وجود

... loading ...

وجود

ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیشنگوئی کرنا ناممکن ہے!

منگل 15 جولائی 2025 ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیشنگوئی کرنا ناممکن ہے!

جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں جتنے صدور گزرے ہیں ان کا موازنہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کرنا ممکن نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جن منصوبوں کا اعلان کیا اس نے امریکہ کے اندر اور عالمی سطح پر بے چینی پیدا کر دی جس میں امیگریشن کا ایشو نمبر ون ہے جبکہ ٹیرف سے امریکہ کے اندر اور دنیا بھر میں مہنگائی کی راہ ہموارہو گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت پر امریکی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں آئے دن بحث ہوتی رہتی ہے۔ ان کے منصوبوں کا بار بار بدلنا اور انتہائی اقدامات کرنا اداروں کے لیے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
جب گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران پر حملوں میں اسرائیل کا ساتھ دینے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں شاید ایسا کروں میں شاید ایسا نہ کروں، کوئی بھی نہیں جانتا میں کیا کرنے والا ہوں۔ انہوں نے دنیا کو یہ یقین دلایا کہ لڑائی میں دو ہفتوں کے وقفے پر اتفاق ہوا ہے تاکہ ایران مذاکرات جاری رکھ سکے لیکن پھر انہوں نے بمباری کر دی۔
ایک رجحان سامنے آیا ہے ٹرمپ کے بارے میں سب سے قابل پیش گوئی چیز ان کا غیر متوقع ہونا ہے ۔ وہ اپنا ذہن بدلتے اور اپنی ہی بات سے متضاد بات کر دیتے ہیں ۔ان کے رویے میں تسلسل نہیں۔ لندن اسکول اف اکنامکس میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر پیٹرٹرو ٹروونس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا پالیسی ساز آپریشن مرکزیت پسند ہے، شاید سب سے زیادہ مرکزیت پسند۔ جہاں تک بات خارجہ پالیسی کی ہے ایسا رچرڈ نکسن کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔ ٹرمپ نے اس کا سیاسی استعمال کیا ہے۔ انہوں نے غیر متوقع رویے کو اہم اسٹریٹیجک اور سیاسی اثاثہ بنا لیا ہے۔ ان کی ناقابل پیش گوئی ایک ڈاکٹرین میں بدل چکی ہے ان کا لایا گیا یہ مزاج وائٹ ہاؤس کی خارجہ اور سلامتی پالیسی چلا رہا ہے اور یہ دنیا کو بدل رہا ہے ۔سیاست کے ماہر اسے میڈ مین تھیوری کہتے ہیں۔ یہ ایسا فلسفہ ہے جس میں ایک عالمی رہنما اپنے حریف کو یہ کہہ کر رضامند کر لیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر اسے کامیابی سے اپنایا جائے تو اس سے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور ٹرمپ کا خیال ہے کہ اس سے فائدہ ہو رہا ہے یعنی وہ امریکی اتحادیوں سے ضرورت کے تحت مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ مگر کیا یہ حکمت عملی ہمارے دشمنوں کے خلاف بھی کام کرتی ہے ۔کیا یہ صرف حریفوں کے لیے ایک چکمہ ہے؟ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ اس کا تعلق ذاتی رویے سے ہوتا ہے اور کیا یہ رویہ بھی قابل بیان پیش گوئی نہیں بن جائے گا؟
ٹرمپ نے دوسرے دور صدارت کا آغاز روسی صدرولادمیر پیوٹن کی تعریف اور امریکی اتحادیوں پر تنقید سے کیا۔ انہوں نے کہا کینیڈا کو امریکہ کی 51ریاست بن جانا چاہیے ۔ وہ کہتے رہے کہ وہ گرین لینڈ کو امریکہ میں ضم کرنے کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں ۔یہ امریکہ کے اتحادی ڈنمارک کا خود مختار علاقہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پانامہ کینال کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لے گا۔ نیٹو چارٹر کے آرٹیکل پانچ کے مطابق ہر رکن دوسروں کے دفاع کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کے عزم پر شک و شبہات کو جنم دیا ۔سابق برطانوی وزیر دفاع بین والس کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے آرٹیکل پانچ لائف سپورٹ پر ہے۔ لیک ہونے والے پیغامات میں دیکھا گیا کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں یورپی اتحادیوں کے لیے نفرت پائی جاتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹ نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ یورپی مفت خور ہیں۔ میں ان کے لیے آپ کی نفرت سمجھ سکتا ہوں۔ رواں سال میونخ میں ٹرمپ کے نائب جے ڈی وینس نے کہا کہ امریکہ یورپی سلامتی کا ضامن نہیں رہے گا ۔یہ ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے 80برسوں کا نیا باب تھا۔ پروفیسر رویوٹر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ کے عالمی وعدوں کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات اور شکوک اٹھائے ہیں۔ یورپی ملکوں کے امریکہ کے ساتھ جو بھی سمجھوتے تھے سلامتی معیشت یا دیگر معیشتوں پر اب وہ مذاکرات کی میز پر ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی حلقے میں اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا غیر متوقع ہونا اچھی چیز ہے۔ کیونکہ اس سے ٹرمپ امریکہ کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی حکمت عملی کارآمد ثابت ہوئی ہے ۔چار ماہ قبل برطانوی وزیراعظم کیئر سٹینڈر نے پارلیمان کو بتایا کہ دفاع اور سلامتی کا بجٹ بڑھایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ نیٹو اجلاس کے دوران اس میں مزید اضافہ ہوا اور نیٹو اتحاد میں ہر ملک یہی راستہ اختیار کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے دعوی کیا امریکہ کے بنکر بسٹر بمبوں نے ایران کی زیر زمین فردو جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ نقصان شدید تھا ۔جی ہاں یہ واقعی بہت شدید تھا ۔اس نے ایرانی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیگ میں نیٹو اجلاس کے موقع پر اس جنگ بندی کے بارے میں کہا کہ یہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور اب حالات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم شاید کوئی معاہدہ کر سکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ساتھ ہی انہوں نے کہا میں اسے اس طرح دیکھتا ہوں کہ اسرائیل اور ایران کی جنگ اب ختم ہو چکی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ آنے والے دنوں میں ایران اور امریکہ کے حکام کے درمیان بات چیت ہو سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حالیہ امریکی حملوں کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیے گئے حملوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا اگر آپ ہیروشیما کو دیکھیں اگر اپ ناگا ساکی کو دیکھیں تو آپ جانتے ہیں کہ ان حملوں نے بھی ایک جنگ ختم کی تھی ۔یہ جنگ ایک مختلف انداز میں ختم ہوئی لیکن لڑائی انتہائی شدید تھی ۔یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ملک کے قانون سازوں نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ پیشنگوئی کرنا کہ ان کا اگلا فیصلہ کیا ہوگا ناممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیشنگوئی کرنا ناممکن ہے! وجود منگل 15 جولائی 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیشنگوئی کرنا ناممکن ہے!

بھارت کا میک ان انڈیا ، محض نعرہ وجود منگل 15 جولائی 2025
بھارت کا میک ان انڈیا ، محض نعرہ

یوم شہدائے کشمیر وجود پیر 14 جولائی 2025
یوم شہدائے کشمیر

اسرائیل بڑی طاقتوں کی بے ساکھیوں پر! وجود پیر 14 جولائی 2025
اسرائیل بڑی طاقتوں کی بے ساکھیوں پر!

کیا ہندوستانی شہریت ایک سراب ہے ؟ وجود پیر 14 جولائی 2025
کیا ہندوستانی شہریت ایک سراب ہے ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر