... loading ...
ریاض احمدچودھری
بنگلہ ٹی وی کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہیں۔یہ پاکستان نہیں بلکہ ڈھاکا ہے جہاں یوم پاکستان 14 اگست کے لئے پاکستانی پرچم بیچے جا رہے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ دو بچھڑے بھائیوں کو وقتی طور پہ تو ایک دوسرے کے خلاف کیا جا سکتا ہے لیکن وہ زیادہ دیر ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتے۔ 71 میں دو قومی نظریے کو دفن کرنے والی اندرا گاندھی آج دیکھ رہی ہو گی کہ دو قومی نظریہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ واپس آ چکا ہے۔ اور اسے ختم کرنے کے دعوی دار آج خود قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں 14 اگست کے حوالے سے پاکستانی پرچم فروخت ہو رہے ہیں, یہ بڑی تبدیلی ہے بنگالی اپنے اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں, بیشک دو الگ الگ ملک ہیں مگر ایک قوم ہیں۔ مقامی بازاروں اور آن لائن اسٹورز پر سبز ہلالی پرچموں کی خرید و فروخت نے نیا ریکارڈ قائم کر دیا، جس نے سوشل میڈیا پر بھی ہلچل مچا دی ہے۔بھارت ہار گیا، پچاس سال میں پہلی بار بنگلہ دیش میں پاکستان کا یوم آزادی پوری دھوم دھام سے منایا جائے گا۔ بنگلہ دیشی بازاروں میں پاکستانی جھنڈوں کا کاروبار اس وقت عروج پر ہے۔
پندرہ سال سے زائد عرصے تک جب بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت تھی، پاکستان کو ایک دشمن ریاست کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان تجارت، تعلیم، سفر، سیاحت اور دیگر شعبوں میں صرف رسمی تعلقات تھے۔پاکستانی ویزا درخواست گزاروں کے ساتھ بنگلہ دیشی قونصلر سٹاف کا معاندانہ رویہ اس نفرت کی گہرائی ظاہر کرتا جو نئی دہلی کے کہنے پر حسینہ واجد کے دور میں بوئی گئی تھی۔بنگلہ دیشی آبادی کی بڑی اکثریت پاکستان کے لیے خوشگوار جذبات رکھتی ہے لیکن حسینہ واجد حکومت نے مختلف انداز میں کام کیا۔اپنے بیس سالہ اقتدار کے دوران( 1996 ء سے 2001 ء اور 2009 ء سے 2024 ء تک) حسینہ نے 1971 ء کے بدقسمت واقعات اور مغربی پاکستان کے ذریعے مشرقی پاکستان کے مبینہ استحصال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو بدنام کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
بنگلہ دیش میں نصابی کتب پاکستان مخالف مواد سے بھری پڑی ہیں چاہے وہ زبان کی تحریک ہے جس کی وجہ سے 22 فروری 1952 ء کو بنگلہ کو مساوی حیثیت دینے کا مطالبہ کرنے والے تین احتجاجی طلبہ کو قتل کر دیا گیا تھا یا عوامی لیگ کو اقتدار سے انکار۔ 25 مارچ سے 16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ میں پاکستانی مسلح افواج کے ہتھیار ڈالنے تک فوجی آپریشن بھی نصابی کتب میں نمایاں طور پر موجود ہے۔پاکستان کی نصابی کتب میں صرف 1971 ء میں ہندوستانی مداخلت کے حوالے سے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی نصابی کتب کے مواد کے ساتھ ایسا نہیں جس میں واضح طور پر تین قومی دنوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی 22 فروری کو یوم زبان کے طور پر، 26 مارچ یوم آزادی کے طور پر اور 16 دسمبر کو یوم فتح کے طور پر جو پاکستان مخالف ہیں۔
عوامی لیگ دور حکومت میں پاکستان مخالف جذبات کو فروغ دینے کے باوجود بنگلہ دیش کی نئی نسل پاکستان سے دشمنی نہیں رکھتی۔ بنگلہ دیش کی طلبہ برادری جس نے حسینہ کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہے۔ نیز پاکستان کے مختلف حصوں بالخصوص پنجاب میں بنگلہ دیش کے حامی اجلاسوں کا انعقاد اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستانی نئی نسل بنگلہ دیش کے ساتھ دوبارہ دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔پاکستان کے خلاف دشمنی ختم ہونے کے بعد ہی دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں حالات میں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ بنگلہ دیش میں کچھ قوتیں پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کے حق میں نہیں ، دونوں ممالک محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ طاقتیں نئی دہلی کی پشت پناہی سے اس سارے عمل کو پٹڑی سے اتارنے کا موقع ڈھونڈ رہی ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش، جنوبی ایشیائی ممالک کے طور پر ثقافتی وابستگی، مذہبی تعلقات، اقتصادی ترقی اور ترقی کی باہمی خواہش سمیت متعدد مشترک نکات رکھتے ہیں۔ ایک امید افزا موڑ میں انھوں نے باہمی تعاون اور علاقائی ہم آہنگی کی ایک مثال قائم کرتے ہوئے اپنے دوطرفہ تعلقات کو نئے سرے سے بحال کرنے اور مضبوط کرنے کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ابھرتی ہوئی شراکت داری مشترکہ مفادات، تاریخی روابط اور خوشحال مستقبل کے وژن کی بنیاد پر استوار ہے۔بنگلہ دیش میں نئی نگران حکومت کی قیادت میں ایک آزاد خارجہ پالیسی بحال ہوئی ہے جس سے پاکستان سمیت تمام ممالک کے ساتھ متوازن اور نتیجہ خیز تعلقات کی راہ ہموار ہوگئی۔ دونوں حکومتوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی مصروفیات، باہمی دوروں اور مشاورت نے سفارتی تعلقات کو زندہ کیا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کے دروازے کھولے ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مثبت تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 1971 ء کے واقعات کی وجہ سے ماضی میں دونوں فریقوں کی طرف سے خندق پاٹنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں، جیسا کہ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس نے گزشتہ دسمبر میں قاہرہ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران بھی ذکر کیا۔ اگست 2024ء میں بنگلہ دیشی حکومت کی تبدیلی کے بعد سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں یکے بعد دیگرے ہونے والی پیش رفت اس بات کی عکاس ہے کہ دونوں فریق دو طرفہ تعلقات کو مستقل بنیادوں پر مثبت انداز میں تبدیل کرنے کے لیے پْرعزم ہیں۔