وجود

... loading ...

وجود

بھارت کو چینی کھادوں کی ترسیل معطل

منگل 29 جولائی 2025 بھارت کو چینی کھادوں کی ترسیل معطل

ریاض احمدچودھری

چین نے بھارت کو خصوصی کھادوں کی ترسیل بند کر دی ہے، جس سے زرعی بحران کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ اقدام چین کی جانب سے نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی کے بعد سامنے آیا ہے، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کا تسلسل ہے۔
چین نے گزشتہ دو ماہ سے بھارت کو خصوصی کھادوں کی فراہمی روک رکھی ہے، جبکہ دیگر ممالک کو یہ کھادیں بدستور فراہم کی جا رہی ہیں۔ بھارتی زرعی ماہرین کے مطابق، پھلوں اور سبزیوں کی فصلوں کے لیے استعمال ہونے والی 80 فیصد خصوصی کھادوں کا انحصار چین پر ہے۔یہ کھادیں نہ صرف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ مٹی کی صحت اور غذائی اجزاء کی افادیت کو بھی بڑھاتی ہیں۔ بھارت جون سے دسمبر کے درمیان تقریباً 1.6 لاکھ ٹن خصوصی کھادیں چین سے درآمد کرتا ہے۔چین نے یہ پابندیاں براہِ راست اعلان کے بغیر لگائی ہیں، جو ممکنہ طور پر سرحدی کشیدگیوں اور بھارت کی جانب سے چین پر لگائی گئی تجارتی پابندیوں کے ردعمل میں کی گئی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاس ان کھادوں کی مقامی تیاری کے لیے درکار ٹیکنالوجی موجود نہیں، جس کے باعث زرعی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے “آتم نربھر بھارت” (خود انحصاری) کا دعویٰ اب ایک سیاسی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں لگتا۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے دوران کہا کہ بھارت اور چین کو چاہیے کہ وہ اپنی سرحدی کشیدگی کو حل کریں، افواج کو پیچھے ہٹائیں اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ‘تجارتی پابندیوں جیسے اقدامات’ سے گریز کریں۔بھارتی وزیر خارجہ کا 2020 کے بعد پہلا چین کا دورہ ہے، جب دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باعث تعلقات متاثر ہو گئے تھے، تاہم اکتوبر میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے بعد تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی تھی۔
گزشتہ ماہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے چینی ہم منصب سے کہا تھا کہ دونوں ممالک کو سرحدی تنازع کا ‘مستقل حل’ تلاش کرنا چاہیے، جسے نئی دہلی کی جانب سے اس مسئلے کو حتمی انجام تک پہنچانے کی نئی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ سرحد سے متعلق دیگر پہلوؤں کو بھی حل کریں جس میں کشیدگی میں کمی بھی شامل ہے۔ باہمی فائدے کی شراکت داری کو فروغ دینے کے لیے پابندیوں پر مبنی تجارتی اقدامات اور رکاوٹوں سے بھی گریز کرنا انتہائی ضروری ہے۔وزیر خارجہ نے یہ بات ایسے وقت میں کہی ہے جب بیجنگ نے حالیہ مہینوں میں اہم معدنیات جیسے کہ ریئر ارتھ میگنیٹس اور ہائی ٹیک اشیا بنانے والی مشینری کی سپلائی پر پابندیاں لگائی ہیں۔بھارت دنیا کے پانچویں بڑے ریئر ارتھ ذخائر رکھتا ہے، لیکن اس کی مقامی پیداوار اب بھی کم ترقی یافتہ ہے۔
پاکستان کے خلاف جارحیت کے بعد چین نے بھی بھارت کو بڑا جھٹکا دے دیا، چینی حکومت نے زنگنان کے مقامات پر کم از کم 27 سرحدی علاقوں کو چینی نام دے کر اسے اپنی خودمختاری قرار دے دیا۔چینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ زنگنان تاریخی، جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے چین کا حصہ ہے، ان مقامات کو چینی نام دینا ہماریاندرونی معاملات کا حصہ ہے، یہ اقدام چین کے خودمختار انتظامی دائرہ اختیار کے تحت کیا گیا، اقدام کا مقصد خطے میں تاریخی اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔
بھارت زنگنان کو اروناچل پردیش کے نام سے اپنا حصہ قرار دیتا ہے، چین زنگنان کو جنوبی تبت کا علاقہ تصور کرتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان مسئلے پر پہلے ہی کشیدگی موجود تھی۔اس سے قبل 2024 میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے زنگنان سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین، بھارت سرحد کو کبھی محدود نہیں کیا گیا اور اسے مشرقی سیکٹر، مڈل سیکٹر، مغربی سیکٹر اور سکم سیکٹر میں تقسیم کیا گیا ہے۔مشرقی سیکٹر میں زنگنان ہمیشہ سے چین کا علاقہ رہا ہے، چین نے بھارت کے غیر قانونی قبضے تک زنگنان پر مؤثر انتظامی اختیار استعمال کیا تھا، یہ ایک بنیادی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 1987 میں بھارت نے غیر قانونی قبضے کے تحت چین کی سرزمین پر نام نہاد ‘اروناچل پردیش’ تشکیل دیا تھا، چین نے اس وقت ایک بیان جاری کیا تھا جس میں اس کی سختی سے مخالفت کی گئی تھی اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ بھارت کا اقدام غیر قانونی اور کالعدم ہے، چین نے 2024 میں کہا تھا کہ چین کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔زنگنان میں جغرافیائی ناموں کے عوامی استعمال کے لیے چوتھا بیج مارچ 2024 میں جاری کیا گیا تھا۔بھارت نے کہا کہ وہ چین کے اروناچل پردیش میں مقامات کے نام تبدیل کرنے کے اقدام کو مسترد کرتا ہے، ان مقامات پر ایشیائی ہمسایوں کی سرحد ملی ہوئی ہے۔ یہ ہمالیہ کا علاقہ بھارت کا ایک لازمی حصہ ہے، بیجنگ نے ماضی میں بھی اروناچل پردیش میں مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں اور یہ مسئلہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔خاص طور پر جب دونوں ہمسایوں کے تعلقات میں 2020 میں سرحد پر ایک مہلک فوجی جھڑپ کے بعد تیزی سے خرابی آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے! وجود منگل 29 جولائی 2025
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے!

بھارت کو چینی کھادوں کی ترسیل معطل وجود منگل 29 جولائی 2025
بھارت کو چینی کھادوں کی ترسیل معطل

عافیہ صدیقی۔۔ پائی ہے کس جرم میں سزا، یاد نہیں وجود منگل 29 جولائی 2025
عافیہ صدیقی۔۔ پائی ہے کس جرم میں سزا، یاد نہیں

ہم شرمندہ ہیں وجود پیر 28 جولائی 2025
ہم شرمندہ ہیں

بھارتی فوج میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی وجود پیر 28 جولائی 2025
بھارتی فوج میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر