمال نہ صرف خریدار کا اعتماد ختم کرتے ہیں بلکہ پورے معاشی نظام کو متزلزل کر دیتے ہیں۔ جب امانت و دیانت ناپید ہو جائے تو بدعنوانی، لالچ، اور اخلاقی پستی کا غلبہ ہو جاتا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور دیانت داری کو ایک صالح معاشرے کی بنیاد قرار دیتا ہے ۔نبی کریم ۖ نے فرمایا:
”جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں”۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ناپ تول میں کمی جیسا عمل ایک سچے مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ اگر ہم ایک عدل و انصاف،
دیانت و امانت، اور برکت و سکون والا معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اس ناسور کا قلع قمع کرنا ہو گا۔اس برائی کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے ۔ حکومت کوچاہیے کہ دیانت دارانہ تجارت کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین نافذ کرے ۔ تعلیمی ادارے، اخلاقی تربیت کا فروغ دیں، اور علماء و مشائخ اس مسئلے پر عوام میں شعور اجاگر کریں کہ ناپ تول کی کمی نہ صرف دنیا کی ذلت بلکہ آخرت کی ہلاکت کا ذریعہ بھی ہے ۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ناپ تول میں کمی بظاہر ایک چھوٹا سا جرم لگتا ہے ، لیکن اس کے نتائج نہایت خطرناک، گہرے اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ یہ اعتماد کو ختم کرتا ہے ، نظام کو بگاڑتا ہے اوراللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے ۔ اگر ہم ایک صالح، پرامن اور خوشحال معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہمیں دیانت داری، عدل اور اللہ کے خوف پر مبنی نظام کو فروغ دینا ہو گا۔
٭٭٭