وجود

... loading ...

وجود

فرانس کا فلسطین پرنیاموقف

جمعرات 31 جولائی 2025 فرانس کا فلسطین پرنیاموقف

حمیداللہ بھٹی

فرانس کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرناایک اہم عالمی پیش رفت ہے جس کے غیر معمولی نتائج سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ فرانس کا اہم عالمی کردار ہے ۔یہ جوہری ملک یورپی یونین کے فیصلوں پر نہ صرف اثر انداز ہونے کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہے بلکہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں شامل ہے جن کے پاس ویٹوپاور ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی دفاعی تنظیم نیٹوکا بھی فعال رُکن ہے۔ اسی لیے فرانس کی طرف سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کاعلان بہت اہم ہے۔ اگرچہ کچھ حلقے اِس اعلان کو ایک بڑی پیش رفت قرار دینے پر مُصر ہیں تو غیر جانبدارحلقے اِسے فلسطینیوں سے حُب کی بجائے اندرونی دبائو کاشاخسانہ قراردیتے ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ فرانس جو اسلام مخالف قوانین بنانے میں پیش پیش ہے اور اِس حوالے سے یورپی یونین کی مجموعی طورپر آزاد خیال پالیسی کے منافی سخت گیر پالیسی پر ِ عمل پیراہے، سے فلسطین بارے کسی اچھے رویے کی توقع رکھنا درست نہیں۔علاوہ ازیں فرانس اور امریکہ کے باہمی تعلقات آجکل غیر متوازن ہیں۔ اسی بناپر فرانسیسی حکومت کی طرف سے ایسا کوئی فیصلہ متوقع تھا جو امریکہ کے لیے پریشانی کا باعث ہو مگراِس فیصلے میں جو بھی عوامل کارفرما ہوں فرانسیسی حکومت کا یہ فیصلہ بدلتے عوامی وعالمی رجحانات کا عکاس ہے۔
ارضِ فلسطین عشروں سے غاصب اسرائیلی ظلم و جبر کا شکار ہے یہاں دن رات انسانی آنسوئوں کی بارش ہوتی ہے۔ اسرائیلی حملوں سے یہاں ہر روز قیامت کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہے لیکن عالمی برادری نے آنکھیں بندکررکھی ہیں وجہ یہ کہ اسرائیل کا پشت پناہ امریکہ ہے جس کا ڈر حقائق کا اعتراف کرنے سے روکتا ہے کئی ماہ سے فلسطینی علاقے غزہ کو یکطرفہ بمباری کا سامنا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے لیے خوراک ،پانی اور ادویات کا حصول بھی ناکہ بندی سے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ غزہ کے مکینوں کو بمباری کے ساتھ بھوک سے بھی ماراجارہاہے اِتنے ظلم پربھی عالمی ضمیر گہری نیند سورہا ہے۔ امریکی خوف دنیا کوظلم پر لب کشائی سے روکتا ہے مگر اب کچھ ایسے آثار ہیں کہ عالمی برادری آنکھیں کھول سکتی ہے ۔اِس کی وجہ چاہے اندرونی عوامی دبائو ہی سہی پھر بھی یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
فلسطین کی بدقسمتی یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے، تیل ہی عالمی طاقتوں کی مشرقِ وسطیٰ میں دلچسپی کی وجہ ہے مزید بدقسمتی یہ کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کی ہمسایہ ہے ،جسے توسیع پسندی کا ایک ایسا عارضہ لاحق ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جارہا ہے مگر اِس عارضے کا علاج کرنے میں کوئی عالمی طاقت یا اِدارہ دلچسپی نہیں رکھتا ۔اسی وجہ سے عشروں سے ناقابلِ علاج ہے اگر اقوامِ متحدہ چاہتی تو سرائیل کو نسل کشی اور جارحیت سے روک سکتی تھی مگرہربار امریکی خواہش آڑے آجاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نہ صرف فلسطین پر قابض ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کوبے خوف وبے لگام ہوکرمحاذِجنگ بنا رکھا ہے ۔دراصل دنیا کی سیاست مفادات کاکھیل ہے اور امریکی مفاد اسرائیل کی سرپرستی میں ہے ،اِس طرح وہ دو فائدے حاصل کرتا ہے۔ ایک طرف دنیا کے امیر ترین صیہونیوں کی سرمایہ کاری حاصل ہے تودوسرا مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کو بھی اسرائیلی خوف کی وجہ سے زبردستی اپنا اتحادی بنارکھا ہے۔ اسی لیے اسرائیل کوجارحانہ اور وحشیانہ اقدامات سے روکنے کی بجائے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ اب اسرائیل صرف فلسطین تک محدودرہنے کی بجائے دیگر ہمسایہ ممالک لبنان،شام اور عراق پربھی حملے کرنے لگا ہے۔ ہمسایہ ملک نہ ہونے کے باوجود وہ ایران جیسے ملک پر جوہری طاقت بننے کا الزام لگا کر حملے کر چکا ایسی کوششیں دنیا کو دانستہ طور پر جنگ میں دھکیلنا ہے جس کا حل یہ ہے کہ عالمی اِدارے اور طاقتیں ناانصافی کی بجائے اسرائیلی جارحانہ و توسیع پسندانہ اقدامات پرخاموش رہنے کی بجائے انصاف کریں ۔
اسپین یورپی یونین کاوہ اولیںملک ہے جس نے سب سے پہلے مفادات سے بالاتر ہوکر غزہ المیے پرنہ صرف آواز بلند کی بلکہ سرائیل کے لیے ہتھیار لے جانے والے بحری جہازوں کے لیے اپنی بندرگاہیں تک بندکردیں ۔یہ ایک ایسا منصفانہ فیصلہ ہے جس سے ثابت ہوا کہ اسپین کے قول و فعل میں تضادنہیں جہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہوگی سپین مفادات سے بالاتر ہو کرفیصلے کرے گا۔ فلسطین کے لیے یورپی یونین سے یہ پہلی زوردار آواز بلند ہوئی جو ہر حوالے سے قابلِ قدر ہے۔ اب تاخیر سے ہی سہی یا فرانس نے امریکہ کوزچ کرنے کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے یا بڑھتے اندرونی دبائو سے مجبور ہوکر اِس طرف آیا ہے جو بھی ہے اِس کے ممکنہ گہرے ا ثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ توقع ہے کہ شاید جلد ہی برطانیہ بھی ایسا کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے جو فی الحال ایسے کسی فیصلے سے انکاری ہے۔ فرانس کے فیصلے سے برطانوی وزیرِ اعظم کئیرسٹارمر پر عوامی دبائو میں مزید اضافہ ہو گا جوفلسطین کوبطور ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کاباعث بن سکتا ہے کیونکہ دوران ِانتخاب ووٹ بحرحل عوام نے دینے ہوتے ہیں ۔امریکہ نے نہیں اگر فرانسیسی صدرایمانوئل میکغوں کو یہ بات سمجھ آگئی ہے تو برطانوی وزیرِ اعظم بھی جلد سمجھ جائیںگے وگرنہ اپنی مقبولیت اپنے ہاتھوں کم کریں گے۔
دنیا کے 146کے لگ بھگ ممالک فلسطین کوبطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں جن میں وہ تمام ممالک بھی شامل ہیں جوعرب لیگ کا حصہ ہیں ۔اب فرانس جیسے اہم یورپی ملک کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنے سے عرب ممالک کے نہ صرف موقف کو تقویت ملے گی بلکہ دیگر ممالک کے لیے ایسا فیصلہ کرنابھی آسان ہو جائے گا ۔حالانکہ ایسے فیصلے اخلاقی حوالے سے ہی اہم ہیں کیونکہ ایسے فیصلوں کو توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی اقوام خاطر میں نہیں لاتیں جب تک عملی اقدامات نہ اُٹھائے جائیں ۔ اسرائیل جو عالمی قوانین کی پاسداری نہیں کرتااور نہ ہی اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی اِداروں کی پاس کردہ قرار دادوں کو اہمیت دیتا ہے مستقبل میں بھی ایسی کوئی خوش فہمی نہیں کہ ظلم و زیادتی کا سلسلہ روک کر فلسطینیوں کو انسانی حقوق دینے پر رضا مند ہو جائے گا، جب حال ہی میں اُس کی پارلیمنٹ مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کی قرار داد منظور کر چکی ہے۔ اِس کے باوجوداخلاقی فیصلوں کی اہمیت ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ اقوامِ متحدہ اورطاقتور یورپی اقوام دنیا میں امن قائم کرنے میں سنجیدہ ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ محکوم اقوام کو غصب شدہ حقوق دلائے جائیں اور جارحانہ و توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ممالک کی حوصلہ شکنی کی جائے فلسطین کے بارے میںفرانسیسی فیصلہ قابلِ ستائش ہے مگر جب تک اسرائیل کوظلم و جبر اور نسل کشی سے روکنے کے لیے عملی طورپر سخت فیصلے نہیں کیے جاتے فلسطین کی مظلوم اور معصوم عوام کوانصاف نہیں مل سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فرانس کا فلسطین پرنیاموقف وجود جمعرات 31 جولائی 2025
فرانس کا فلسطین پرنیاموقف

بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ وجود جمعرات 31 جولائی 2025
بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ

اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی! وجود جمعرات 31 جولائی 2025
اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!

مودی راج اور بھارتی سیکولر ازم وجود بدھ 30 جولائی 2025
مودی راج اور بھارتی سیکولر ازم

پاکستان میں جلد ایک نیا سورج اُگنے والا ہے! وجود بدھ 30 جولائی 2025
پاکستان میں جلد ایک نیا سورج اُگنے والا ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر