... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔
امریکہ سے
اسرائیل غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں فلسطینیوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح ماررہا ہے جبکہ عالمی برادری تماشائی بنی ہوئی ہے اور المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے کہیں سے اُف تک کی آواز نہیں آرہی۔ فلسطینی وزارت تعلیم نے رپورٹ دی ہے کہ سات اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے اب تک 14784 طلبہ شہید اور 24766 زخمی ہو چکے ہیں۔ قابض فوج نے 20اعلیٰ تعلیمی اداروں کو شدید نقصان پہنچا یا ۔یونیورسٹی کی 60عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ اسکولوں اور آٹھ یونیورسٹیوں پر دھاوا بول دیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی ۔ اسکولوں کی دیواریں تباہ ہو گئیں ۔وزارت تعلیم نے تصدیق کی کہ جارحیت کے آغاز سے غزہ کی پٹی میں 788.000طلبہ کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں ۔امریکی اسرائیلیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں یا پھر یہ کہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے امریکہ کی حمایت ٹھوس اور غیر متزلزل ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل سب سے زیادہ امریکی وسائل حاصل کرنے والا ملک ہے۔ رواں سال مارچ میں شائع ہونے والی امریکی کانگرس کی ایک رپورٹ کے مطابق 1946سے 2023تک امریکہ نے اسرائیل کو 200 ارب ڈالر کی امداد دی، جس میں سے نصف عسکری امداد تھی۔ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت صرف دو طرفہ امور تک محدود نہیں رہی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر امریکہ نے بار بار اسرائیل کے حق میں اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کیا اور فلسطینی علاقے کے کچھ حصوں اور اس قبضے کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں سے بچایا جسے اقوام متحدہ غیر قانونی قرار دیتی ہے ۔سان فرانسسکو یونیورسٹی کے سینٹر آف مڈل ایسٹ سینٹر کے بانی پروفیسر اسٹیشن زونز کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تاریخ میں امریکہ نے 80 سے زیادہ بارویٹو کا استعمال کیا جن میں سے نصف اسرائیل کو بچانے کے لیے تھے ۔متعدد بار امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔
کئی دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے امریکی پوزیشن پر نظر رکھنے والے پروفیسر زونز کا کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار سے زیادہ تر ممالک اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کو نشانہ بنانے پر بھی تنقید کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عام شہریوں کو بمباری سے ہلاک کرنا غلط ہے لیکن دوسری جانب امریکہ اسرائیل کا نام نہیں لیتا، صرف فلسطینیوں پر تنقید کرتا ہے۔ حماس کے حملوں کے اپنے بیانات میں بائیڈن نے اسرائیل کی جوابی کارروائی میں ان ممکنہ زیادتیوں پر براہ راست تنقید کرنے سے گریز کیا جن کی نشاندہی اقوام متحدہ اوریورپی یونین نے کی اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو پانی بجلی ایندھن اور خوراک کی فراہمی منقطع کر دی ہے یہ انتہائی گنجان آباد علاقہ شدید بمباری کی زد میں ہے۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں ایک اسرائیلی ملک کے قیام کے مطالبے کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہوئی جو یہودیوں کا 50سالہ پرانا مطالبہ تھا۔ تا ہم یہ ملک ایک ایسے خطے میں قائم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ جہاں فلسطینی عرب صدیوں سے آباد تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکہ اور سوویت یونین دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے طور پر اُبھرے تھے جو عالمی اثر رسوخ کے لیے کوشاں تھے ۔اس وقت جنگ کی تباہ حالی کے باعث یورپی طاقتیں کمزور پڑ چکی تھی۔ ایسے میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو دنیا میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی والے ملک کے طور پر امریکہ نے فورااسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اس وقت سوویت یونین نے بھی اسرائیل کی حمایت کی تھی۔ تقریبا ًدو دہائیوں تک امریکہ اور سوویت یونین کی جانب سے اسرائیل کی حمایت ایک پیمانے پر ہی ہوتی رہی حتی کہ جب اسرائیل نے 1956 میں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ سوئیز بحران کے دوران مصر پر حملہ کیا اور امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے ہی اس حملے کی مذمت کی جبکہ ایک دہائی بعد امریکی پوزیشن میں سرد جنگ کے عروج کے دوران تبدیلی واقع ہوئی جب یہ واضح ہوا کہ خطے میں سوویت یونین کے مفادات کو شکست دینے میں اسرائیل فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب اسرائیل نے چھ روزہ جنگ میں سوویت یونین کی حمایت یافتہ عرب اتحاد جس میں مصر اردن اور شام شامل تھے کوشکست دی تو اس کے بعد سے اسرائیل کے لیے امریکہ سفارتی اور معاشی امداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔آنے والی دہائیوں میں اسرائیلی اور امریکی یہودی برادریوں میں تعاون بھی کافی اہم رہا۔ زونز کے مطابق جب حمایت کی بات آتی ہے تو ہمدردی کا عنصر بھی یقینی طور پر کام کرتا ہے۔
جب نتن یاہو حماس کے حملے کا موازنہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے کرتے ہیں تو اسرائیلی وزیر اعظم امریکیوں میں ان طاقتور جذبات کو متحرک کرتے ہیں جو کہ حملوں کے بعد پیدا ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں معاملات میں کارروائیوں کے مرتکب اسلامی بنیاد پرست گروہ تھے۔ یوں امریکی معاشرے کے لیے اسرائیلیوں کی پریشانیوں کو پہچاننا آسان ہو جاتا ہے۔ نائن 11 حملوں کے جواب میں امریکہ نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی جسے افغانستان اور عراق پر حملوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا ۔دونوں ممالک میں مقامی حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا گیا تاہم اس کے بعد وہاں نئی حکومتوں کے قیام اور علاقے میں استحکام کو یقینی بنانے میں امریکہ کو بہت زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حکمت عملی کو بہت سے امریکیوں کی طرف سے خامی سمجھا جانے لگا ۔ایسے لوگ ہیں جو جب اسرائیل کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہیں اور غزہ میں ممکنہ زمینی درندازی کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ اسے امریکی قیادت میں 20سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک چھوٹے پیمانے پراعادہ سمجھتے ہیں ۔40سال قبل امریکی سیکریٹری خارجہ ایلیگزنٹر ہیگ نے کہا تھا کہ اسرائیل امریکہ کا سب سے بڑا جنگی طیارہ بردار جہاز ہے جو ڈوب نہیں سکتا جس پر کوئی امریکی فوجی سوار نہیں اور یہ ایک ایسے خطے میں موجود ہے جو امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات پر نظررکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ بیان آج کے ادوار سے بھی اہم ہے اور اسرائیل کے لیے غیر مشروط امریکی حمایت کی وضاحت کرتا ہے۔ مشرق وسطی توانائی کی وجہ سے ایرانی اثر وسوخ کی وجہ سے اور سوویت یونین کی وجہ سے امریکہ کے لیے بہت اہم ہے اور اسی لیے اسرائیل کی حفاظت کو یقینی بنانا ہر امریکی انتظامیہ کی ترجیح رہا ہے۔ سرد جنگ تو ختم ہو چکی لیکن امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات نہیں بدلے اس کی ایک وجہ خطے میں درپیش اہم مسائل ہیں۔ ایران اپنے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے خطے میں امریکہ کے لیے بڑا درد سرد رہا ہے اور وہ حماس کا حامی بھی ہے۔
اگرچہ اسرائیل اور امریکہ نے حالیہ حملوں میں ایرانی کردار کے بارے میں اشاروں میں بات کی ہے لیکن اب تک امریکی خفیہ ادارے کوئی ٹھوس شواہد تلاش نہیں کر پائے ۔حال ہی میں ایران نے روس اور چین سے تعلقات مضبوط کیے ہیں اور امریکہ کے لیے اسرائیل کی اہمیت مزید بڑھ چکی ہے ۔2014میں اس وقت کے نائب صدر بائیڈن نے اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ایک تقریب کے دوران ایک تقریر میں کہا تھا کہ یہ بنیادی طور پر خود امریکہ کے مفاد میں ہے کہ اسرائیل جیسا اسٹریٹیجک پارٹنر محفوظ جمہوری اور دوستانہ ہو یہ احسان نہیں ہے یہ ایک فرض ہے بلکہ ایک اسٹریٹیجک ضرورت بھی۔ بائیڈن نے اس وقت کہا تھا کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہمیں ایک ایسا ملک قائم کرنا پڑتا ۔امریکہ میں یہ تاثر اب تک قائم ہے کہ اسرائیلی ایک ایسی قوم ہیں جنہوں نے صدیوں کی جلاوطنی کے بعد اپنی ریاست بنائی جو ایک جمہوری ملک ہے اور ارد گرد کی رجعت پسند عرب حکومتوں سے کافی مختلف ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل بڑی طاقتوں کی بے ساکھیوں پہ کھڑا ہے جس دن یہ بے ساکھیاں ہٹیں اسرائیل اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔