وجود

... loading ...

وجود

غزہ پر مظالم اورفرانس کا اقدام

پیر 04 اگست 2025 غزہ پر مظالم اورفرانس کا اقدام

ڈاکٹر سلیم خان

ایک ایسے وقت میں جب غزہ کے ایک لاکھ شیرخوار بچوں کے سر پر صہیونی سفاکی کی تلوار لٹک رہی ہے فرانسیسی صدر ایمینوئل نے عنقریب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرکے پوری دنیا کو چونکا دیا۔ اسرائیل کے حلیف اور جی ٧ کے پہلے رکن ملک کا یہ اعلان صہیونی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہوکی خاطراس قدربڑا جھٹکا تھا کہ اس نے اسے اسرائیل کی تباہی کالانچنگ پیڈ قرار دے دیا۔خدا کرے ایسا ہی ہو ۔ یہ تو دنیا کے سارے انصاف پسندوں کے من کی بات ہے جو نیتن یاہو کی زبان سے ادا ہوگئی ۔ کاش کہ اس جراحی سے اسرائیل نامی ناسور کا قمع قمع ہوجائے ۔ اس معاملے کا دوسرا تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ یہ سفارتی کارنامہ اس سعودی عرب کوششوں کا نتیجہ ہے جس کے ساتھ ‘ابراہیم معاہدہ ‘ کرکے اسرائیل فلسطینیوں کو عرب دنیا سے الگ تھلگ کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح گویا جس ملک کو توڑنے کے لیے استعمال کرنے کا آلۂ کار بنانے کی شیطانی سازش رچی جارہی تھی اسی نے فلسطین کو مغربی یوروپ کی ایک بڑی طاقت سے تسلیم کروا لیا اور اسی کے ساتھ برف کے پگھلنے کا آغاز ہوگیا۔
حماس نے فرانسیسی صدر کے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیا اور مزید کہا کہ ، ”ہم دنیا کے تمام ممالک سے ، خاص طور پر یورپی ممالک اور جنھوں نے ابھی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا، مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں فرانس کی پیروی کریں۔” فلسطینی اتھارٹی کے نائب صدرحسین الشیخ نے سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا کہ اسی نے دنیا کے سامنے دوملکی حل کا فارمولہ تجویزکیا تھا جس کے سبب فرانس نے فلسطین کوتسلیم کیا ہے ۔ فلسطین کو الگ ملک کی منظوری دلانے کے لئے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے جون 2025 میں ایک مہم چلائی تھی اور اس کے دوران فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون کو تفصیل میں بتایا تھا کہ کیسے فلسطین کو منظوری دینے سے جنگ بندی ہوسکتی ہے ۔
سعودی عرب کا موقف ہے کہ 1967کی سرحدوں پرہی یہ تنازعہ ختم ہوسکے گا۔ اس کے تحت مشرقی یروشلم جس پر فی الحال اسرائیل کا قبضہ ہے فلسطین کی راجدھانی بنے گا ۔ سعودی عرب کی سربراہی میں اس ماہ نیویارک کے اندر دو قومی نظریہ پرایک میٹنگ ہونی ہے برطانیہ جیسے ممالک کوبھی راضی کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔معروف میڈیا ہاوس بلوم برگ کے مطابق برطانیہ کی کابینہ کے کئی وزرائ، بشمول وزرائے صحت، انصاف اور ثقافت نے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے عمل کو جلد از جلد شروع کیا جائے ۔ فرانس نے برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ غزہ کے بحران پر ہنگامی مشاورت کے بعدیہ اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ اجلاس کے دوران فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لے گا ۔ویسے تو اقوام متحدہ کے تقریباً 150 رکن ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں جن میں اسپین ناروے اور آئر لینڈ جیسے یوروپی ممالک بھی شامل ہیں، تاہم امریکہ اور برطانیہ جیسے اہم مغربی ممالک ابھی تک اس فہرست میں موجود نہیں ہیں۔
اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے میکروں کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایکس پر لکھا: “ہم سب کو مل کر اس چیز کی حفاظت کرنی چاہیے ، جسے نیتن یاہو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو ریاستی حل ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے ۔ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے بھی ایکس پر ایک پوسٹ میں فرانس کے اقدام کو “اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امن اور سلامتی کی واحد پائیدار بنیاد قرار دیا نیز کینیڈا نے بھی اس کا استقبال کیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک بھی جلد فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے جو خطے میں دیرپا امن اور سلامتی کو یقینی بنائے ۔انہوں نے واضح کیا کہ اس مقصد کے لیے اوٹاوا اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر فعال کردار ادا کرے گا۔ مارک کارنی وہیں نہیں رکے بلکہ غزہ میں اسرائیلی کابینہ کی ناکامی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ انسانی بحران کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔
جی ٧ کے ایک اور رکن اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے بھی کہا کہ ان کا ملک غزہ میں جاری ”قتل اور قحط” کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاہم واضح کیا کہ اٹلی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے یعنی اس کی کچھ شرائط ہیں جس کے بعد آج نہیں تو کل وہ بھی تسلیم کرلے گا ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی طرح دنیا کے سب سے زیادہ سنگدل ممالک کے دل بھی پگھلنے لگے ہیں۔ یہودی برسوں تک ہٹلر کے ذریعہ کی جانے والی نسل کشی کے بہانے دنیا بھر سے ہمدردی سمیٹتے رہے ۔ اب ان کو ٧اکتوبر کا حیلہ مل گیا ہے لیکن اس کے بعد صہیونی سرکارجو مظالم کے پہاڑے توڑے اسے دیکھ کر ہٹلربھی ہوتا تو شرماجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری میں امریکہ کے علاوہ بیشتر ممالک نے اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دیا۔ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بھی اب اسرائیل کی حمایت کرنا مشکل ہورہا ہے ۔ شام پر بمباری کے بعد یہ اختلاف کھل کر سامنے آگیا جب نیتن یاہو کو امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے بے قابو جنونی پاگل قرار دیا ۔
برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر بھی جنگ بندی اور “فلسطینی ریاست کی طرف قدم اٹھانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔وہ بولے “جنگ بندی ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور ایسے دو ریاستی حل کی راہ پر گامزن کرے گی، جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن اور سلامتی کی ضامن ہو۔ حکمران لیبر پارٹی سمیت برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کو بطورِ ریاست باقاعدہ طور پر تسلیم کرے ۔ فرانسیسی اعلان کے بعد٩ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کے دستخط شدہ خط میں یہ مطالبہ کیا گیا۔مذکورہ بالا خط میں 221 اعتدال پسند دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی، مرکز کی لبرل ڈیموکریٹس اور اسکاٹ لینڈ و ویلز کی علاقائی جماعتوں کے برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کو لکھاکہ “ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے آئندہ اجلاس میں فلسطینی ریاست کو با ضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے ۔ ان لوگوں نے اعتراف کیا “اگرچہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ برطانیہ اکیلا فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں بنا سکتا، لیکن برطانیہ کا باضابطہ اعلان ایک اہم علامتی قدم ہو گا۔
مذکورہ بالاارکانِ پارلیمان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں برطانیہ کی رکنیت اوراس کی تاریخی ذمہ داریوں کا حوالہ دیا۔خط میں برطانیہ کے بالفور اعلامیے (1917 ) کا ذکر کیا گیا جس نے اسرائیل کے قیام کی بنیاد فراہم کی تھی۔اراکین نے مزید لکھا “1980 سے ہم دو ریاستی حل کی حمایت کرتے آئے ہیں، اور فلسطین کو تسلیم کرنا اسی موقف کو تقویت دے گا۔ یہ قدم فلسطینی عوام کے حوالے سے ہماری تاریخی ذمہ داری کو نبھانے کے مترادف ہو گا۔ اس دباو کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم سٹارمر کو کہنا پڑاکہ اس بابت کوئی ابہام نہیں ہے کہ ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنا امن کی طرف لے جا نے والے اقدامات میں شامل ہے ، لیکن یہ اقدام ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم یہودی ہیں اور بڑے فخر سے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کے خاندان والے اسرائیل میں رہتے ہیں لیکن اب ان کوبھی اپنی کرسی بچانے کی خاطر فلسطین کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔
برطانوی وزیر اعظم کیر سٹارمر نے ابھی حال میں کہا کہ اگر اسرائیل مخصوص شرائط کو تسلیم نہیں کرتا تو برطانیہ ماہ ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ سکتا ہے ۔ ان کی شرائط میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے الحاق نہ کرنے کی یقین دہانی کو اولیت حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ دو ریاستی حل کو ممکن بنانے کے لیے باہمی پر امن وجود کی خاطر طویل امن عمل کا وعدہ بھی شامل ہے ۔ کیر سٹارمر نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے ۔ تاہم ہمارے حماس سے بھی یہ مطالبات ہوں گے کہ وہ تمام قیدیوں کو رہا کرے ، جنگ بندی کے بعد بننے والی حکومت میں سے خود کو دور کرکے غیر مسلح ہوجائے ۔ یہ ایسی شرائط ہیں جسے دونوں فریق مستر کردیں گے لیکن برطانیہ پر امید ہے کہ اس کی کوشش اسرائیل سے ابتدائی طور پر غزہ میں امدادی سامان اور خوراک کی فراہمی کا بہاؤ بہتر ہوگا اور بعد ازاں دو ریاستی حل کے لیے سفارتی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔فرانس اور برطانیہ کے ساتھ اگرجرمنی بھی فلسطین کی حمایت میں آ جائے تویوروپ کی رائے عامہ کا اسرائیل کے بجائے غزہ کی جانب جھک جائے گی اور یہ نہ صرف فلسطین کی آزادی و خود مختاری بلکہ امن عالم کی جانب ایک بہت اہم قدم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جعلی مقابلوں میں کشمیریوں کی شہادت وجود پیر 04 اگست 2025
جعلی مقابلوں میں کشمیریوں کی شہادت

اُلٹی گنتی شروع وجود پیر 04 اگست 2025
اُلٹی گنتی شروع

غزہ پر مظالم اورفرانس کا اقدام وجود پیر 04 اگست 2025
غزہ پر مظالم اورفرانس کا اقدام

بھارتی طلباء امریکا میں تعلیم سے محروم وجود هفته 02 اگست 2025
بھارتی طلباء امریکا میں تعلیم سے محروم

غریب کا دشمن غریب وجود هفته 02 اگست 2025
غریب کا دشمن غریب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر