... loading ...
آواز
۔۔۔۔۔
ایم سرورصدیقی
پاکستان میں رہنے والے کس کرب سے دن رات گزرتے ہیں، خداہی جانتاہے اس ملک کو دو نمبر دھندہ کرنے والوں کی جنت کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ آج تو خالص اشیائے خورو نوش کا حصول ہر پاکستانی کے لئے ایک مسئلہ بناہوا ہے، جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہے ،وہ معیار پر کمپرو مائز نہیں کرتے ۔جبکہ پسماندہ آبادیوں میں رہنے والوں کے مسائل بڑے اور وسائل نہ ہونے کے برابرہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں عید، شب ِ برات،بیماری یاعزیزو اقارب میں شادی آجائے تو ان کے مسائل میں دو چند اضافہ ہوجاتاہے۔ یہی لوگ اصل پاکستانی اور پاکستان کی حقیقت ہیں یہ وہ بدنصیب ہیں جن کیلئے کسی حکمران نے کچھ نہیں کیا بھوک سے بلکتے ،سسکتے اور محرومیوں کے مارے لوگ ملٹی نیشنل کمپنیوں،سرمایہ داروں اور بڑے بڑے اداروں کا خاص ہدف ہیں۔ یہ پاکستانی غربت کے ہاتھوں مجبورورکر سستی سے سستی اشیائے ضرورت خریدنے پر مجبورہیں۔ اسی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بالخصوص ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اندھیر مچارکھاہے اوراپنی پراڈکٹ کے چھوٹے سے چھوٹے پیک متعارف کروادئیے ہیں کہ دُکانداری چلتی رہے ۔دودھ ہی کو لے لیجیے یہ ہرشخص اورہر گھرکی بنیادی ضرورت ہے دودھ کے نام جو زہر ہم پی رہے ہیں اس کے نقصان کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے دودھ کی اتنی اقسام ہیں کہ شمار ممکن نہیں۔ اس وقت ملک بھر میں کیمیکل سے بنا دودھ سب سے زیادہ فروخت ہورہاہے ۔خوشنما ڈبوں میں بند موت دھڑلے سے بیچی جارہی ہے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں سنجیدہ حلقوں میں ایک کہرام مچاہواہے ۔گوالے کریم نکال کر الگ فروخت کردیتے ہیں اورپھرخشک دودھ گرینڈ کرکے مکس کرکے گھروں میں سپلائی کردیتے ہیں ۔اس کہتے ہیں چوپڑیاں نالے دو دو۔ پاکستان میں عوام کو Milk اورTea whitenerکے نام پر اتنا بڑا دھوکہ دیا جارہاہے ہماری حکومتیں اس معاملہ میں بالکل گونگی بنی ہوئی ہیں۔ نہ جانے اشرافیہ کے کون سے مفادات وابستہ ہیں کہ کوئی کچھ نہیں بولتا ۔بازار میں طرح طرح کے برانڈ ملتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دن بہ دن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہاہے ۔Tea whitener کو دودھ کہہ کربیچاجارہاہے حالانکہ یہ دودھ ہے ہی نہیں ڈبے پر بھی دودھ نہیں لکھا جاتا فقط Tea whitener تحریر ہے۔ حسین اداکاروں کے جھرمٹ میں ٹی وی کے خوشنما اشتہاروں میں ایسے ظاہر کیا جاتاہے جیسے یہ کوئی امرت ہے ۔حالانکہ سارے کے سارے Tea whitener نرے کیمیکل ہیں۔
اس کے علاوہdary pure اور اس سے ملتے جلتے کئی برانڈ جس میں دعویٰ کیا جاتاہے کہ یہ قدرت سا شفاف ہے۔ کھلی آنکھوں میں مٹی ڈالنے والی بات ہے ۔جب یہ دودھ ہے ہی نہیں تو اسے کیونکر فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کئی سال پہلے عدالت ِ عالیہ نے ازخود نوٹس لے کر ان نام نہاد دودھ کے برانڈکا جرمنی سے فرانزک رپورٹ منگوائی تھی۔ اس میں دل کو ہلا دینے والے ہوشربا انکشافات کیے گئے تھے۔ ان کمپنیوں نے عدالت سے درخواست کی کہ اس رپورٹ کو منظرِ عام پر نہ لایا جائے۔ لہٰذا ان کی درخواست مان لی گئی۔ حالانکہ عوامی مفاد میں اسے سامنے لانا ضروری تھا۔ عدالت ِ عالیہ سے التماس ہے کہ یہ رپورٹ منظرِ عام پر لاکر دودھ کے نام پربکنے والی اس ” چیز” کے بارے میں فیصلہ دیا جائے ۔ چندسال بیشترپنجاب فوڈ اتھارٹی نے بڑی بڑی معروف کمپنیوں کے جام ، جیلی،مارملیڈ،ٹماٹو کیچپ اور مایونیز کو مضر ِ صحت اور دو نمبرقراردے کر پنجاب میں بیچنا ممنوع قراردیدیا تھا ،پھر نہ جانے کیا ہوا ان اداروں کی پراڈکٹ بکنے لگ گئیں۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں ملنے والی اکثر جام ، جیلی،مارملیڈ،ٹماٹو کیچپ اور مایونیز پانی اور کیمیکلز کا ملغوبہ ہے۔ ان میں فروٹ نام کی کوئی چیز شامل نہیں ہوتی۔ کنٹینر پہ کنٹینرمال تیارکرنے والی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی فیکٹریوں میں کبھی کسی نے ایک ٹرک بھی فروٹ یاپلپ کا کنٹینر جاتے نہیں دیکھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر یہ جام ، جیلی،مارملیڈ،ٹماٹو کیچپ اور مایونیز کیسے تیارہوتی ہے ۔ عوام میں سے کوئی نہیں جانتا ۔یہی حال ہرکھانے والی اشیاء کا ہے نہ جانے حکومتی ادارے کہا ں سوئے ہوئے ہیں؟ جس ملک میں ایک عرصہ سے لوگوں کو حرام گوشت کھلایا جارہاہو۔ادرک تیزاب میں ڈال کر تیار کیا جاتاہو۔دکانوں پر حلیم میں گوشت کی جگہ روئی ڈال کر فروخت ہورہا ہو، مرچ، ہلدی اور دیگر مصالحہ جات میں اینٹوں کا برادہ اورلکڑی کے برادے کی ملاوٹ ہورہی ہو، وہاں بہتری کی امید عبث ہے ۔فکر کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں دودھ دونمبر،گوشت دونمبر، دوائیاں دونمبر،صابن ،شیمپودونمبر،گھی ،آٹا دالیں دونمبر،مشروبات دونمبر ملتے ہوں وہاں کوئی کیا کرے ۔اب تو سنا ہے تربوز اور خربوزے کو بھی اسکرین کے انجکشن لگاکر” شرطیہ مٹھے ” بناکر بیچا جاتاہے۔ سیب اور آڑو پر پینٹ کرکے اسے خوشنما بنادیا جاتاہے ۔اسٹابری گھر لے آئیں تو دھو دھوکر براحال ہوجاتاہے ۔لال رنگ کا آمیزہ ختم ہونے میں نہیں آتا ۔نہ جانے اب اسلام کے قلعہ میں فروٹ کے نام پر کیا بیچا جارہاہے ۔کوئی کچھ نہیں جانتا اب تو یہ بھی کہا جارہاہے کہ دہی کے لئے کیمیکل سے تیار ایک ایسا شاہکار Milk Poderایجادکرلیا گیاہے جس سے اصلی دودھ سے بھی زیادہ گاڑھا،موٹی بالائی والا دہی تیار ہوجاتاہے ۔لوگ خوب مزے سے کھا کھا کر بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
ایک اور خبر بڑی خوفناک بلکہ ہولناک ہے کہ موت کے سوداگروں نے پلاسٹک کے انڈے اور پلاسٹک کے چاول بھی بنالئے جو دیکھنے اور کھانے میں بالکل اصلی لگتے ہیں ،لیکن اسے معدے ،سانس اور پیٹ کی عجیب و غریب بیماریاں پھل لور پھول رہی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مردہ جانوروں، انٹریوں اور آلائشوں سے گھی اور کوکنگ آئل کی تیاری ہر شہر میں دھڑلے سے کی جارہی ہے ۔حالانکہ ہمارے مذہب اسلام نے ملاوٹ کرنے سے سخت منع فرمایاہے ۔نبی ٔ معظم ۖ کا ارشاد ِ گرامی ہے جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔دولت کی ہوس نے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیوں کو چھین لیاہے ان تمام ترخرابیوں کی اصل ذمہ دار حکومت ہے جس نے عوام کو دونمبر لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاہے اور عوام اسی وجہ سے سانس ،پیٹ اور معدے کی عجیب عجیب بیماریوں کا شکارہورہے ہیں۔ جن ملکوں کو ہم کافر کہتے نہیں تھکتے وہاں فوڈ ایٹمزکیلئے سخت قوانین موجودہیں اور ان پرعمل درآمد ہوتا نظر بھی آتاہے ۔یہ بات طے ہے کہ ظالم لوگ اشرافیہ کی سرپرستی کے بغیر اتنی دونمبری نہیں کرسکتے ۔اب وقت آگیاہے کہ حکمران اس بات کااعلان کریں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں عوام کے ساتھ یادونمبر لوگوں کے ساتھ۔۔۔اگروہ عوام کے ساتھ ہیں تو ملاوٹ کرنے والے ہرشخص کا بے رحم احتساب کیا جائے ۔ملک بھر میں ہر قسم کے Tea whitener یا اس سے ملتے جلتے Milk کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائدکردی جائے ۔ کھانے پینے کی تمام اشیاء بالخصوص دودھ،گوشت، ادوایات ،گھی ،آٹا دالوں کی خالص فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے سخت فیصلے بھی کرنا پڑیں تو گریزنہ کیا جائے ۔حکومت صرف یہ کام کرلے تو یقین سے کہا جا سکتاہے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعدادمیں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔