... loading ...
آفتا ب احمد خانزادہ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
وکٹر ہیوگو کہتا ہے ”مرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ زندہ نہ رہنا خوفناک ہے۔ اور پھر بھی، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں پہلے ہی مر چکا ہوں، ایک بھوت ایسی زندگی کا شکار ہے جسے میں اب پہچان نہیں سکتا۔ دن ایک دوسرے میں دھندلا جاتے ہیں، معنی سے خالی۔ میں دنیا کو اپنے بغیر آگے بڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں، اور میں حیران ہوں کہ یہ کیسے جاری رہتا ہے جب کہ میں وقت میں منجمد رہتا ہوں، اپنی ہی مایوسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں۔ ہر سانس ایک وزن کی طرح محسوس ہوتا ہے، ہر لمحہ میرے اندر کے خالی پن کی ظالمانہ یاد دہانی”۔ہم سب خوف کے مارے ہوئے ہیں نہ تو ہمیں اپنے آپ پر یقین ہے اور نہ ہی اس بات پر کہ ہم اپنے خیالات خو د بد ل سکتے ہیں جو کچھ بھی تھوڑا بہت ہمارے پاس باقی بچ گیا ہے ہم کسی صورت بھی اسے دائو پر لگانا نہیں چاہتے اور ساتھ ساتھ اس شرمناک جھوٹ پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ یہ ہی ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے ،یہ ہی ہمار ا مقدر ہے ۔
ترکی کے شاعر ناظم حکمت اپنی نظم میں لکھتا ہے ” جس لمحے تم نے جنم لیا انہوں نے تمہارے چا ر سو ایسی چکیاں لگادی ہیں جوجھوٹ پیستی ہیں ایسے جھوٹ جو تمہارے ساتھ زندگی بھر رہ سکیں ” ۔ چا ڈوک کہتا ہے ” اگر انسان یہ سوچے کہ حالات ناقابل برداشت ہیں اور یہ دیکھے کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اگر وہ مسائل کا کوئی حل دیکھتا ہے تو اس نظام کو اُلٹ دیتا ہے کہ جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے ”۔ 16 ویں اور سترھوں صدی میں با دشاہوں اور آمروں نے پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کرکے کروڑوں انسانوں کو معاشی وسیاسی آزادی سے محروم کر دیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور دلیل کے دور کا آغاز ہوگیا۔ لوگ سماج کو بدلنے والے معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق کا مطالبہ کرنے لگے ۔قدامت پسند خیالات ہر جگہ شکست سے دو چار ہو نے لگ گئے اور یورپ کے لوگوں نے ایک نئے انداز سے رہنے کا ڈھنگ سیکھنا شروع کر دیا اور وہ یہ جان گئے کہ انسان اپنی شخصیت اور وجود کا تعمیر کندہ ہے ۔یورپ میں بسنے والے لاکھوں افراد جنہیں دھرتی کے نظر انداز بچے کہا جاتا تھا، اپنی عظمت کے لیے اکٹھے ہوگئے اور یہ ثابت کر نے لگے کہ انسان تدبیر کے ذریعے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے ۔ 1848 میں نفر توں کا آتش فشاں پھٹ پڑا ۔سارا یورپ انقلابی لہر کی لپیٹ میں آگیا ۔سب سے پہلے انقلاب سسلی میں پھو ٹا۔ قابل نفرت یاریون بادشاہ فریڈنڈ دوئم جو انقلابی تحریکوں کو کچلنے میں شہرت رکھتا تھا، وہ اپنے تا ج و تخت سے محروم کر دیے جانے کی فکر میں تھا اور بڑی عجلت کے ساتھ کئی ایک رعایتیں دینے کو تیارہوگیا ۔تمام رجعت پر ست وزرا ء کو دستبردار کر دیاگیا اور نئے آئین کا وعدہ کیاگیا۔ 24,22 فروری فرانس میں انقلاب اٹھ کھڑا ہوا ۔ایک معمولی سا واقعہ ہزاروں مزدوروں کو سٹرکوں پر لے آیا۔ اس سے پہلے کہ کئی قصبوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہوجا تا، زبردست ناکہ بندی کر دی گئی۔ گیوزٹ جو اس انقلاب کو چائے کی پیالی میں انقلاب کہہ رہا تھا ،وہ آخر کا ر فرانس سے بھاگ جانے پر مجبور ہوا۔وہ بھی ایک عورت کے روپ میں، اگلے دن لوئیس فلپ نے بھی ایسا ہی کیا ۔فرانس کے باغی شاہی محل توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ 13 مارچ کو ویانا کی گلیوں کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ سٹرنچ بھاگ گیا ۔بدھا پیٹ اور پراگ میں بھی ویانا کی طرح ہوا اور جلد ہی آسٹریا کی کثیر القومیتی حکومت انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں آگئی۔ 18 مار چ کو جرمنی میں بھی انقلابی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی کامیابی دراصل کئی ایک جرمن ریاستوں میں انقلابی تحریکیوں کا باعث بنی۔ ایک عظیم الشان انقلابی تحریک پورے اٹلی میں پھیل گئی۔ لو میا رڈی میں باغی اطالیوں نے قابض آسٹریا ئوں کو شکست دے دی اور مارسل راوئے ذکا ئے کو جد وجہد کے دوران بہت شہرت حاصل ہوئی۔ آسٹریا والوں کو وینٹیا سے نکال باہر کر دیاگیا جسے بعد میں ایک آزاد ریاست قرار دے دیاگیا ۔انگلستان میں چار ٹرسٹ تحریک اپنے زوروں پر تھی۔ اسپین میں بھی انقلابی تحریک پھیل گئی۔ سو ئزر لینڈ اور بلجیم میں بھی یہ ہی صورتحال تھی۔ پولینڈ والے ملک کی تقسیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انقلابی تحریک پورے یورپ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی جونا قابل نفرت سیاسی حکومتوں اور با دشاہت کے زوال کا باعث بن رہی تھی۔ محلات اور تحت و تاج لرز رہے تھے ۔طو فان کے آمد کی گونج صاف سنائی دے رہی تھی۔ انسانیت کے دوبارہ پیدا ہونے کا نور اور حساب کتاب کا دن ، نئی قوتوں نے انسانی قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا ۔پرانی امیدیں ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوگئی تھیں اور جرأت اس دور کا پیغام تھا۔ انقلاب فرانس نے فرانس اور بعد میں یورپ کے دیگر ممالک کے معاشروں کویکسر پلٹ کے رکھ دیا۔ اس نے جو زبان و نعرے دیے وہ بعد میں آنے والے تمام انقلاب میں مو ثر ہتھیار کے طورپر استعمال ہوئے ۔ آزادی ، مساوات اور اخوت ان ہی تین نعروں نے غیر مراعات یافتہ اور کچلے ہوئے طبقات کو اپنی قسمت تبدیل پر اُکسا یا ۔ آج یہی تین نعرے آزادی ، مساوات اور اخوت آپ کو اور مجھے اپنی قسمت تبدیل کرنے پر اُکسا رہے ہیں ۔ ہم اپنے اندر سے اور یورپ سے آنیوالی آوازوں کو کیوں نہیں سن رہے ہیں ؟کیوں بہرے اور انجان بنے ہوئے ہیں ؟ کیا ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے؟ کیا ہمیں اپنے آپ پر رحم نہیں آتاہے؟ سنو یہ آوازیں ثبوت ہیں کہ ہم زندہ ہیں مردہ نہیں۔ اگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کی تمام راحتیں، آسائشیں ، مسرتیں ، خو شیاں ، ہم پر کیوں حرام کر دی گئی ہیں؟ اگر ہم بے گنا ہ ہیں تو دوزخ میں کیوں ڈال دیے گئے ہیں ۔ اٹھو آئو جھوٹ پیسنے کی تمام چکیاں مسمار کر دیں ۔اپنے آنگن میں صدیوں سے جمع شدہ مسائل کے کوڑے کوآگ لگادیں۔ با دشاہ لوئی چہار دہم کہا کرتا تھا میں ریاست ہوں ۔آئو ہم سب مل کر یہ نعرہ لگا ئیں کہ ہم ریاست ہیں ۔ اس لیے کہ ہم اس ملک کے اصل مالک ہیں پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ دو چار لٹیرے جنہوں نے ہمیں دوزخ میں ڈال رکھا ہے کس طرح بھاگتے ہیں ۔ یہ ناجائز قابضین کس طرح آپ سے اپنی جان بخشی کی بھیک مانگتے ہیں ۔جو کہتے پھرتے ہیں کہ ہم ریاست ہیں ،آئو کہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھیں جہاں سکون اور اطمینان ہو، جہاں آزادی ،مساوات، اور اخوت ہو، جہاں ہر شخص اپنے دائر ہ کار میں خو ش ہو، جہاں اخلاقی اقدار اپنی جڑیں پکڑی ہوئی ہو ں، جہاں کر پشن ، لوٹ ما ر ، عدم رواداری ، عدم برداشت ، بے ایمانی گناہ سمجھے جائیں ۔ آئو جرأت کرو، اٹھو میرے گلتے سٹرتے ، افلاس اور ذلتوں کے مارے ہم وطنوں ہم نے ہی یہ فیصلہ کر نا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یاتاریخ بنا نی ہے۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ”میں سو چتا ہوں اس لیے میں ہوں ”۔ آئیں ہم بھی سو چیں اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اپنے ملک کے لیے، اپنی قوم کے لیے ۔ آپ ہی وہ واحد فرد ہیں جو تبدیلی لاسکتے ہیں ۔
٭٭٭