وجود

... loading ...

وجود

بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں چھ سالہ فوجی محاصرہ

بدھ 06 اگست 2025 بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں چھ سالہ فوجی محاصرہ

محمد آصف

5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔ اس اقدام کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں ایک بدترین فوجی محاصرہ نافذ کیا گیا، جو آج چھ برس بعد بھی جاری ہے ۔ یہ فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی اور شراکت کے بغیر لیا گیا، جس کے بعد وادی کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا، انٹرنیٹ اور فون سروس منقطع کر دی گئی، ہزاروں سیاسی رہنماؤں، کارکنوں، نوجوانوں، حتیٰ کہ بچوں کو بھی بغیر کسی جرم کے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ محاصرہ دنیا کے طویل ترین اور بدترین فوجی قبضوں میں شمار ہوتا ہے ، جس نے خطے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں،معاشی تباہی اور سیاسی جبر کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے ۔
بھارت نے اس اقدام کو قومی اتحاد اور ترقی کا نام دیا، مگر عملی طور پر مقبوضہ وادی کو ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ سیکورٹی فورسز کی تعداد 9 لاکھ سے تجاوز کر گئی، جنہوں نے عوامی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ ابتدائی مہینوں میں وادی مکمل طور پر دنیا سے کٹی رہی؛ انٹرنیٹ، موبائل اور لینڈ لائن سروسز بند تھیں، اسکول، ہسپتال، دفاتر بند رہے ، اور ہر شخص سائے کی طرح خوف کے عالم میں جی رہا تھا۔ان چھ سالوں میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہوئیں، وہ اقوام متحدہ،ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ جیسے بین الاقوامی اداروں کی متعدد رپورٹس کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق ہزاروں کشمیریوں کو بغیر مقدمے کے قید کیا گیا، گھروں پر چھاپے مارے گئے ، نوجوانوں کو اغواء کر کے لاپتہ کیا گیا، اور پیلٹ گنز کا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوںنوجوانوں کو نابینا کیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے وادی کو ”اجتماعی سزا کی تجربہ گاہ” قراردیا ہے ۔
میڈیا پر قدغن، صحافیوں کو ہراساں کرنا، اور سچ کو دبانا بھارتی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے ۔ کئی صحافیوں پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر انہیں UAPA جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیاگیا۔ انٹرنیٹ بندش کے باعث نہ صرف تعلیم اور صحت متاثر ہوئی بلکہ عام شہریوں کو بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہونے کی اذیت سہنا پڑی۔معاشی طور پر بھی وادی کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ سیاحت، جو کبھی کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی، تباہ ہو گئی۔ باغبانی، قالین بافی، اور دیگر دستکاری کے شعبے بیٹھ گئے ۔ ایک اندازے کے مطابق پہلے ہی چند برسوں میں کشمیر کو پانچ ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہو چکا تھا۔نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے ، اور کاروباری سرگرمیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ ایک اور سنگین پہلو بھارتی حکومت کی وہ کوششیں ہیں جو خطے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے
کے لیے کی جا رہی ہیں۔ 2020میں بھارت نے نیا ڈومیسائل قانون متعارف کرایا، جس کے تحت بھارتی شہریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے ، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے ، اور مستقل سکونت اختیار کرنے کی اجازت دی گئی۔ ہزاروں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ،جسے کشمیری عوام ”آبادیاتی جارحیت” اور ”نوآبادیاتی منصوبہ” قرار دیتے ہیں۔ یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ اسی دوران ہندو یاتریوں کے لیے بڑے پیمانے پر سہولیات فراہم کی گئیں، جبکہ کشمیری مسلمانوں پرمذہبی تقریبات پر پابندیاں لگائی گئیں۔ کئی مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، اور اسلامی اداروں کو بند یا کنٹرول کر لیا گیا۔عالمی برادری کی خاموشی اور بے حسی نے کشمیری عوام کو مایوس کیا ہے ۔ اگرچہ اقوام متحدہ نے کئی مرتبہ تشویش کا اظہار کیا، مگر بڑے عالمی ممالک، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، اور خلیجی ریاستوں نے بھارت کے ساتھ اپنے معاشی و تزویراتی مفادات کی خاطر اس مسئلے پر مؤثر آواز بلند نہیں کی۔ او آئی سی نے بھی صرف رسمی بیانات دیے ، اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔
پاکستان نے عالمی فورمز پر اس مسئلے کو بارہا اٹھایا، اور بھارت کے ان اقدامات کو اقوام متحدہ کی قراردادوں، شملہ معاہدے ، اور عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ پاکستان نے ہر سطح پر کشمیر کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کیا اور ان کے حق خودارادیت کی بھرپورحمایت کی۔ ان چھ برسوں کے دوران اگرچہ سیاسی سرگرمیاں محدود ہوئیں، کئی رہنما پابندِ سلاسل رہے ، لیکن کشمیری عوام کا جذبہ مزاحمت اور حوصلہ ختم نہیں ہوا۔ نوجوان نسل نے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی آواز بلند کی، جبکہ کشمیری ادب، شاعری، فن اور ثقافت نے مزاحمت کی نئی صورتیں اختیار کیں۔بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں چھ سالہ فوجی محاصرہ صرف ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ ایک عظیم انسانی المیہ ہے ۔ اس محاصرے نے بنیادی انسانی حقوق، معاشی خوشحالی، سماجی آزادی، اور مذہبی شناخت کو روند ڈالا ہے ۔ بھارت اسے اپنا ”اندرونی معاملہ”قرار دیتا ہے ، مگر دنیا کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جب کسی قوم کی شناخت، زمین، آواز اور زندگی پر جبر مسلط کیا جائے ، تو وہ صرف ایک ریاستی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ ایک بین الاقوامی انسانی مسئلہ بن جاتا ہے ۔ اقوام عالم، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور دنیا کے امن پسند عوام پر یہ فرض ہے کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد کا ساتھ دیں، اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس محاصرے کو ختم کرے ، گرفتار افراد کو رہا کرے ، آبادیاتی تبدیلیاں روکے ، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے ۔ اگر انصاف، آزادی اور حق خودارادیت کی آواز آج نہ سنی گئی تو جنوبی ایشیا میں دیرپا امن ایک خواب ہی رہے گا، اور تاریخ عالمی برادری کی خاموشی کو ایک جرم کے طور پر یاد رکھے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں چھ سالہ فوجی محاصرہ وجود بدھ 06 اگست 2025
بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں چھ سالہ فوجی محاصرہ

جسم جل گئے ذہن زندہ رہے! وجود بدھ 06 اگست 2025
جسم جل گئے ذہن زندہ رہے!

بی جے پی رہنما باعزت بری وجود بدھ 06 اگست 2025
بی جے پی رہنما باعزت بری

ایک اور اسرائیل بسانے کی سازش وجود منگل 05 اگست 2025
ایک اور اسرائیل بسانے کی سازش

واہ کیا بات ہے! وجود منگل 05 اگست 2025
واہ کیا بات ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر