وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان میں بدامنی کی لہر

بدھ 16 جولائی 2025 بلوچستان میں بدامنی کی لہر

حمیداللہ بھٹی

پاکستان ثابت کرچکا ہے کہ کوئی دشمن طاقت اُسے شکست نہیں دے سکتی بلکہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ بھارت (جسے عددی برتری اور ، ہتھیاروں کے وسیع ذخائر پربہت ناز تھا) کا آرمی چیف بھی اعتراف کرنے اورکہنے پر مجبور ہے کہ پاکستان سے ہمیں خطرہ ہے ۔ یہ صورتحال پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ قابلیت ،صلاحیت اور مضبوطی کا وہ سبق ہے جوبھارت نے بالاکوٹ کی فضائی جھڑپ اور ردوماہ قبل مئی کی محدود لڑائی سے پڑھاہے۔ مضبوط اوربہادرا فواج کے ساتھ پاکستان ایک تسلیم شدہ عالمی جوہری طاقت بھی ہے۔ اسی لیے عالمی طاقتیں خطے میں ایسی جنگ کاخطرہ مول نہیں لینا چاہتیں، جس سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کاخطرہ ہو۔ مگر بھارت دہشت گردی کی سرپرستی کررہاہے جس سے مستقبل میں بھی خطے میں تنائو اور ٹکرائو کے امکانات موجودہیں۔ لہٰذاعالمی طاقتیں دہشت گردی کو ریاستی پالیسی بنانے سے روکیں تاکہ خطے کا امن بحال رہے۔ کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں بدامنی کی لہر کا سرپرست بھارت ہے جس کا بھارتی قیادت اعلانیہ اعتراف کرتی ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی بھارت کے راتب خوروں کا کاتمہ کرنے کی دوٹوک حکمت ِعملی تشکیل بنائے۔
باربار میدانِ جنگ میں آکر ٹکرانے اور دُرگت بنوانے کی بجائے بھارت اپنی پراکسیز کے ذریعے اب پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا چاہتاہے اِس کے لیے کبھی ناراض بلوچ عناصر کواُکسایا جاتاہے کہ وہ احساسِ محرومی کوجواز بناکرریاستی اِداروں پر حملے کریں کبھی ٹی ٹی پی سے اسلام نافذ کرانے کے لیے حملے کرائے جاتے ہیں ۔یہاں دو سوال بہت اہم ہیں کہ وہ چند بلوچ عناصر جو احساسِ محرومی کے نام پر بلوچستان میں ریاستی اِداروں اور معصوم مزدوروں کونشانہ بناتے ہیں کیا بھارتی مالی مدد اور ہتھیاروتربیت سے احساسِ محرومی ختم ہو سکتاہے؟ کیاٹی ٹی پی بھارت سے مدد لیکر پاکستان میں اسلام نافذ کرسکتی ہے ؟ایسا ممکن ہی نہیں پھر بھی بھارت پرتکیہ تعجب ہے ۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کو مسلمان سے لڑاکر بھارت ایسے اسلامی ملک کو زیرکرنا چاہتا ہے جس سے وہ اب میدانِ جنگ میں لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا۔بلوچستان کی ترقی پاکستانی وسائل سے ہی ممکن ہے بھارت میں تو کسی مسلمان کی جان و مال محفوظ نہیں ۔اگر بھارتی قیادت کو اسلام سے پیار ہوتا تو اپنے ملک میں دینِ اسلام پر ہرگز عرصہ حیات تنگ کرتی؟ جب ناراض بلوچ عناصر اور ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیم کو معلوم ہے کہ بھارت کو اُن سے کوئی لگائو نہیں بلکہ پاکستان دشمنی میں اُن کی سرپرستی پر مجبور ہے تو وہ کیوںکرائے کے قاتل کا کرداراداکررہے ہیں ؟بھارت کے راتب خور کبھی حالات کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیں تو اصلیت سمجھ آسکتی ہے۔ لہٰذابہترہے کہ دشمن کا کھلونا بننے کی بجائے پاکستان کی تعمیر،مضبوطی اور خوشحالی میں کردار اداکریں۔
بھارتی قیادت کو اسلام دشمنی ورثے میں ملی ہے۔ بی جے پی جیسی جنونی اور قاتلوں کی سرپرست جماعت نے اسلام دشمنی میں سیکولر پیراہن بھی تار تار کردیا ہے اور بھارت سے اسلام کے خاتمے اور مسلمانوں کو دوبارہ ہندوبنانے کی خواہشمندہے ۔یہ جماعت اکھنڈ بھارت کے نام پر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک بشمولہ پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان پربھی قبضہ کرناچاہتی ہے۔ اِس حوالے سے ماضی میں اُسے ایرانی سہولت کاری حاصل رہی، جہاں دہشت گردی کی سرپرست راء جیسی تنظیم کو آزادانہ نقل و حمل کی اجازت تھی جس نے حاصل سہولت کاناجائز فائدہ اُٹھایا اور ایران کے اندر سے نتیجہ خیز حملے کرنے حملہ آوروں کی مدد کی۔ اُس نے ایران و اسرائیل کی جنگ کے دوران اپنے کردار و عمل سے ثابت کیا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن اور شرپسندطاغوتی طاقتوں کا خیرخواہ ہے ۔اِس دوران بھارت نے ایسے بلوچ و افغان عناصر سے بھی کام لیا جن کی مالی مدد کرتے ہوئے طویل عرصہ سے ذہن سازی کررہا ہے۔ حقائق کاعلم ہونے پر ایران اب نہ صرف بھارت کی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی راء سے خفا ہے بلکہ ناراض بلوچ عناصر اور اسلام کی خیرخواہ ہونے کی دعویدارٹی ٹی پی سے بھی ناراض ہے اس لیے دی گئی سہولت کاری پر نظرثانی کا طریقہ کار بنا رہا ہے جس سے امکان ہے کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات میں کمی آئے گی۔ ایسے حالات نے بھارت کومجبور کردیا ہے کہ وہ اپنی پراکسیز سے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں اضافہ کرائے لیکن کیا ایسا ممکن اورجواب میں پاکستانی اِدارے خاموش رہیں گے ؟ جواب نفی میں ہے کیونکہ جو پاکستان خود سے دس گُنا بڑی فوجی قوت کو میدانِ جنگ میں شکست دے سکتا ہے، وہ بھارتی پراکسیز کاخاتمہ کرنے پربھی قادر ہے۔ شایدناراض بلوچ عناصر اور ٹی ٹی پی سے اِس لیے نرمی کی جارہی ہے تاکہ بھارتی اصلیت وذہنیت بے نقاب ہوسکے یا شاید پاکستانی شہری ہونے کی وجہ ہے مگرجوبھی ہے وقت آگیا ہے کہ پاکستانی اِدارے جو سلوک بھارتی حملے پر اُس کی فوج سے کرتے ہیں وہی بھارتی پراکیسز سے کرتے ہوئے ایسا کاری وار کریں کہ آئندہ کسی شرپسند کو پاک وطن کے خلاف کسی سازش میں آلہ کار بننے کی جرأت نہ ہو یہ جو احساسِ محرومی اور اسلام کے نام پر شرپسندی ہورہی ہے ۔یہ ناقابلِ معافی ہے مذموم عناصر سے مزید نرمی یا رحمدلی کی گنجائش نہیں بلکہ ایسے عناصر سے دشمن جیسا سلوک کرنا ہی عین انصاف ہے۔
دہشت گردی میں اضافہ خطرے کی گھنٹی ہے جس سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار بناکر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔کے پی کے میں سیکورٹی اِداروں نے ہندوستانی فتنے کے خلاف کئی ایک نتیجہ خیز کارروائیاں کیںجس سے کچھ حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن بلوچستان میں رواں برس جنوری سے لیکر جون کے درمیان دہشت گردی کے واقعات میں سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیاہے ۔سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ بلوچستان میں آبادکاروں کو نشانہ بناناعیاںبغاوت ہے۔ وسائل سے مالا مال صوبے میں جاری ترقی کا عمل دہشت گردی ،بدامنی اور خوف وہراس سے سبوتاژہو سکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بین الاضلاعی شاہراہوں پر ناکہ بندی کرنے اور انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کو جلدازجلد د بوچا جائے کیونکہ ایسے حالات سے تجارتی سرگرمیوں پر منفی اثرات خارج ازامکان نہیں۔
احساس ِ محرومی کا چورن بیچنے والے ملک کے خیرخواہ نہیں بلکہ بھارتی ایجنڈے پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں اِس طرح عوامی ہمدردی حاصل کرناچاہتی ہیں۔ اگر یہ بلوچستان سے مخلص ہوتیں تو کیایہ نہیں جانتیں کہ سی پیک کے تحت صوبے میں کئی اہم شاہراہیں،پُل ،انفراسٹرکچر اور صنعتی منصوبے مکمل جبکہ درجنوں تکمیل کے مراحل میں ہیں جو بلوچستان کی تزویراتی اور تجارتی اہمیت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ جاری معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں روزگارکے مواقع بڑھنے کے ساتھ بلوچوں میں مالی خوشحالی آئے گی اور علم وہُنر کو فروغ ملے گا۔مزیدیہ کہ ماضی کی طرح ترقی کے ثمرات چند بلوچ سرداروں تک محدود رہنے کے بجائے عام بلوچ کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا ،جس سے احساسِ محرومی اور پس ماندگی دورہوگی مگر بدامنی اِس جاری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ بھارتی ایما پر پنجابیوں کی جانیں لینے والے اِس پہلو سے بھی سوچیں کہ وہ عام اور معصوم پنجابیوں کی جانیں لیکر بلوچستان کی کون سی خدمت کررہے ہیں؟نیز اِس طرح بلوچوں میں کیا خوشحالی آئے گی؟ احساسِ محرومی کو جواز بناکر دہشت گردی کرنے والے کرائے کے قاتل ہیں جوکام بھارتی فوج کرنے سے قاصررہی، وہی کام یہ عناصرکرنے کی کوشش میں ہیں ۔اسی لیے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں بدامنی کی لہر بھارت کی پیداکردہ ہے اِس لیے سیکورٹی اِدارے کسی قسم کی نرمی یا رحمدلی کے بجائے پوری طاقت سے بھارتی فتنے کاخاتمہ کرنے پر توجہ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت کا جنگی جنون، میانمار پر ڈرون حملہ وجود بدھ 16 جولائی 2025
بھارت کا جنگی جنون، میانمار پر ڈرون حملہ

بلوچستان میں بدامنی کی لہر وجود بدھ 16 جولائی 2025
بلوچستان میں بدامنی کی لہر

دوستو سے ریا کی بات نہ کر وجود بدھ 16 جولائی 2025
دوستو سے ریا کی بات نہ کر

ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیشنگوئی کرنا ناممکن ہے! وجود منگل 15 جولائی 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیشنگوئی کرنا ناممکن ہے!

بھارت کا میک ان انڈیا ، محض نعرہ وجود منگل 15 جولائی 2025
بھارت کا میک ان انڈیا ، محض نعرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر