... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے رواں ماہ کے آغازپر دوروزہ پاکستانی دورہ کیا جو خطے میں نئی ہونے والی صف بندی کی وجہ سے بہت اہمیت کاحامل ہے۔ یہ اُن کاصدرمنتخب ہونے کے بعدپاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے جسے علاقائی اور عالمی امور پر پاک ایران بڑھتی قرابت داری کا عکاس کہاجارہا ہے۔ اسرائیلی حملوں نے پہلی بار ایران کویہ احساس دلایا ہے کہ پاکستان ایسابے لوث ہمسایہ ہے جوایران کی وحدت وسلامتی پر یقین رکھتا ہے ۔اِس لیے اِس کی قدر کرناضروری ہے قبل ازیں صورتحال کافی مختلف رہی ۔مقبوضہ کشمیر سمیت کئی عالمی تنازعات پر ایران نے پاکستانی مفادات کے برعکس موقف اختیا ر کیاجس سے بھارت کی سہولت کاری ہوئی حالانکہ یکساں مذہبی وثقافتی اقدارکا تقاضا پاک ایران قریبی دوستی ہے مگرپاکستان کی تمام ترپُرخلوص دوستی کے باوجود سچ یہ ہے کہ ایران کی طرف سے بداعتمادی کاعنصر ختم نہ ہوسکا۔اسی وجہ سے سفارتی تعلقات وقفے وقفے سے ناہمواری کا شکار رہے ۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف پاک بھارت جھڑپوں کے فوری بعد رواں برس 27مئی کوایران گئے لیکن توقعات کے مطابق پزیرائی نہ ملی پھر ایران اور اسرائیل کی جون کے وسط میں بارہ روزہ کشیدگی سے علاقائی منظر نامہ ہی بدل گیااور عشروں سے بھارتی طرفداری کواولیںترجیح
رکھنے والی ایرانی قیادت کو یہ سبق ملا کہ اصل دوست اور دشمن کی پہچان کی جائے ۔یہ سبق یادکرانے میں بھارتی کردار بھی ہے جس نے اسرائیلی جارحیت کی عالمی سطح پر مذمت کرنے کی بجائے کُھل کرحمایت کی اور اقوامِ متحدہ میںبھی یران کا ساتھ دینے سے اجتناب کیا جس سے پہلی بار بھارت سے بدظن ہوکر ایران نے پاکستان کارُخ کیااور شراکت داری بڑھانے کی ضرورت کو سمجھااب ا چھی ہمسائیگی کے ساتھ تعلقات میں بھی کچھ خلوص محسوس ہونے لگا ہے ایک ایساجوہری پاکستان جو رویتی دفاعی طاقت میں بھی ہر قسم کی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے سے تعلقات اُستوار کرنے کی ضرورت خطے کا ہر ملک ضرورت محسوس کرنے لگا ہے ۔یہ پاکستان کے لیے خوش آئند منظرنامہ ہے کیونکہ نئے منظر نامے سے پاکستان کے لیے معاشی مواقع میں اضافہ ہوگا جس سے فائدہ اُٹھا کر دفاع کی طرح پاکستان اپنی معیشت کو بھی مضبوط اور مستحکم بنا سکتا ہے۔
اسرائیلی حملوں نے یک لخت پاک ایران قیادت کویکجاکردیا ہے ۔دونوں طرف کی قیادت ایک دوسرے کی طرف جس تیزی سے بڑھنے لگی ہے ، اس سے واضح ہے کہ دونوں کو خطے کے بدلتے حالات کا ادراک ہے۔ اِس تناظر میں پیش بندی کے طورپر صفیں درست کرنا دانشمندانہ عمل ہے۔ اگر پاکستان پُرامن جوہری توانائی کاحصول ایرانی حق قرار دے کرحمایت کرتا ہے تو ایران بھی اب قدرے کُھل کر کہنے لگا ہے کہ متحد رہنے سے ہی ہماری خودمختاری قائم رہے گی ۔یہ نہ صرف دونوں طرف سے ایک مثبت پیش رفت ہے بلکہ مستقبل میں بڑھتی شراکت داری کی طرف اِشارہ ہے جس سے بداعتمادی ختم کرنے کے ساتھ مشترکہ دشمن کی چالیں سمجھنے میں مددملے گی۔
پاک ایران دفاعی اور معاشی روابط ناگزیر ہیں۔ یہ بات جتنی جلدی دونوں سمجھ لیں اتناہی بہتر ہے ۔سلک روڈمنصوبہ میں شمولیت کی خواہش اور گوادرو چاہ بہارکویکجاکرنے میں ایرانی دلچسپی سے ظاہر ہے کہ وہ بھارت سے ناخوش اورمتبادل کے حصول کے لیے کوشاں ہے ۔ مگر اچھے نتائج کے لیے ضروری ہے کہ ایرانی قیادت بھارتی سرمایہ کاری اور اُس کی ایجنسیوں کودفاعی تعاون کے نام پر دی سہولتیں محدود کرے ،کیونکہ حالات شاہد ہیں کہ بلوچستان میں متحرک شرپسند عناصر کو مالی تعاون و تربیت کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی ایرانی راستے سے ہی بھارت کرتاہے، جس کا ثبوت کلبھوشن یادیوکی صورت میں موجود ہے۔ پاک ایران بارہ معاہدوںسے روابط کے فروغ کی تصدیق تو ہوتی ہے لیکن آزادانہ تجارت کے معاہدے اور ایک دوسرے پر انحصار بڑھا نے میں امریکی پابندیاں رکاوٹ بن سکتی ہیں، جس کے لیے تریاق حکمت عملی درکارہے جو بظاہرناپیدہے ۔کیونکہ پاکستان تو اپنی ضروریات کے لیے ایران پر انحصار بڑھا رہا ہے ۔مگر جواب میں ویسی گرم جوشی کا فقدان ہے۔ اِس تناظرمیں دوطرفہ تجارت سالانہ آٹھ سے دس ارب ڈالرکرنے کے یکساں فوائد خواب لگتے ہیں کیونکہ پہلے بھی تجارتی توازن ایران کے حق میںجبکہ پاکستان کو بدترین خسارے کاسامناہے ۔صرف گزرے پانچ برسوںکے اعداد و شمار پر ہی طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو پاکستانی برآمدات محض ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر کے آس پاس رہیں ،بلکہ دوبرس میں توصفربھی رہیں جبکہ ایران سے پاکستانی درآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر سے کچھ ہی کم رہیں۔ یہ حوصلہ افزاپہلو نہیں، ضرورت اِس امر کی ہے کہ دونوں ممالک بڑے تجارتی فرق کو کم کریں جس کا حل مال کے بدلے مال کامعاہدہ ہے۔ اِس طرح امریکی پابندیوں کے باعث بینکنگ چینلز نہ ہونے کے باوجود تجارتی سرگرمیاں بحال رہیں گی ۔ریل و دیگر زمینی راستوں سے تجارتی نقل و حمل کے اخراجات بھی کم کیے جاسکتے ہیں۔ٹیرف میں کمی ،تجارتی رکاوٹوں کے خاتمے اور کاروباری شعبہ میں قریبی تعاون سے دوطرفہ اعتمادسازی کو فروغ دیاجاسکتاہے۔
پاک ایران ثقافتی ،مذہبی ،لسانی اور جغرافیائی رشتے عشروں پر محیط ہیں دونوں کو نو سوکلومیٹر سے زائد طویل سرحدجداکرتی ہے جس کے ایک طرف پاکستانی بلوچستان جبکہ دوسری طرف ایرانی بلوچستان سیستان ہے یہاں نگرانی کا عمل کمزور ہونے کی وجہ سے غیر قانونی نقل و حمل عام ہے ۔اسی بناپریہاں اسمگلنگ سے وابستہ گروہوںاور دہشت گردعناصر کو محفوظ ٹھکانے حاصل ہیں ۔یہ دہشت گردپاکستانی بلوچستان اور ایرانی سیستان کے امن کے لیے مستقل مہیب خطرہ ہیں ۔پاک ایران خفیہ معلومات کے تبادلے کے باوجود یہ خطرہ پوری شدت سے موجود ہے۔ باڈرمینجمنٹ ،تجارتی منڈیوں کے قیام اور کراسنگ پوائنٹس بنانے کے باوجود کئی پہلوہنوزغیر دستاویزی ہیں جس سے دونوں ممالک کے تعلقات کے ساتھ آمدن بھی متاثر ہوتی ہے جسے مشترکہ نگرانی کا طریقہ کار بناکر عملدرآمد کرنے سے ختم کیاجا سکتاہے۔ غیر قانونی نقل وحمل اور اسمگلنگ پر قابوپانے کے ساتھ دونوں طرف متحرک دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے ایک مربوط اور جامع حکمتِ عملی وقت کا تقاضا ہے۔
ایران کے پاس نہ صرف تیل وگیس کے وسیع ذخائر ہیں بلکہ اضافی بجلی بھی ہے جبکہ پاکستان کوبدترین توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کی بڑی صارف منڈی کو تیل و گیس کے ساتھ فاضل بجلی دیکرایران اپنے معاشی مسائل پر قابو پا سکتا ہے مگر یہ سب کچھ بااعتماد شراکت داری سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان اور ایران جب ایک جیسی نظریاتی اساس رکھتے ہیں۔ فلسطین کے حوالے سے بھی نکتہ نظر یکساں ہے مگر معاشی و تجارتی حوالے سے ویسی شراکت داری کہیں نظرنہیں آتی۔ اِس لیے دوستی کی باتیں مصنوعی لگتی ہیں، حالانکہ اشتراک ،مفاہمت اور ترقی کی پالیسی پر گامزن ہو کر دونوں ممالک خطے کی معاشی طاقت بن سکتے ہیں۔ معاشی کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ دونوں کو بیرونی جارحیت سے محفوظ بناسکتاہے ۔وگرنہ فروغ پذیر روابط کا کچھ خاص فائدہ اِس لیے نہیں ہو گاکہ نہ صرف دونوں کو یکساں معاشی مواقع حاصل نہیں ہوں گے بلکہ بیرونی خطرہ بھی موجود رہے گا۔
٭٭٭