... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
سیاست صرف اقتدار کا کھیل نہیں یہ کردار کی آئینہ دار بھی ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند شخصیات ایسی بھی گزری ہیں جو نہ تو الزامات کی زد میں آئیں اور نہ ہی بلند آہنگ تقاریر کے ذریعے شہرت کی طلبگار ہوئیں بلکہ خاموشی سے خدمت کا سفر طے کرتی رہیں ۔ ایسے ہی معتبر ناموں میں ایک نام میاں اجو کا بھی ہے جنکا اصل نام میاں محمد اظہرہے لیکن بچپن سے ہی انہیں سب یار دوست اجو کے نام سے پکارتے تھے۔ فٹ بال کے شوقین تھے اورمحلے کی اپنی ٹیم بنا رکھی تھی ۔شائد یہی وجہ تھی کہ میاں صاحب سید فیصل صالح حیات کو ہرا کر پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر بھی بنے اور انکے دور میں ہماری فٹ بال ٹیم نے بھی اپنا نام بنایا بعد میاں اظہر کے بعد ہماری فٹ بال فیڈریشن لڑائی جھگڑوں میں مصروف ہوگئی اور ہمارا فٹ بال کا کھیل ختم ہوگیا۔ 15 اکتوبر 1945 کو لاہور میں پیدا ہونے والے میاں محمد اظہر کا تعلق ایک معزز کاروباری گھرانے سے تھا۔ انہوں نے ہیلی کالج آف کامرس سے تعلیم حاصل کی اور اسٹیل انڈسٹری میں اپنا نام بنایا۔ بچپن سے ہی ان کے اندر خدمت کا جو جذبہ تھا وہی جذبہ انہیں سیاست کی طرف لے آیا۔ 1987 میں وہ لاہور کے میئر منتخب ہوئے ان کا دفتر ایک عوامی دفتر ہوتا تھا ۔ہر وقت کام کام اور کام کرنے والے میاں اظہر نے لاہور کو ایک جدید شہر بنا دیا۔انہوں نے شہری مسائل کے حل، نکاسی آب کے نظام، سڑکوں کی مرمت اور پارکوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ان کی انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر 1990 میں انہیں پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا ۔جہاں انہوں نے اپنی بردباری اور شرافت سے کئی اہم بحرانوں کو سلجھایا۔
میاں اظہر میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے لیکن وقت کے ساتھ سیاسی نظریات میں فرق آیا اور یہ قربت فاصلے میں بدل گئی۔ 1999 کے مارشل لا کے بعد جب نواز شریف کو معزول کیا گیا تو میاں اظہر نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کی بنیاد رکھی یہ وہ وقت تھا جب سیاسی حالات دھندلا چکے تھے اور میاں اظہر نے سخت ترین سیاسی موسم میں پارٹی کی قیادت سنبھالی اگرچہ انہوں نے مسلم لیگ ق کو مضبوط بنایا لیکن 2002 کے عام انتخابات میں انہیں شکست ہوئی یہ ایک ایسا لمحہ تھا جہاں اکثر سیاستدان کنارہ کش ہو جاتے مگر میاں اظہر نے خود کو الزام تراشی یا موقع پرستی کی سیاست سے دور رکھا اور عزت سے پس منظر میں چلے گئے کئی سالوں بعد وہ 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے ان کے بیٹے حماد اظہر نے بھی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیااور وفاق وزیر رہے 2024 کے عام انتخابات میں میاں اظہر نے آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور جیت کر ایک بار پھر عوامی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا 22 جولائی 2025 کو میاں محمد اظہر لاہور کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے ان کی عمر 83 برس تھی اْن کی نمازِ جنازہ قذافی اسٹیڈیم میں ادا کی گئی اور انہیں گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا اْن کی وفات نے پاکستان کی سیاست سے ایک شرافت پسند باب کو بند کر دیامیاں اظہر کی سیاست، شور و غوغا سے پاک، عزت اور وقار کی سیاست تھی آج جب ہم سیاستدانوں کی فہرست بناتے ہیں، تو ہمیں ایسے افراد کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے جنہوں نے کبھی اقتدار کی خاطر اصولوں کا سودا نہ کیا ہواُن کی خدمات، ان کا نرم لہجہ اور ان کا وضع دار سیاسی رویہ ہمیں بتاتا ہے کہ سیاست عزت سے بھی کی جا سکتی ہے میاں اظہر کے ساتھ بچپن میں فٹ بال کھیلنے والے راجہ ذوالقرنین جو سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہیں،میاں اظہر کے مقابلہ میں الیکشن لڑنے والے انکے دوست فاروق آزاد جو مال روڈ تاجر وں کے صدرہیں اورسینئر صحافی نواز طاہر میاں اظہر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میاں اظہر لاہور کی مقامی سیاست میں ارائیں برادری کا آخری تاج تھا جنکی نمازِ جنازہ سے لیکر تدفین کے مراحل میں ارائیں برادردی کا شائد ہی کوئی خاندان ہوگا جو اس میں شریک نہیں ہوا ہوگا جبکہ تاجروں صنعت کاروں اور سماجی رہنمائوں کی شرکت بھی رہی تاہم ان کا ہر احسان مند بہر حال جنازے کو کندھا دینے کیلئے شریک نہیں ہوسکا جن میں قومی سیاست کے آفتاب و ماہتاب بھی شامل ہیں جن کی معاشی نزع میں میاں اظہر نے کندھا دیاالبتہ تعزیت کے بیان سامنے آئے ہیں ۔لاہور کی صنعت اور سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے میاں محمد اظہر سماجی سطح پر بھی مخیرین میں شامل تھے اور سیاسی عمل میں بھی وضعداری کا دامن کبھی نہیں چھوڑا تھا۔ انگریزی جملہ ڈائون ٹو ار تھ ان پر پوری طرح فٹ بیٹھتا تھا ۔وہ سیاست میں ریاست اور تشدد کے استعمال کے کبھی بھی قائل نہیں رہے بلکہ سماجی اور انتظامی پہلوئوں کی آبیاری کو خاصا رکھا اسی خاصیت کی بنا پر انہیں لاہور کا سیاسی قائد بھی بنایا گیا جبکہ اس سے پہلے یہ ذمہ داری آرائیں برادری نے میاں شجاع الرحمان کو سونپی ہوئی تھی بلا شبہ لاہور آرائیوں ( اکثریت کی بناء پر) کا شہر ہے اور یہاں کی سیاست کا محور بھی آرائیں برادری رہی میاں شجاع الرحمان سے پہلے میاں امین الدین اور میاں محمود سید بھی لاہور کے منتخب سیاسی لارڈ رہے۔ میاں اظہر کے بعد لاہور کی سیاسی قیادت آرائیں برادری سے کشمیری برادری کو سونپ دی گئی اور ایک طرح سے آرائیں برادری بحیثیت مجموعی قوت لاہور کی قیادت سے محروم کردی گئی۔ اگرچہ دو مرتبہ آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے میاں عامر محمود بھی لاہور کے میئر رہے لیکن انہیں آرائیں برادری کی سیاسی نمائندگی والا کردار اور اہمیت حاصل نہیں رہی ۔بحالی جمہوریت کے بعد جب جمہوری ادارے فعال اور متحرک ہونے لگے تو ان میں لاہور پریس کلب پر غیر صحافی عناصر کا قبضہ ختم کرکے جمہوری عمل کے نتیجے میں منتخب قیادت نے بھوت بنگلہ کی حالت بہتر بنانے کا عمل شروع کیاتو شدید گرمی میں ( جہاں اس وقت ہم ابھی غیر سرکاری بجلی استعمال کررہے تھے) میاں اظہر نے جو اس وقت لاہور کے میئر تھے پریس کلب کو پہلا عطیہ سیبرو کمپنی کے ایئر کنڈیشنر کیے تھے۔ اس وقت صوبے کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں تھے
( جن کی بدولت آج لاہور پریس کلب ایک عالی شان عمارت رکھتا ہے) گورنر کے طور پر میاں اظہر کو غلام حیدر وائیں پر زیادہ فوقیت حاصل تھی انہوں نے گورنر ہائوس میںلاہور کے پریس فوٹو گرافروں کو گجر پورہ اسکیم میں ساڑھے تین مرلہ کے رہائشی پلاٹ دینے کا اعلان کیا اور اس پر وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں سے عملدرآمد بھی کروایا۔لاہور میں تجاوزات کے خاتمے کا سہرا بھی میاں اظہر کے سر ہے جب انہوں نے تجاوزات کے خاتمے کی مہم شروع کی تو پہلی بارلفظ ‘ بلا امتیاز’ کی حرمت و تقدس کا احساس ہوا جس میں تاجر برادری اور سیاسی رہنمائوں سمیت مافیا بھی سرنگوں ہوا ۔اس دوران کوئی طبقہ اور بااثر شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے سفارش نہ کی ہو لیکن میاں اظہر اصولی فیصلے پر ڈٹے رہے ۔ لاہور کے گورنر ہائوس میں ہمیشہ اشرافیہ رونق افروز ہوئے لیکن میاںاظہر نے اسے بھی عوامی بنادیا اور ایسا بنایا کہ گورنر ہائوس کتابوں سے نکل کر ہر کسی کے قدموں کیلئے باعثِ رسائی بن گیا ۔انہوں نے اسے بچوں کے لئے کھول دیا ۔مخصوص اوقات کے دوران ہر بچہ بلا تخصیص گورنر ہائوس میں داخلے کا حقدار قراردیا اور سائی یقینی بنائی گئی۔ دوسروں کا ساتھ دینے کی ان کی سب سے بڑی مثال پنجاب کا شریف خاندان ہے جنہیں انہوںنے صنعتی نیشنلائزیشن کے عمل کے دوران کندھا دیا بعد میں دورانِ اقتدار ایک شوگر ملز کے معاملے پر دونوں خاندانوں میں اختلافات ہوئے تو راستے بھی جدا ہوگئے پھر کبھی ایسا موڑ نہ آیا جہاں ان کا مسکراتے ہوئے آمنا سامنا کھلے دل کے ساتھ ہواہو۔ سیاسی معاملات اپنی جگہ سماجی سطح پر میاں اظہر کا کردار ہمیشہ یاد رہے گا ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا ئیںہوتی رہیں گی۔