... loading ...
آواز
۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی
کہاوت تویہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دُہراتی ہے لیکن آج کچھ نادان تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تاریخ سے کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔بیشترکا یہی طرز ِ عمل ہے ۔تاریخ کا یہی المیہ ہے ،کوئی اس سے عبرت حاصل نہیں کرتا۔ بااختیارطبقے کا ازل سے یہی وطیرہ ہے لیکن وقت ان کے ارادوںکو ملیا میٹ کرکے یہ پلان نیست و نابودکردیتاہے ۔پاکستان میں نہ جانے کیوں آئین کو فالتو چیز سمجھ لیا گیاہے ۔ویسے تو وطن عزیزکے زیادہ تر حکمرانوںنے کبھی آئین کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ہمیشہ آئین اور قانون کو موم کی ناک سمجھا ہے، جدھر چاہے موڑ دیا نہ جانے کیوں حکمرانوںکو آئین سے اتنی نفرت کیوں ہے؟ہمارے ایک مرد ِ مومن مردِ حق نے تو آئین کے بارے میں وہ کچھ کہہ ڈالا۔ اگرکوئی عام آدمی کہتا تو اس پر غداری کا مقدمہ ہوسکتا تھا لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت نے آئین میں ترامیم کااختیار بھی فوجی ڈکٹیٹرکو دے دیا حالانکہ یہ اختیار تو خود اس کے پاس بھی نہیں تھا۔اس اختیارات سے تجاوز کا آج تک کسی نے نوٹس لیا نہ مواخذہ کیا ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئین تو ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا ۔باربارتوڑ دیا جاتاہے ۔آئین اور قانون صرف غریب پر لاگو ہوتے ہیں ۔دور نہ جائیے چندسال پہلے پنجاب اور خیبرپی کے کی اسمبلیاں اس لئے توڑ دی گئیں کہ وہاں نئے انتخابات کروائے جائیں ۔پاکستان کا آئین یہ حکم دیتاہے کہ 60یوم میں عام انتخابات کروانا لازمی ہے لیکن ایک سرکاری ملازم (چیف الیکشن کمشنر) اکڑ گیا ۔کبھی اس نے کہا حالات سازگار نہیں،کبھی عذر پیش کیا کہ فنڈز ہی نہیں ہیں،کبھی کہانہیں کرواتا ۔وہ آج بھی اپنے عہدے پرفائزہے۔ اس نے قانون کے ساتھ جو کچھ کیا کوئی پوچھنے والا نہیں۔کیا یہ آئین سے انحراف نہیں تھا؟ آئین شکنی نہیں؟ یوں تو 57 مسلم ممالک میںایک بھی ایسا نہیں جس کا جمہوری ڈھانچہ ہو، بیشترمیں بادشاہت قائم دائم ہے جس کے تحفظ کے لئے انہوںنے بھی آئین اور قانون رائج کررکھے ہیں ۔شنیدہے ان سے کوئی جواب سوال نہیں کرسکتا کہ وہ سیاہ سفید کے مالک ہے، ان کا کہاہی قانون سمجھا اور مانا جاتاہے۔ ان کی سلطنتوں میں انتقال ِ اقتدارکا کوئی مستندقانون بھی رائج نہیں ہے۔ وہاں بادشاہ اپنا ولی عہد نامزد کرتاہے ۔بادشاہ ناراض ہوجائے تو ولی عہد کو بھی کہیں جائے پناہ نہیں ملتی یاپھر بغاوت یا کوئی حادثہ کسی کو حکمران یا کسی کو معزول کردیتاہے ۔لیکن اس کے برعکس پاکستان میں تو آئین موجود ہے جوحکمرانی کی اہلیت کی تشریح کرتاہے۔ اس کے باوجود سینے پرہاتھ رکھ کر جواب دیجیے ۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک نہ چلتی تو کیا وہ تاحیات صدرِ پاکستان نہ ہوتے،جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے کا ”شکار ”نہ ہوتے تو انہیں کون ہٹا سکتاتھا، وردی کو اپنی کھال قرار دینے والے جنرل پرویزمشرف بذات ِ خود وردی نہ اتارتے تو وہ مرتے دم تک صدر ِ پاکستان ہوتے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان ادوار کے دوران آئین جیسی مقدس دستاویز کہاں تھیں؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے حکمران فوجی ڈکٹیٹرہوں یا سیاستدان کسی کو بھی آئین کی حکمرانی وارے میں نہیں ہے ۔جب ہر قیمت پر اقتدا رمیں رہنے کی خواہش ہوتو پھر آئین اور قانون کی حکمرانی مفادات کی بھینٹ چڑھ جانایقینی ہے۔ پاکستان میں تو آج تک یہی ہوتاچلاآیاہے ۔ خلیجی ممالک ہوںیا مراکش،ترکی، انڈونیشیا یا پھر ایران ان سبھی ممالک میں خاندانوںکی حکومت ہے۔ یہی بدنصیبی پاکستان کوبھی چمٹ گئی ہے ۔یہاں بھی ایک طویل عرصے سے 2 خاندانوںکی حکومت چلی آرہی ہے، جنہوںنے اقتدار کیلئے باریاں لگارکھی ہیں انہوںنے دھونس، دھاندلی اور جبر سے سب کو اپنا ہمنوا بنارکھاہے ۔مفاہمتی سیاست کے نام پر ریاست کے وسائل اپنے حامیوں میں بانٹ دیے ہیں، جس جس نے موروثی حکمرانی کے خلاف آواز بلندکی اس کو عبرت کا نشان بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ ان 2 سیاسی خاندانوں اور ان کے حامیوں کی تیسری نسل اقتدار انجوائے کررہی ہے۔ ان لوگوں نے اپنے لیے دولت کے پہاڑ اکٹھے کرلیے ہیں اور عوام ہیں کہ بنیادی سہولتوں کے لئے خجل خوار ہوتے پھرتے ہیں ۔ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں۔محسوس ہوتاہے آنے والے حالات مزید سنگین ہو جائیں گے ،حکمرانوںکو صرف اپنے اقتدارکی فکرہے اور محب ِ وطن پاکستانیوں کو ملک کی فکرکھائے جارہی ہے۔ 1970 میں ایک پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک ٹوٹ گیا ۔آج بھی عالمی طاقتیں پاکستان میں ماضی جیسے حالات پیدا کررہی ہیں۔ اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوچکی ہیں۔ آج اکثریتی پارٹی اپوزیشن میں ہے ۔ان کے رہنمائوںکو سزائیں سناکر سیاسی منظرنامے سے ہٹادیاگیاہے ، مخالف سیاسی کارکنوںکو دیوار سے لگادیا گیاہے ،ریاستی جبر کو اپنے اقتدارکی بیساکھیاں بنالیا گیا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے 1970ء میں شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی کے خلاف جو ایکشن لیا گیا اس کے بڑے خوفناک نتائج برآمدہوئے تھے جس سے نفرت کی سیاست کو فروغ ملا اور پاکستان دولخت ہوگیا پھر1977ء میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پیپلزپارٹی کوتوڑنے کی بہت سی سازشیں کی گئیں، ان کے ساتھیوں کو توڑ مروڑ کر پیپلزپارٹی کے بطن سے کئی پارٹیاں قائم کی گئیں، وہ آج کہاں ہیں؟ ان کے لیڈرکہاں گئے؟ عوام میں انہیں پزیرائی نہیں ملی ، آج2025ء میں ایک بارپھر ماضی کے ناکام تجربات کو دہرایا جارہاہے ۔مصنوعی طورپر تیار کی گئی ایک سیاسی قیادت کو عوام پر تھونپ دیا گیاہے جو آپس میں ہم خیال بھی نہیںجن کے نظریات ایک دو سرے کی ضدہیں یعنی کہیں سے گارا کہیں سے روڑا اٹھاکر بھان متی کا کنبہ تشکیل دے کر نادان یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے پر قادرہوگئے ہیں۔ یہ ان کی خام خیالی ہے چونکہ تاریخ کا فیصلہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ موجودہ سیٹ اپ کو عوامی تائید حاصل نہیں، اس لئے دھونس،دھاندلی،جبر اور سزائوں سے زیادہ دیر تک اقتدارکو دوام نہیں دیا جاسکتا ۔عوام کی بے چینی عروج پر ہے ، دل مضطرب اور سینوں میں طوفان پنپ رہے ہیں ۔یہ لاوا پھٹا تو سب کچھ بہاکر لے جائے گا ۔شایدتاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی آرزو رکھنے والے نہیں جانتے کہ اب اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔