وجود

... loading ...

وجود

اسرائیل ایران کو ایٹمی طاقت بنتے دیکھنا نہیں چاہتا!

منگل 05 اگست 2025 اسرائیل ایران کو ایٹمی طاقت بنتے دیکھنا نہیں چاہتا!

جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے

آج کے زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ بڑی قوتوں نے اسرائیل کو گریٹراسرائیل بنانے کا منصوبہ اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی بنا لیا تھا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑی طاقتوں نے نو گیارہ کے واقعے کے کی بعد ایک ایک کر کے اسلامی ممالک کو ٹارگٹ کیا جس میں عراق لیبیا شام اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ان میں سے عراق اور لیبیا بری طرح تباہ ہو چکے ہیں ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اگرچہ اس منصوبے میں پاکستان اور افغانستان اور ایران کو بھی ٹارگٹ کرنا تھا لیکن چونکہ پاکستان اس جنگ میں بڑی طاقتوں کے ساتھ فرنٹ لائن میں کھڑا تھا ،اس لیے براہ راست اسے نشانہ نہیں بنایا گیا ۔پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریبا 80ہزار شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور معاشی طور پر 100ارب ڈالرز کا بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا رہا ۔ اس دوران بھارت اسرائیل میں قربت بڑی اور انہوں نے ایران اور پاکستان کو داخلی طور پر نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی جاری رکھی جو آج تک جاری ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اسرائیل کو گریٹر اسرائیل بنانے کے منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔نو گیارہ کے بعد اسرائیل نے بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر ان ممالک کو نشانہ بنانا شروع کیا جو فلسطینیوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان کی مالی امداد کرتے ۔واضح رہے اسرائیل کئی موقعوں پر اعتراف کر چکا ہے کہ ایران ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جبکہ دوسرا پاکستان ہے۔ موجودہ صورتحال میں اسرائیل کی یہ پوری کوشش ہے کہ ایران اور پاکستان کو آمنے سامنے کھڑا کر کے ایک ایسی جنگ کی بنیاد رکھے تاکہ دونوں ملک اس میں الجھ جائیں تاکہ وہ اپنا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ دوسری طرف بڑی طاقتیں اپنے لیے یہ سنہری موقع سمجھ رہے ہیں جو برسوں سے بلوچستان کے زیر زمین لامحدود سمندر کی مانند پھیلی معدنیات کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کھیل میں بھارت اور اسرائیل بڑی طاقتوں کے لیے آکسیجن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جس میں اسرائیل اور بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں اور دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کے پشت پر کھڑے ہیں اور انہیں مالی امداد کے ساتھ ساتھ اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک ایران جس کی پاکستان عالمی سطح پر سفارت کاری کرتا آیا ہو، اس نے کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر اپنے ہی سفیر کے خلاف غیر متوقع محاذ کھول دیا۔ ایران کی طرف سے پاکستان میں حملے اور پھر پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد اب یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا ایران اور پاکستان پرامن ہمسائے اور دوست یا حریف ہیں؟
اگر دونوں ممالک کے تعلقات کے تاریخی منظر پر نظر ڈالی جائے تو ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ پہلے دن سے ایران اور پاکستان نے ایک دوسری کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ 1965اور 1971میں انڈیا اور پاکستان کی جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا۔ اسرائیل اور بڑی طاقتیں کسی صورت نہیں دیکھنا چاہتی کہ ایران ایٹمی طاقت بنے جبکہ پاکستان کے ایٹمی بم ان کی آنکھوں کا کانٹابنے ہوئے ہیں۔ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد بڑی طاقتوں کی شے پر صدام حسین نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اس کے جواب میں ایران نے بھی عراق کو بھرپور جواب دیا جس کے نتیجے میں یہ جنگ 7سال 11ماہ تک جاری رہی جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے 500,000کے قریب فوجی اور شہری مارے گئے۔ اسلام دشمن طاقتیں اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئیں اور اس جنگ میں مسلمانوں کو بھاری جانی اورمالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ماہرین کے مطابق اگر اسرائیل اور مغربی ممالک کے بس میں ہوتا تو وہ ایران کو کھنڈر بنا دیتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اسرائیل ایٹمی طاقت بن سکتا ہے تو ایران کیوں نہیں اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں پہلی معلومات 1962میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک میمو سے سامنے آئی تھی جس میں فرانس اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کا حوالہ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے 1950 کی دہائی میں جنوبی اسرائیلی شہر دیمونہ میں ایک جوہری بجلی گھر تعمیر کیا گیا تھا ۔زیوبوگایگ کا کہنا ہے کہ فرانس کے ساتھ تعاون پلوٹونیم پیدا کرنے کے لیے ایک ری ایکٹر کی تعمیر کے لیے تھا۔ گوگل میپس کی تلاش سے پتہ چلتا ہے کہ نیکیوں نیوکلیئر ریسرچ سینٹر دیمونہ شہر سے تقریبا 10کلومیٹر کے فاصلے پر صحرائے نیگیو کے وسط میں واقع ہے۔ 1960کی دہائی میں اسرائیل کے اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریان نے ملک کے جوہری پروگرام کا واحد عوامی حوالہ دیا ۔اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب میں انہوں نے اعلان کیا کہ جوہری تحقیق مرکز پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع اور توانائی کی رپورٹس اور تحقیقات واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ہے۔ خفیہ دستاویزات جو بعد میں ظاہر کی گئی، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1975تک امریکی حکومت کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں لیکن اسرائیل کے جوہری پروگرام کے انکشاف کی تاریخ میں اہم موڑ ایک شخص کے نام سے جڑا ہوا ہے اور وہ مورد چائی والونو ہیں وہ 1980کی دہائی تھی جب اسرائیل کے جوہری پروگرام کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات سامنے آئیں۔ والونو دیمونہ جوہری ری ایکٹر کے سابق ملازم تھے جنہوں نے 1985 تک نو سال وہاں کام کیا اور وہاں سے جانے سے پہلے چپکے سے اس مرکز کی تصویریں بھی لیں۔ ان تصاویر میں ہتھیاروں کی تیاری کے لیے تابکار مواد نکالنے کا سامان اور تھرمو نیوکلیئر ہتھیاروں کی ماڈلنگ لیبارٹری کو دکھایا گیا تھا۔ 1986 میں والونونے سڈنی اسٹریلیا میں ایک جوہری مخالف گروپ میں شمولیت اختیار کی جہاں اس کی ملاقات کولمبیا کے ایک ازاد صحافی اوسکر گور برو سے ہوئی جس نے انہیں تصاویر شائع کرنے پر آمادہ کیا۔ اس طرح انہوں نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے صحافی پیٹر بونام سے رابطہ کیا بونام نے بتایا کہ والونو نے امید ظاہر کی تھی کہ ان معلومات کے افشاء ہونے سے اسرائیل اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں آ جائے گا لیکن ان میں سے کوئی بھی امید پوری نہیں ہوئی ۔والونو نے دیمونہ میں نیوکلیر ٹیکنیشن کے طور پر کام کیا اور اس سہولت کی تفصیلات ظاہر کرنے کے بعد ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں قید کر دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق والونو کو نشہ آور اشیا ء پلا کر اغوا کیا گیا اور واپس اسرائیل لے جایا گیا۔ ایک مقدمے کی سماعت کے بعد انہیں اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے راز افشا کرنے کے لیے غداری اور جاسوسی کے الزام میں 18سال قید کی سزا سنائی گئی۔ والونو کو 2004 میں رہا کیا گیا اور رہائی پانے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کیے پر فخر اور خوشی محسوس کرتے ہیں ۔رہائی کے بعد انہیں دوبارہ ان پر عائد پابندیوں کے خلاف ورزی کرنے پر سزا سنائی گئی اور اب انہیں غیر ملکیوں سے بات چیت کرنے یا اسرائیل چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ والونو کے انکشافات کی وجہ سے اس بات کا کھلے عام اعتراف کیا گیا کہ اسرائیل کا ایٹمی پروگرام ہے۔
والونو کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس وقت ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 100سے 200کے درمیان ایٹمی وار ہیڈ ہیں ۔اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ جیسے جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کا اندازہ ہے کہ اسرائیل کے پاس شاید 90کے قریب جوہری وار ہیڈز ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بڑی طاقتوں نے اسرائیل کو مشرقی وسطیٰ کی بڑی طاقت بنانا تھا تاکہ وہ اپنے منصوبوں کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکے۔ آج اسرائیل کی راہ ہموار ہے اور وہ اپنی طاقت کے استعمال سے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ آسانی سے پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو تین ہمسایہ ممالک انڈیا افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی محازآرائی میں الجھا دیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستانی فوج پہلے ہی ملک کے اندر بہت سے شدت پسند باغی گروپوں سے لڑ رہی ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایران کو اسرائیل کی غزہ جاریت کے باعث موساد کی سازشوں کے باعث کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے آج ایران اور پاکستان جن بحرانوں سے گزر رہے ہیں ،یہ بڑی طاقتوں کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ کیونکہ اسرائیل ان دونوں ممالک کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی طاقت بنتے نہیں دیکھنا چاہتا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ایک اور اسرائیل بسانے کی سازش وجود منگل 05 اگست 2025
ایک اور اسرائیل بسانے کی سازش

واہ کیا بات ہے! وجود منگل 05 اگست 2025
واہ کیا بات ہے!

اسرائیل ایران کو ایٹمی طاقت بنتے دیکھنا نہیں چاہتا! وجود منگل 05 اگست 2025
اسرائیل ایران کو ایٹمی طاقت بنتے دیکھنا نہیں چاہتا!

مقبوضہ کشمیر اجڑی بستی وجود منگل 05 اگست 2025
مقبوضہ کشمیر اجڑی بستی

جعلی مقابلوں میں کشمیریوں کی شہادت وجود پیر 04 اگست 2025
جعلی مقابلوں میں کشمیریوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر