... loading ...
ریاض احمدچودھری
غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے دوران گزشتہ ماہ جولائی ن میں 7کشمیریوں کو شہید کیا۔ ان میں سے5کشمیریوں کوتلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں کے دوران جعلی مقابلوںمیں شہید کیا گیا۔بھارتی فوجیوں اور پیراملٹری فورسز نے تلاشی اور محاصرے کی 144کارروائیوں ا ور گھروں پر چھاپوں کے دوران 49کشمیریوں کو گرفتار کیاجن میں بیشتر سیاسی کارکن اورنوجوان شامل تھے۔ ان میں سے کئی نظربندوں کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ ، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ سمیت کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کر کے انہیں مختلف جیلوں میں نظربند کردیاگیا۔اس عرصے کے دوران بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے طاقت کے وحشیانہ استعمال سے 51کشمیری زخمی ہوئے۔ اس دوران بھارتی قابض انتظامیہ نے 22 کشمیریوں کی املاک بشمول رہائشی مکانات، دکانیںاور زرعی اراضی ضبط کر لیں۔ یہ غیر قانونی ضبطگیاں بی جے پی کی بھارتی حکومت کی کشمیریوں کے معاشی طور پر استحصال اور ان کے سیاسی موقف اور جذبہ حریت کو کمزور کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، محمد ایاز اکبر،پیر سیف اللہ ، معراج الدین کلوال ، فاروق احمد ڈار، مولوی بشیر احمد، بلال صدیقی، امیر حمزہ، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، ایڈووکیٹ میاں عبدالقیوم، نور محمد فیاض، عبدالاحد پرہ، فردوس احمد شاہ، اسد اللہ پرے، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ ، سید شاہد یوسف ، رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، ظفر اکبر بٹ، عمر عادل ڈار، فیاض حسین جعفری، محمد یاسین بٹ، انسانی حقوق کے علمبردار خرم پرویز، عرفان مجید اوردیگر سمیت تین ہزار سے زائد حریت رہنمائ، کارکن، کشمیری نوجوان ، طلباء ، علمائے کرام اور صحافی بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی مختلف جیلوںمیں قید ہیں۔
کوآرڈینٹیر کشمیر سالیڈیریٹی کمپئین لوٹن حاجی چوہدری محمد قربان نے 5 اگست کو کشمیری عوام پر مظالم کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے 5 اگست کو کشمیری قوم کے لیے ایک کرب ناک اور ناقابلِ فراموش دن قرار دیا۔ اسی دن 2019 کو بھارت نے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے برخلاف، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے ایک غاصبانہ، غیرقانونی اور ظالمانہ قبضے کو مستحکم کیا۔ ہم، برطانیہ کے کشمیری اس غیرقانونی اقدام کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے، 5 اگست 2025 کو ایک احتجاجی مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ یہ مارچ لندن میں کشمیری وزیراعظم کی رہائش گاہ سے دن کے 1 بجے شروع ہو کر بھارتی ہائی کمیشن پر اختتام پذیر ہو گا۔انہوں نے تمام کشمیریوں، پاکستانیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، نوجوانوں، خواتین، بزرگوں اور برطانوی معاشرے میں بسنے والے با ضمیر افراد سے احتجاج میں بھرپور شرکت کی اپیل کی ہے۔ یہ مارچ صرف ایک احتجاجی واک نہیں، بلکہ کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی، ان کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور بھارت کے مظالم کو عالمی برادری کے سامنے بینقاب کرنے کا ایک تاریخی موقع ہے۔ ہم برطانیہ کے کشمیری چاہتے ہیں کہ لوٹن، سلاو، برمنگھم، ریڈنگ، آکسفورڈ، ہائی ویکمب، ساؤتھ ہال، کرایڈن اور دیگر علاقوں سے کشمیری کمیونٹی منظم ہو کر لندن پہنچے تاکہ دنیا کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ کشمیر پر قبضہ کسی صورت قبول نہیں۔
بھارتی مظالم کے سائے میں جینے والے کشمیری بچے، خواتین اور بزرگ آج بھی امید کی نگاہ سے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ان کے لیے ایک آواز بننا ہے۔ برطانوی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ تمام غیرقانونی اقدامات کو ختم کرے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے اور کشمیریوں کو ان کا حقِ خودارادیت دے۔ میں ایک بار پھر تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ 5 اگست کو اپنے گھروں، دکانوں، مصروفیات کو چھوڑ کر لندن کے اس احتجاجی پْرامن مارچ میں شریک ہوں تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ ہم کشمیری اپنے حق کے لیے متحد ہیں اور کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ اس خصوصی حیثیت میں ریاست کو اپنا آئین بنانے اور نافذ کرنے کا حق حاصل تھا۔ اس کے علاوہ متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں ممنوع تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور آرٹیکل 35 اے بھی منسوخ کیا گیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتاتھا جبکہ سرکاری نوکریوں، ریاستی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف کشمیر میں پیدا ہونیوالے کشمیری باشندوں کو حاصل تھا۔ان دونوں آرٹیکلز کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔
٭٭٭