... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
”اب میں موت بن چکا ہوں۔دنیا کو فنا کرنے والا”یہ جملہ اُس شخص کا تھا جسے جدید تاریخ کا سب سے ذہین دماغ کہا جاتا ہے۔ یہ جملہ تھا” رابرٹ اوپن ہائیمر” کا،وہی سائنس دان جس نے ایٹم بم ایجاد کیا، وہی شخص جو آج بھی انسانی فنا کی علامت بن چکا ہے۔کچھ عرصہ قبل ہالی وڈ کے معروف ہدایت کار کرسٹوفر نولان کی فلم”اوپن ہائیمر” ریلیز ہوئی۔ اس فلم نے رابرٹ اوپن ہائیمر کے سفر ، اس کے ضمیر کی کشمکش اور اس کی ایجاد کے انجام کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا۔ فلم توختم ہوتی ہے لیکن سوچ ختم نہیں ہوتی۔
یہ 6 اگست 1945 کا دن تھا۔جاپان کا شہر ہیروشیما معمول کی طرح جاگ رہا تھا۔ اسکول کھل رہے تھے، بازار سج رہے تھے، لاگ اپنے کاروبار اور دفاتر جارہے تھے پھر ایک لمحہ آیا اور سب کچھ ختم ہوگیا۔امریکہ کاایٹمی بم”لٹل بوائے” ہیروشیما پر گرااور صرف 43 سیکنڈز میں شہر کا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا، تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد زندہ جل گئے۔ کچھ لمحوں کے بعد جو بچ گئے وہ زخم، کینسر، سوزش اور ناقابلِ برداشت جسمانی تکالیف کے ساتھ تڑپنے لگے۔اس واقعہ کے تین دن بعد 9 اگست کو امریکہ نے دوسرا ایٹم بم”فیٹ مین” جاپان کے شہر” ناگاساکی ”پر گرایاجس کے نتیجہ میںمزید 80 ہزار زندگیاں مٹی کا ڈھیر بن گئیں۔ ان دونوں ایٹمی دھماکوںکے پیچھے صرف ایک دماغ تھا جس کانام” اوپن ہائیمر” ہے۔امریکہ نے اسے ہیرو کا درجہ دیا، جنگ کا فاتح کہالیکن جب تباہی کی تصویریں سامنے آئیں، جب بچوں کے جھلسے ہوئے چہرے، ماؤں کی بے جان گودیں اور جلے ہوئے انسانوں کی چیخیں اس کے ضمیر پر دستک دینے لگیں تو وہی شخص جو سائنس کا فخر تھاوہ ایک نادم انسان بن گیا۔اوپن ہائیمر نے استعفیٰ دیا، بارہا پچھتاوے کا اظہار کیا لیکن ایک بات وہ مرتے دم تک نہ کر سکا”مجھے معاف کردو۔”دنیا آج بھی تقسیم ہے۔ایک طبقہ کہتا ہے”امریکہ نے ایٹمی حملہ کرکے درست کیا جس کی وجہ سے عالمی جنگ ختم ہو گئی”۔دوسرا طبقہ کہتا ہے”یہ جدید تاریخ کا بدترین انسانی جرم تھا”۔
آج 80 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن جاپان کے وہ شہر اب بھی ایٹمی اثرات سے آزاد نہیں ہو سکے۔ ہر سال ان شہروں میں ہزاروں بچے کسی نہ کسی جسمانی یا ذہنی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ زمین کی زرخیزی، پانی کی طہارت، فضا کی صحت سب متاثر ہو چکے ہیںاور بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا اُس واقعے سے کچھ سیکھنے کے بجائے مزید طاقتور ایٹمی ہتھیار تیار کررہی ہے ۔آج کا ایک جدید ایٹم بم 1945 کے بم سے ہزاروں گنا زیادہ مہلک ہے۔ناسا کے سائنس دان خبردار کر چکے ہیں کہ اگر اب ایٹمی جنگ ہوئی تو زمین کا مدار متاثر ہو سکتا ہے، سورج سے فاصلہ بگڑ سکتا ہے اور موسموں کا نظام تباہ ہو سکتا ہے یعنی اب صرف انسانوں کی بقا کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری زمین کا وجود خطرے میں ہے ۔
اس حقیقت کو جانتے ہوئے انڈیا مودی کے اشاروں پر ایٹمی میدان میں برتری حاصل کرنے کی کوشش میں لگاہواہے جس کی وجہ سے نہ صرف سرحدی کشیدگی بڑھتی ہے بلکہ پورے خطے کا توازن بگڑنے لگتا ہے۔ طاقت کی اس اندھی دوڑ میں ہر نیا تجربہ، ہر نیا میزائل، ہر نئی ٹیکنالوجی جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگا رہی ہے۔پاکستان کبھی ایٹمی دوڑ میں شامل نہیں ہوا لیکن دشمن کو بھرپورجواب دینے کی صلاحیت رکھی ہے۔ ہماری ایٹمی پالیسی ” دفاعی صلاحیت” کے اصولوں پر قائم ہے۔ دشمن برتری کا خواب لے کر رات کے اندھیروں میں پاکستان پر جب بھی بزدلانہ حملہ کرتا ہے تو اس کو فیصلہ کن جواب دیا جاتا ہے جس کا عملی مظاہرہ” آپریشن بنیان المرصوص ”دنیا دیکھ بھی چکی ہے اور سمجھ بھی چکی ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے ،جنگ میں پہل نہیں کی ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ بیان دیا تھا کہ ”جنوبی ایشیا ء ایک بارود کا ڈھیر ہے، انڈیاا ور پاکستان کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنا ہوگا ،اس سے پہلے کہ ایسی جنگ بھڑک جائے جس کا بوجھ دنیا اٹھا نہ سکے”۔یہ محض ٹرمپ کا ایک سیاسی بیان نہیں تھا بلکہ ایک انتباہ تھا،ایک عالمی حقیقت کا اعتراف تھا۔
اگر دنیا کا سب سے طاقتور ملک اس خطرے کو محسوس کر چکا ہے تو پھر بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ایٹمی سبقت کا خواب صرف ایک تباہی کی طرف جانے والا راستہ ہے اور اگر خدانخواستہ یہ تباہی خطہ میں پھیلی تو لوگ ہیروشیما اور ناگاساکی کی لرزہ خیز داستانوں کو بھول جائیں گے۔