وجود

... loading ...

وجود

آب اور سیلاب

منگل 22 جولائی 2025 آب اور سیلاب

آواز
۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

پاکستان کا حال بھی عجیب ہے بارشیں نہ ہوں توقحط سالی۔۔ قوم کو نماز استسقاء کی اپیلیں۔ بارشیں ہونے لگیں تو پورا ملک ڈوب جاتا ہے ۔ اس سال لاہور،کراچی ، اسلام آباد، راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کا جو حشرہوا،اس کی تفصیلات میں جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ویسے تو پورا پاکستانی ہی شدید متاثرہوا۔ ان بارشوں سے جہاں200 سے زائد افراد جان سے گئے۔ وہاںکھربوںکا نقصان بھی ہوا ہزاروں غریب عمر بھر کی پونجی سے محروم ہوگئے لیکن حکمرانوںکی کوئی پلاننگ ہے نہ حکمت ِ عملی۔ ہرسال بارشیں،سیلاب قحط سالی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ ہم وقتی طورپر آہ و فغاں کرتے ہیںپھر بھول جاتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے ہم وطنوںپرکیا بیت چکی ہے اور غریب پھر سے بے یارو مددگار اللہ کے آسرے پر محنت مشقت کرکے منہدم گھروںکو رہنے کے قابل کرتے ہیں کہ پھر بارشیں آجاتی ہیں یا سیلاب سب کچھ ملیا میٹ کرکے چلے جاتے ہیں۔ عمریں بیت جاتی ہیں لیکن متاثرین کی ایکسرسائز ختم نہیں ہوتی۔ ان کے لئے یہی زندگی اور یہی موت کا سامان۔۔ لیکن اس ساری صورت ِ حال میں حکومت اور حکمران کیا کرتے پھرتے ہیں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا۔
کہاجاتاہے کہ 2015ء میں لاہور کے انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیاتھا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے ذریعے ایک ایسا ماحول دوست حل تجویز کیا ،جس پر عمل کرنے سے ایک بڑے فلائی اوور بنانے سے بھی کم لاگت میں پورے لاہور کی سڑکوں کو مون سون کی بارشوں میں تالاب بننے سے بچایا جا سکتا تھاکیونکہ لاہور میں پینے کا سارا پانی زیرِزمین ایکوائفر سے آتا ہے جس کا ری چارج دریائے راوی سے ہوتا تھا جوکہ انڈیا کی طرف سے راوی پر 2000ء میں تھہین ڈیم بنانے سے 85فی صد کم ہو گیا تھا اور اب اس سال شاہ پور کنڈی بیراج کی تعمیر کے بعد تقریباً صفر ہو گیا ہے۔ دوسری طرف لاہور کے زیرِزمین پینے کے قابل پانی کی سطح 6سو سے 8 سو فٹ تک گرچکی ہے اور 12 فٹ انتہائی حد ہے جس کے بعد زیرِزمین پانی موجود نہیں۔ زیرِزمین پانی کی سطح ہر سال 3 فٹ کی رفتار سے گر رہی ہے۔ اس ریسرچ کے لئے انجینئرز نے شہر لاہور کی سڑکوں پر 43 ایسی نشیبی جگہوں کی نشاندہی کی جو مون سون میں بارش کے بعد تالاب کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ان کا اندازہ تھا کہ سڑکوں پرصرف ان 43 مقامات پر ہی 1000 ایکڑ فٹ حجم کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے جس کا بہت سا حصہ پانی چوس کنویں بنا کر زیرزمین اتارا جاسکتا ہے۔اپنے اندازے کی سچائی جانچنے کے لئے انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے ساتھ والی نشیبی سڑکوں پر دو پانی چوس کنویں بنائے۔ ہر ایک کنواں6x9x8 فٹ کا تھا جس کی سطح پر انہوں نے 2 فٹ موٹے پتھر اور ایک ایک فٹ بجری اور ریت کی تہہ جما دی جس کے نیچے ایک فٹ گولائی والا سوراخ دار پائپ زیرزمین پانی تک پہنچا دیا۔ حیرت انگیز طور پر پہلی ہی بارش میں سڑک پر کھڑا ہونے والا ایک لاکھ لٹر پانی صرف تین گھنٹوں میں کنووں نے چوس لیا تھا اور بارش میں ہر دفعہ بند رہنے والی سڑک پر تھوڑی دیر بعد ہی ٹریفک رواں دواں تھا۔ مزید تسلی کے لئے انجینئرز نے سڑک پر اکٹھا ہونے والے بارشی پانی اور کنوؤں میں فلٹر ہو کر جانے والے پانی کی کوالٹی کے مختلف ٹیسٹ مستند لیبارٹریوں سے کرائے تو پتہ چلا کہ کنوؤں نے فلٹر کے عمل میں بارشی پانی سے آلودگی بھی صاف کردی تھی اور زیرِ زمین جانے والا پانی انتہائی صاف ستھراتھا۔سب اہم بات یہ تھی کہ ایک ہی بارش کے ری چارج نے زیرزمین پانی کی سطح 3.5 فٹ بلند کر دی تھی۔ یہ فوائد صرف 15 لاکھ کی لاگت سے بنے2 کنوؤں سے حاصل ہو گئے تھے۔اگر اس حساب سے پورے لاہور میں بھی پانی چوس کنویں بنا دئیے جاتے تو ان کی مجموعی لاگت صرف ایک بڑا فلائی اوور بنانے سے کم ہوتی۔ انجینئرز نے تخمینہ لگایا کہ 1800 اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے لاہور شہرسے مون سون میں پڑنے والی بارشوں سے ایک کروڑ سے زائد لاہور یوں کے لئے پورے سال کا پینے کاپانی اور ہر قسم کے صنعتی استعمال کا پانی زیرزمین ذخیرہ کروایا جاسکتا ہے۔ اس سے شہر کی سڑکیں برسات میں تالاب یا جوہڑ نہیں بنیں گی نہ ہی بارشوں میں سڑکوں پر ٹریفک پھنسے گا اور سڑکوں کی مرمت یا تعمیر نو پر اضافی خرچ بھی بچے گا۔ لاہور کا زیرِ زمین پانی جو کبھی 15 فٹ کی گہرائی پر مل جاتا تھا آج کل 150 فٹ سے نیچے جا چکاہے۔ پرانے شہر میں تو یہ 600 فٹ گہرائی پر بھی مشکل سے ملتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح ہر سال تین فٹ کے حساب نیچے گرتی جارہی ہے کیونکہ شہر کے دو ہزار ٹیوب ویلوں سے روزانہ 3500 ایکڑ فٹ پانی زمین سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ لاہور کو اپنے زمینی پانی کی سطح بحال رکھنے کے لئے سالانہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ حجم کے پانی کے خسارے کا سامنا ہے جبکہ انجینئرز کا تخمینہ ہے کہ ہر سال صرف مون سون کے موسم میں لاہور شہر سیبارش کا پانی اس سے دْگنا حجم میں زیرزمین ایکوائفر میں واپس بھیجا جاسکتاہے۔
لاہور میں زیرِ زمین پانی کوریچارج کرنے کے لئے جدید طرز کا”چھپڑ ْ” سسٹم بحال کرنا ہوگا جس نے ماضی میں صدیوں تک اس شہر کے زیر زمین پانی کو میٹھا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھا۔چھپڑ کی طرز پر لاہور شہر کے پارکوں اور کھلی جگہوں پر کثیر تعداد میں ڈونگی گروانڈز کا قیام عمل میں لایا جائے جن کے اطراف میں ریچارج کنویں بنے ہوں۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں دفاتر فیکٹریوں الغرض تمام کھلی جگہوں پر ریچارج کنویں بنا کر ری سائیکل پانی سے زیر زمین پانی کو مون سون کے دوران ہی پورے سال کے استعمال کے لئے ریچارج کیا جائے۔ اس کام کو پھر تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پہنچانا ہوگا۔ ہمیں فی الفور ریچارج اتھارٹی بناکر کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ 2015ء کے بعد بھی کئی برساتیں گزر چکی ہیں لیکن لاہور کی سڑکیں ابھی بھی تالاب بنی ہوتی ہیں۔ ایل ڈی اے، واسا، پنجاب اریگیشن، جماعت اسلامی، WWF ، PCRWR ، IWMI ، یو ای ٹی لاہور اور چند سوسائٹیوں اور انفرادی لوگوں کے پائلٹ ریچارج پراجیکٹس کے علاوہ انجینئرز کے اس دلچسپ تجربے سے بڑے اسکیل پر آج تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اگرچہ یہ ریسرچ اور عملی تجربہ لاہور تک محدود تھا لیکن اس کے نتائج کی بنیاد پر پورے پنجاب اور سندھ کے لئے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ PCRWR بھی اس سلسلے میں کافی ریسرچ کر چکا ہے۔ ضرورت اب عملی اقدامات کی ہے۔ پاکستان کے خْشک ہوتے دریاؤں کے پیشِ نظر مون سون میں بارش کے پانی سے ایکوائفر کا ری چارج ایک بہترین قدرتی حل ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ممتاز انجینئر ظفر وٹzafariqbalwatt کا کہنا ہے کہ یہ ریسرچ انٹرنیشنل جرنل میں شائع ہوچکی ہے جس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔بہرحال آبی ماہرین نے کئی بار حکمرانوںپر زوردیاہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکرطویل المدتی منصوبے تیار کریں تاکہ کو مون سون کی بارشوں یا سیلاب کے دنوںمیں وطن ِ عزیزکو تباہی سے بچایا جاسکے اس کے لئے ایک ماسٹر پلان کے ذریعے متاثرہ علاقوںمیں تالاب، نہریں اور چھوٹے آبی ذخائر بنائے جائیں اور ان کا رخ ان علاقوںکی طرف موڑدیا جائے جہاں پانی کی شدید قلت ہے اس طرح تھرپارکر، چولستان، سندھ، بلوچستان کے بنجردیہاتوں اور نورپورتھل کے وسیع علاقوںکو زرخیزبنانے میں مدد ملے گی جو ملکی ترقی کا ایک پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے ۔یہ طرز ِ عمل پاکستان میں پانی کی کمی کا واحد حل ہے کیونکہ آبی ذخائرنہ ہونے کی وجہ سے روزانہ ہزاروں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے لیکن حکمرانوںکو احساس تک نہیں کہ پانی ہی زندگی ہے اس کا ضیاع نہ صرف گناہ بلکہ بنجرزمینوںکو ایک نئی زندگی سے ہمکناربھی کرتاہے اس لئے پورے پاکستان، پنجاب ،بلوچستان اور سندھ کے لئے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جس سے پانی کی کمی دورکی جاسکے حکمرانوںکو حالات کی سنگینی کاادراک کرناہوگا اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت میں مذہبی پابندیاں وجود منگل 22 جولائی 2025
بھارت میں مذہبی پابندیاں

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں! وجود منگل 22 جولائی 2025
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں!

آب اور سیلاب وجود منگل 22 جولائی 2025
آب اور سیلاب

بھارتی کمپنیوں کا انسانی صحت کے ساتھ منظم،مجرمانہ کھلواڑ وجود پیر 21 جولائی 2025
بھارتی کمپنیوں کا انسانی صحت کے ساتھ منظم،مجرمانہ کھلواڑ

ٹڈاپ اسکینڈل کے پس پردہ حقائق وجود پیر 21 جولائی 2025
ٹڈاپ اسکینڈل کے پس پردہ حقائق

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر