وجود

... loading ...

وجود

کیا ہندوستانی شہریت ایک سراب ہے ؟

پیر 14 جولائی 2025 کیا ہندوستانی شہریت ایک سراب ہے ؟

معصوم مرادآبادی
ہندوستانی باشندوں کی شہریت پر جتنے سوال کھڑے کئے جاتے ہیں، اتنے شایدہی کسی اور ملک کے شہریوں پر کھڑے کئے جاتے ہوں۔ لوگوں کو آئے دن اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے فضول سوالوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ایسا کرتے وقت ان ضروری دستاویزات کو بھی طاق پر رکھ دیا جاتا ہے جو عام طورپرشہریت ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدھار کارڈاور ووٹر آئی ڈی کو بھی شہریت کا ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے ۔ ان ہی حالات کا سامنا آج کل بہار کے باشندوں کو کرنا پڑرہا ہے جن کے سامنے الیکشن کمیشن نے ووٹ دینے سے پہلے کئی ٹیڑھے میڑھے سوال کھڑے کردئیے ہیں۔ یہاں سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ آخر شہریت کا ثبوت طلب کرنے کا کام کس کا ہے ۔ کیا الیکشن کمیشن اس کا مجازہے کہ وہ کسی کی شہریت پر سوال کھڑا کرے اور اسے تمام دستاویزی ثبوتوں کی موجودگی کے باوجود حق رائے دہی سے محروم کردے ۔
بہار میں ووٹر لسٹوں کی گہری جانچ کا مسئلہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل کھڑا کیا گیا ہے ۔ اس جانچ کے دائرے میں بہار کے آٹھ کروڑ ووٹروں میں سے آدھے یعنی چار کروڑ ووٹر آئیں گے اور اندیشہ ہے کہ اس مہم کی وجہ سے بے شمار ووٹر حق رائے دہی سے محروم ہوجائیں گے ۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ سب کچھ اسمبلی انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے اور الیکشن کمیشن پوری طرح حکمراں جماعت کا آلہ کار بن گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ تک پہنچا اور اس پر وہاں تفصیلی بحث ہوئی۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اپنا کام جاری رکھنے کے لیے کہا ہے ، لیکن اس کے ساتھ کئی تیکھے سوال بھی پوچھے ہیں۔ ایک فاضل جج نے سماعت کے دوران یہاں تک کہا کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے الیکشن کمیشن جو ثبوت طلب کررہا ہے ، وہ میرے پاس بھی نہیں ہیں۔عدالت نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ ووٹروں کی تصدیق کی اس مہم میں آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو ثبوت کے طورپر تسلیم کرنے پر غورکیا جائے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹروں سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے اتنے ثبوت طلب کئے ہیں کہ شاید ہی کوئی انھیں پیش کرپائے ۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور بہار میں احتجاج جاری ہے ۔
سپریم کورٹ میں سینئر وکیلوں نے صورتحال کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق جو رائے دہندگان مخصوص دستاویزات کے ساتھ فارم جمع کرنے میں ناکام رہتے ہیں انھیں انتخابی فہرست سے حذف کردیا جائے گا، چاہے وہ گزشتہ بیس برسوں سے انتخابات میں ووٹ دے رہے ہوں۔ وکلاء نے یہ بھی بتایا کہ الیکشن کمیشن کس طرح ‘آدھار کارڈ’اور ‘ووٹر آئی ڈی’ کو قبول نہیں کررہا ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف سب سے پہلی عرضی ایسوسی ایشن فارڈیموکریٹک ریفارم نے دائر کی تھی۔ اس کے بعد جنتا دل یو کے منوج کمار جھا، سماجی کارکن یوگیندریادو، پی یو سی ایل اور ترنمول کانگریس کی ممبرپارلیمنٹ مہوا موئترا نے اسے چیلنج کیا۔یہ معاملہ اب بہار کے آنے والے اسمبلی انتخابات کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔ بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی طرف سے شروع کی گئی خصوصی نظر ثانی مشق ریاست کے دیہاتوں اور قصبوں میں افراتفری کا باعث بن رہی ہے اور اس سے ان کروڑوں رائے دہندگان میں بے چینی ہے ، جنھیں اپنے ووٹ کے حق کے چوری ہونے کا اندیشہہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ رائے دہی کا حق ہندوستان کے ہرشہری کا بنیادی حق ہے او ر اس حق کا استعمال کرکے ہی عوام جمہوری نظام میں اپنی شمولیت درج کراتے رہے ہیں، لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے وہ عوام کو ہرروز نت نئے مسائل میں الجھا رہی ہے تاکہ وہ حکومت سے کوئی سوال نہ کرسکیں اور اپنی شہریت ثابت کرنے میں ہی اپنی توانائی گنوادیں۔ آئے دن ملک کے عوام کے سرپہ شہریت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے اور انھیں غیرقانونی باشندے قراردینے کی مہم چلتی رہتی ہے ۔گویا شہریت ایک سراب ہے جس کے پیچھے دوڑنا ہر ہندوستانی شہری کا مقدر ہے ۔ملک کی کئی ریاستوں میں مسلسل یہ تکلیف دہ عمل جاری رہتا ہے۔ ان ریاستوں میں شمال مشرق کی کئی ریاستیں شامل ہیں۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی سرکار الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے بہار کے عوام کو حق رائے دہی سے محروم کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن سے عین پہلے ووٹر وں کی شناخت کے لیے مہم چلاکر ووٹروں کو ہراساں کیا جارہا ہے ۔کانگریس کا کہنا ہے کہ جو کام وقت پر ہونا چاہئے تھا وہ انتخابات سے ٹھیک پہلے شروع کیا جارہا ہے تاکہ رائے دہندگان شرائط کے مطابق وقت پر دستاویزات جمع نہ کراسکیں اور انھیں رائے دہی کے حق سے محروم کردیا جائے ۔ کانگریس نے بہار کے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر آپ کا ووٹ کا حق چھیننا چاہتی ہے ۔صرف یہی نہیں آپ کی شہریت بھی خطرے میں ہے ۔ ایک بوتھ لیول افسر نے صاف کہا ہے کہ اگر آپ کاغذات نہیں دکھا پاتے ہیں تو نہ صرف آپ کا ووٹ دینے کا حق ختم ہوجائے گا بلکہ آپ کی شہریت بھی منسوخ کردی جائے گی”۔
سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کابنیادی کام ملک میں صاف وشفاف اور ایماندارانہ الیکشن کرانا ہے تاکہ جمہوریت کا کارواں آگے بڑھتا رہے ۔ ماضی میں الیکشن کمیشن نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے ۔ ملک میں کئی ایسے الیکشن کمشنر گزرے ہیں جنھوں نے ایمانداری اور شفافیت کی مثالیں قائم کی ہیں۔ ایسے ہی الیکشن کمشنروں میں ایک نام ٹی این سیشن کا بھی ہے جن کا نام سن کر بے ایمان سیاست داں پناہ مانگتے تھے ۔ اس ملک میں طویل عرصے تک الیکشن کمیشن کی دھاک قائم رہی ہے ۔ لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے ، اس نے سب سے پہلا کام ان اداروں کی جڑیں کھودنے کا کیا ہے جن پر اس ملک کی جمہوریت کی عمارت کھڑی ہوئی ہے ۔اس عمل کا سب سے منفی اثر الیکشن کمیشن پر پڑا ہے جو اپنی خودمختاری کھوکر پوری طرح حاکمان وقت کاآلہ کار بن گیا ہے ۔ یوں تو ہر انتخاب کے موقع پر الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری اور شفافیت پر سوال کھڑے کئے جاتے ہیں، لیکن پچھلے کچھ عرصے سے یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپوزیشن سے پوری طرح منہ موڑ لیا ہے اور وہ اس کی کسی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے ۔کئی ضمنی انتخابات ایسے ہوئے ہیں جہاں اپوزیشن کے رائے دہندگان کو ووٹ ہی نہیں ڈالنے دئیے گئے اور جب اس دھاندلی کی شکایت الیکشن کمیشن سے کی گئی تو اس نے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کہ مہاراشٹر اسمبلی کے الیکشن میں اپوزیشن نے کھلی دھاندلی کا الزام لگایا اور الیکشن کمیشن کی جانبداریوں کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا۔ خود اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے مہاراشٹر میں الیکشن کمیشن کی طرف سے کی گئی ووٹوں کی مبینہ چوری کا معاملہ زور وشور سے اٹھایا۔الیکشن کمیشن سے سوال پوچھے گئے مگر کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ الیکشن کمیشن جو ملک کا سب سے معتبر اور غیر جانبدار جمہوری ادارہ تھا اب پوری طرح حاکمان وقت کا فدوی بن گیا ہے ۔الیکشن کمیشن کی دلچسپی محض اس بات میں ہے کہ جہاں بھی انتخابات ہوں وہ وہاں رولنگ پارٹی کی کامیابی کے امکانات کو روشن کرے اور اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو درکنار کردے ۔ اتنا ہی نہیں الیکشن کمیشن کو جہاں یہ نظر آرہاہو کہ وہاں اپوزیشن کے جیتنے کے امکانات ہیں وہاں دوسرے طریقوں سے ووٹروں کو درکنار کرنے کے راستے اختیار کرے ۔ بہار میں جہاں اسمبلی انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کی کامیابی کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں وہاں ووٹر لسٹوں پر خصوصی نظر ثانی مہم شایداسی مقصد سے شروع کی گئی ہے ، جس کے خلاف اپوزیشن سراپا احتجاج ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
یوم شہدائے کشمیر وجود پیر 14 جولائی 2025
یوم شہدائے کشمیر

اسرائیل بڑی طاقتوں کی بے ساکھیوں پر! وجود پیر 14 جولائی 2025
اسرائیل بڑی طاقتوں کی بے ساکھیوں پر!

کیا ہندوستانی شہریت ایک سراب ہے ؟ وجود پیر 14 جولائی 2025
کیا ہندوستانی شہریت ایک سراب ہے ؟

بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت وجود اتوار 13 جولائی 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت

نام نہاد سیکولر بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ ! وجود اتوار 13 جولائی 2025
نام نہاد سیکولر بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر