وجود

... loading ...

وجود

وطن عزیز میں بھارتی دہشت گردی

اتوار 20 جولائی 2025 وطن عزیز میں بھارتی دہشت گردی

ریاض احمدچودھری

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گرد گروپوں اور کالعدم تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کے بیانات اور بھارتی میڈیا خبروں میں دہشت گردوں کی سرپرستی کا ثبوت سامنے آگیا۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے سرغنہ لاجسٹک اور آپریشنل بریفنگز کے لیے بھارت کا باقاعدگی سے دورہ کرتے ہیں، صرف یہی نہیں بھارت میں ان دہشت گردوں کو علاج کی سہولتیں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔
بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے مستند شواہد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بارہا بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ پاکستان بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں شامل ہے۔بھارت گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران بلوچستان میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی خفیہ مہم چلا رہا ہے۔ پاکستان بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی کے سالہا سال سے ناقابل تردید ثبوت پیش کر رہا ہے۔
سیکیورٹی فورسز کے آواران میں خفیہ آپریشن کے دوران تین بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد مارے گئے اس دوران فائرنگ سے میجر سید رب نواز شہید ہوگئے۔ سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاعات پر 16 جولائی کو ضلع آواران میں دہشت گرد تنظیم “فتنہ الہندوستان” سے تعلق رکھنے والے بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا۔آپریشن کے دوران پاکستانی دستوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا۔ آپریشن کے نتیجے میں تین بھارتی اسپانسرڈ دہشت گرد واصلِ جہنم ہو گئے تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے میں میجر سید ربنواز طارق دشمن کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ شہید میجر اپنے دستے کی قیادت فرنٹ لائن سے کر رہے تھے۔ علاقے میں کلیئرنس اور سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے تاکہ کسی بھی چھپے دہشتگرد کو ختم کیا جا سکے،پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک سے بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پْرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی قربانیاں اس عزم کو مزید مضبوط بناتی ہیں۔وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے آواران میں فتنہ الہندوستان کے خلاف کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کے افسران و اہلکاروں کو شاباش دیتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے بلوچستان کے علاقے آواران میں فتنہ الہندوستان کے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں شہید ہونے والے میجر سید رب نواز طارق کی بہادری کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت کیا اور اہل خانہ سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے بھی پاکستان میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت پیش کئے تھے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی نشاندہی کی۔ بھارت پاکستان میں شہریوں اور فوج پر حملوں کے لیے دہشت گردوں کو بارود بھی فراہم کرتا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ اس وقت بھارت میں 21 سے زائد دہشتگردوں کے بیس کیمپس چلارہی ہے۔بھارت ان کیمپوں میں پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے دہشت گردوں کی تربیت کرتا ہے، ان دہشت گردوں کے کیمپس کا مرکز بھارتی ریاست راجستھان میں موجود ہے۔
سال 2009ء میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں دو طرفہ بات چیت کے دوران باضابطہ طور پر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا گیا۔ شرم الشیخ میں پاکستان نے اپنی سرزمین پر بھارتی انٹیلی جنس کارروائیوں پر پہلی مرتبہ خدشات اظہار کیا۔وکی لیکس 2010ء میں اس بات کا انکشاف سامنے آیا کہ ”امریکی سفارتی کیبلز کے مطابق بین الاقوامی مبصرین پاکستان میں بھارتی خفیہ سرگرمیوں بشمول بلوچستان میں بدامنی سے منسلک کارروائیوں سے آگاہ تھے۔” 2015ء میں پاکستان نے اپنی شکایات کو عالمی سطح پر لے جا کر اقوام متحدہ کو ایک تفصیلی ڈوزیئر پیش کیا، جس میں بلوچستان میں دہشت گردی کی سرپرستی میں بھارت کے کردار کا خاکہ پیش کیا گیا۔ اس ڈوزیئر میں انٹیلی جنس ثبوت شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کا اپنے دعوؤں کو درست ثابت کرنا تھا۔سال 2016 میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہوئی جو ”را” کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔ کلبھوشن یادیو نے بھارت کی جانب سے بلوچستان میں تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے کا اعتراف کیا تھا۔اسی طرح، 2019 میں پاکستان نے نئے ثبوت ایک بار پھر اقوام متحدہ کو ڈوزیئر صورت میں فراہم کیے۔ 2023ء میں بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث سرفراز بنگل زئی اور گلزار امام شمبے کے اعتراف نے پاکستانی مؤقف کی تائید کی، سرفراز بنگلہ زئی اور گلزار امام شمبے نے بھارتی کارندوں کی طرف سے تربیت اور ہدایت کاری کا اعتراف کیا۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے ناقابل تردید شواہد اور بھارتی حکومت کا انہیں تسلیم نہ کرنا خطے کو جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بار بار بھارتی دہشت گردی کے شواہد دیے جا رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے۔بھارتی ریاستی دہشتگردی کا شکار پاکستان تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت نے باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور اس مقصد کیلئے 1974ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی۔ جب پاکستان نے ان بھارتی سازشوں کا خود کو ایٹمی قوت بنا کر توڑ کیا تو بھارت نے کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں پر کنٹرول کرکے پاکستان پر آبی دہشت گردی شروع کر دی اور اسکے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے سازشی نیٹ ورک کا دائرہ پھیلاتے ہوئے پاکستان کے اندر اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے تخریب کاری’ خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
وطن عزیز میں بھارتی دہشت گردی وجود اتوار 20 جولائی 2025
وطن عزیز میں بھارتی دہشت گردی

عمران خان کی رہائی کی تحریک وجود اتوار 20 جولائی 2025
عمران خان کی رہائی کی تحریک

دنیا کی نظروں سے اوجھل فوجی آپریشن وجود هفته 19 جولائی 2025
دنیا کی نظروں سے اوجھل فوجی آپریشن

یوم الحاق پاکستان وجود هفته 19 جولائی 2025
یوم الحاق پاکستان

چینی نکتہ چینی وجود هفته 19 جولائی 2025
چینی نکتہ چینی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر