... loading ...
جہان دیگر
۔۔۔۔۔
زریں اختر
چوبیس سالہ بھارتی کھلاڑی رادھیکا یادیو ، ٹینس کا جگمگاتا ستارہ جس کو اس کے باپ نے ہمیشہ کے لیے بجھادیا، اُس وقت وہ گھر میں اپنی ماں کی سال گرہ کااہتمام کرنے کے لیے رسوئی میں کام کر رہی تھی کہ اس کے باپ نے ریوالور کی تین گولیاں اس کی پیٹھ میں اُتار دیں، اسے کتنا ہوش رہا ؟ کیا ماحول تھا کہ وہ یہ جان پائی کہ یہ کس نے کیا ہے یا نہیں؟ شاید جان پائی کیوں کہ وہ زخمی حالت میں فرش پر پڑی سسکتی رہی ، اس کی ماں گھر کی دوسری منزل پر تھی ،بیٹے کو باپ نے اس کے گھر بھیج دیا تھا،باپ کے بھائی (چچا) کے بیان کے مطابق اس کا بھائی غصے کا تیز تھا اور اس کے پاس ریوالور بھی تھا۔ خبریں متضاد ہیں ایک طرف یہ کہ وہ ٹینس اکیڈیمی چلارہی تھی اور لوگ باپ کو بیٹی کی کمائی کھانے کا طعنہ دیتے تھے اوردوسری طرف یہ کہ باپ کو پیسے کی کمی نہیں تھی بلکہ انہوں نے خود اکیڈیمی کھولنے کے لیے سرمایہ بھی دیا تھا اور ان کو اپنی جائیداد کاکرایہ آتاتھا جو کافی سے زیادہ تھا۔ اب قتل کا محرک کون سا جذبہ تھا؟ اس سوال کا جواب مکمل تفتیش کے بعد ہی ملے گا، جذبہ کوئی بھی ہو قتل کا جواز بالکل اور قطعی نہیں بن سکتا،جب زندگی گھر کے سائبان میں سرپرست کے ہاتھوں ہی چھن جائے تودنیا میں بچتا کیا ہے ؟ چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ سجائے رادھیکا کا کھلتا کامیاب و کامران چہرہ ۔۔۔کون سا دل ہوگا جس سے آہ نہ نکلے۔
یہ بھارت کی خبر ہے ،اس نوعیت کے واقعات اعداد و شمار کے فرق کے ساتھ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ پاک بھارت مشترکہ تاریخی ورثہ رکھتے ہیںاور میں اس خبر کو اسی تناظر میں دیکھ رہی ہوں۔
پولیس جرائم کے واقعات کی انفرادی یا خرد سطح پر تفتیش کرتی ہے ،لیکن کلاں (میکرو) سطح پر اگر اسی ایک واقعے کو نظیر بنائیں تو۔۔۔ مشترکہ خاندانی نظام جوبے شک کئی خصوصیات کا حامل ہے اور ہم مغرب کو جن خرابیوں پر دل کھول کر برا بھلا کہتے ہیں اس میں وہاںکا مشترکہ خاندانی نظام کا ٹوٹنا بھی ہے ، ہم وہاں کے انفرادی آزادی کے تصور کو بھی خوب لتاڑتے ہیںکیوں کہ ہم نے اسے اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھا ہی نہیںہے ، یہاں تو حالت یہ ہے کہ اگر بیٹی اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینا چاہے تو ناخلف اور اس کا مرنا ہزار درجے بہتر کہ وہ خاندان اور برادری کے لیے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے لیے کلنک کا ٹیکہ ہے۔ مشرق و مغرب کے ان ابعاد کے درمیان توازن کا کوئی چپہ تلاش کرنا بھی مشکل ہے ۔یہاں فرد اس کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کے پائوں کے نیچے گھر کی زمین نہ اس کی چھت،جان ہی سلامت نہیں رہتی۔ مشترکہ خاندانی نظام اگر فرد کی آزادی ہڑپ نہ کرسکے تو زندگی ہی ہڑپ کرجائے وہ منظور۔کسی کو لگے کہ یہ مشترکہ خاندانی نظام کا مسئلہ نہیں ہے نہ یہ فرد کی آزادی کامسئلہ ہے ، میرے نزدیک یہ ایسا ہی ہے ۔ جہاں فرد کی آزادی سماجی سطح پر اصولی اور تسلیم شدہ حقیقت بن جائے وہاں بیٹی یا بیٹے کا عمل باپ یا ماں کو جواب دہ نہیں بناتااور نہ اولاد کو ان کے ماں باپ کے اعمال یاد دلاتاہے اور نہ فرماں برداری کے وہ تقاضے بنتے ہیں جو فرد سے اس کی آزادی اظہار و عمل کی قیمت مانگتے ہیں۔
انقلابات اور تحریکیں اپنے اپنے عہد کے پروردہ ہوائیں اور آندھیاں ہیںاگر ان کی پرورش و پرداخت اورمستقبل کے بدلتے ہوئے حالات میں مستقل دیکھ ریکھ پرمفکر ین کی نظر یں نہ ہوں، فکر کو بھی رنگ روپ بدلنا ہوتاہے۔ فکر آزاد ماحول میں پھلتی پھولتی ہے اور ہر کوئی اس میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ،یہ اگر سمت سے بے سمت ہوجائے یا بے سمتی ہی کو سمت سمجھا جائے اور بتایا دکھایا جائے ،پتا نہیں یہ فلمی گانے کیسے!؟
بابو جی دھیرے چلنا
پیار میں ذرا سنبھلنا
او بڑے دھوکے ہیں
بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں
فلمی گانے کیوں کہ مرد و عورت کے ازلی رومان کی باز گشت ہی طرح طرح سے سناتے ہیں تو ان گانوں کا ایک ہی رومانوی رخ سامنے آتا یا رہتا ہے،حالاں کہ اسی میں دھوکے کا ذکر بھی ہے ،لیکن سنبھلنا فکر کی راہ میں کہ بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں بھی کہ کہیں مغالطے فکر کی جگہ نہ لے لیں۔
کسی تحریک میں شمولیت سے بیانیہ کچھ اور اور اس کو فاصلے سے سمجھنے کی کوشش میں بیانہ و منظر کچھ اور بنتاہے ۔ فرد کی آزادی پر کوئی دو رائے نہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں خاندانی نظام کے خلاف ہوں۔ لیکن جہاں فرد کی آزادی کی قیمت پر باپ بیٹی کی جان لے لے ؟جان لینے کا حق کسی کو حاصل نہیں؟ اولاد کی پرورش سرمایہ کاری نہیںکہ مستقبل میں مرضی کا نفع دے تو درست ورنہ نہیں ، یہ سماج کے بندھے ٹکے سنسکار وں پر قربانی کی بلّی چڑھا دینے کے لیے نہیں ،والدین سمجھیں کہ ان کا بچہ آزاد فرد ہے ،ریاست فرد کی اس آزادی پر قانون بنائے ، جرم سرزد ہونے کے بعد قانون ریاست عدالت انتظامیہ سب حرکت میں آجاتے ہیں۔بچے بھی اسی معاشرے کے فرد ہوتے ہیںوہ خودکو خاندان سے الگ نہیں سمجھتے ، ان کے لیے شادی کے علاوہ الگ ہونے کا تصور بھی دشوار ہے۔ اب انہیں بھی ایسا ہی سوچنا ہوگاکہ گرسائبان اور سرپرست آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو نکلنے کا رستہ ڈھونڈیںپر یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی تو ہو کہ باپ ہی گولیوں سے بھون ڈالے گا۔ اتنی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن کوئی بھی اپنے باپ بھائی شوہر کے بارے میں اس طرح سے نہیں سوچ پاتا کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوسکتاہے ۔ریاست فرد کی آزادی کو یقینی بنائے اور ماں باپ پراولاد کو نام نہاد فرسودہ روایات و رسموںپر قربان کرنے کی سزا مقرر کرے ، وہ زندہ رہنا اپنی مرضی سے جینا جس کا حق تھا، جو بھی باپ بھائی شوہر بیٹا ،عورت کو اس حق سے محروم کرے ،ریاست انصاف کرے ، اور عدالتیں بس سزائیں نہ سناتی رہیں بلکہ حکومت سے یہ مطالبہ کریںبلکہ حکم دیں کہ انفرادی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے، سماجی تنظیمیں بھی یہ مطالبات پیش کریں ، یہ کام سنجیدگی سے کرنے کا ہے ، اس کے لیے جلسے جلوس بینر نعرے بازی والا طریقہ کار کارگر نہیں بلکہ الٹا مضر ہوگا،فکری تبدیلی کے لیے مکالمے کی فضا ضروری ہے ، پڑھے لکھے طبقے اپنی اپنی آراء کا اظہار کریں ، بیان بازیاں یا الزامات و جوابی الزامات نہیں ،ملائیت اور سیکولرازم کے طعنے نہیں، لوگوں میں اثر رکھنے والے طبقات کو ساتھ ملا کر چلیں، علمائے کرام یہاں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،مجھے ہمیشہ یہی لگا کہ ان کی ذمہ داری سب سے بڑھ کرہے، وہ مذہب کے نام لیوا ہیں، ان کے نام کے ساتھ مذہب کا نام روشن ہوتا ہے اور دوسری صورت میں اس پر دھبہ لگتاہے ،لوگ فرد کے عمل اور نظریے میں تمیز نہیں کرپاتے ،اور اگر وہ اسی کی بنیاداور نام پر معاشرے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ پاتے ہیں، ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو سوالات تو بنتے ہیں۔
تعلیم ، قانون سازی ، مکالمہ اور میڈیا ۔۔۔یہ سماج میں تبدیلی لانے کے بنیادی و موثر اور اول و آخر عامل ہیں، میں نے یہاں مذہب کو الگ سے شامل نہیں کیا ، اگر مسلم معاشرہ ہوگا تو تعلیم میں مذہبی تعلیم ،قانون سازی میں قرآن و شریعت ،مکالمے میں مختلف مذاہب و مسالک کے علمائے کرام ،اور میڈیاتو مذہبی چینل ۔
کیا انفرادی آزادی کا قانون بناتے ہوئے حکمران یہ سوچیں گے کہ کل ہمارے بچے بھی ہم سے اسی آزادی کے خواہاں ہوں گے ، یا عدالتوں کے منصفین اس سوچ میں پڑ جائیں گے کہ یہ سب بھی اس ہی معاشرے میں رہتے ہیں؟ مذہبی حلقوں کے اپنے تحفظات ہوں گے ؟ لیکن اگر یہ بھی بلند ہوکر نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا؟ بس یہ ایک سوال کہ کوئی بھی قتل ناحق کے حق میں ہے؟یہ سمجھنا کہ اس کا حل فرد کی آزادی کے قانون اور اس کے اطلاق و تحفظ کے علاوہ کچھ اور ہے،دھوکہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔