... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد کمزور طبقات کے خلاف تشدد اور قتل و غارت کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے ۔ بھارت اب کہنے کو تو ایک سیکولر جمہوری ملک ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے ہندو راشٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔ مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کی طرف سے بلا اشتعال حملے انڈیا میں معمول بن گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مذمت نہیں کی جاتی۔
بھارت میں انتہا پسندگروہوں کے بڑھنے کی وجہ واضح ہے کہ انہیں مودی حکومت کی طرف سے معافی اور حمایت حاصل ہے ۔ ہندو انتہا پسند دہشت گرد مسلمانوں کو بھارت ماتا کی جے ، جے شری رام، جے رام اور پاکستان مخالف نعرے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ جے رام جو ہندوؤں میں خیر سگالی کے الفاظ سمجھے جاتے تھے، انھیں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی کے 2014میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ بننے کے بعد اقتدار میں آنے سے ان گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ہی انڈیا میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے ، گئو رکشا اور لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو قتل کر دینا ہندو توا کے لئے معمولی عمل ہے ۔
بھارت میں مسلمانوں پر مختلف حیلے بہانوں سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جس میں اہم ترین ‘گئو رکشا’ کے نام پر مسلمانوں پر بدترین ظلم ہے ۔ بھارتی مسلمانوں کا ڈر اور خوف اس وقت مزید بڑھ گیا جب مقامی گئورکشکوں نے بندوق لائسنس کیلئے درخواستیں دیں۔گئو رکشکوں کے کئی واٹس ایپ گروپس پر بڑی تعداد میں بندوق کے لائسنس کیلئے درخواست داخل کرنے کی اپیل پوسٹ کی جا گئی۔رواں سال عید الاضحی کے موقع پر بھی مسلمانوں کو قربانی کرنے اور جانور ذبح کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
عیدالاضحی کے موقع پر گائے ذبح کرنے کے حوالے سے سب سے زیادہ وہ ریاستیں متاثر ہیں جہاں پر بے جے پی کی حکومت ہے ۔ بھارت میں گائے کے مسئلے پر مسلمانوں پر تشدد اور انہیں شہید کرنے کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے ۔ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے انڈیا میں 2002ء سے نسل کشی کے حوالے سے اپنے دیے ہوئے انتباہ کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ جب گجرات میں قتل عام ہوا تھا اور ہزاروں مسلمان جاں بحق ہوئے تھے ، اس وقت نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے ،لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا درحقیقت کئی ثبوت ہیں کہ مودی نے قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی ، اب بحیثیت وزیر ِ اعظم مودی اپنی سیاست کو وسیع کرنے کیلئے پاکستان مخالف بیانیہ کو استعمال کر رہا ہے ۔
ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی سے خبردار کردیا۔نسل کشی کے خطرات سے آگاہ کرنے والے عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کی گذشتہ دنوں کی ایک بریفنگ بھارتی مسلمانوں کے وجود کو لاحق خطرات کے حوالے سے اقوام عالم کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے ۔گریگ اسٹینٹن کی تنظیم ”جینو سائڈ واچ” 2002ء کے گجرات فسادات کے وقت سے بھارت میں مسلمانوں کی نسلی کشی سے متنبہ کرتی چلی آ رہی ہے ، تاہم گذشتہ دنوں منعقد ہونے والی بریفنگ میں ڈاکٹر گریگوری نے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرات کو جس تفصیل سے واضح کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ صورتحال فی الواقع اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جتنا اسے باور کیا جاتا ہے۔” نسل کشی کے دس مراحل” کا نظریہ پیش کرنے والے اس ماہر نے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی سے الرٹ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمان نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں ہیں۔اس طرح ڈاکٹر گریگوری کے نظریے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کا صفایا صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہے کیونکہ اس نظریے کی کلاسیفکیشن میں دسواں مرحلہ نسل کشی کے جرائم سے انکار کا ہے ۔چنانچہ بھارت کی 21 کروڑ سے زائد مسلم آبادی کے نسلی بچاؤ کیلئے اقوام عالم کے متحرک ہونے کا یہی موقع ہے ۔ ڈاکٹر گریگوری جن اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں بھارت میں شدت پسندوں کا اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس کی شہادت دیتا ہے جبکہ گزشتہ ماہ منعقد ہونے والے شدت پسندہندوؤں کے اجتماع میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کی باتیں جس طرح کی گئیں اس کے بعد یہ خطرات مزید زور پکڑ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر اسٹینٹن کی وارننگ نسل کشی کے 10مرحلوں کے سائنسی ماڈل پر جانچے گئے ڈیٹا پر مبنی تھی۔
ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نسل کشی کے واقعات پر تحقیق کے حوالے سے ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر ہیں۔ انہوں نے روانڈا اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات سے کئی سال قبل ہی حالات کو تشویشناک قرار دیا تھا۔ ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ان کی تحقیق اور بریفنگز نے اکثر بین الاقوامی برادری کو نسل کشی کے خطرات سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انڈیا میں مسلمانوں سے نفرت اور انتہاپسندی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ، انتہا پسند مودی نے مسلمانوں کا گجرات میں جو قتل عام کروایا تھا ، امریکہ نے اس اقدام پر مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کیے رکھی لیکن انڈیا کا وزیر اعظم بننے کے بعد بھی مودی کے مسلمانوں سے بغض اور نفرت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سارے ہندوستان میں مسلمانوں کی ثقافت، مساجد، عمارتوں سڑکوں اور یادگاروں کے نام بھی تبدیل کر دیے ۔
بھارت میں آر ایس ایس غنڈوں کی دہشت گردی کی طویل فہرست ہے جس میں دیگر اقلیتوں عیسائی اور دلتوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ بھارت میں اقلیتیں مسلسل خوف اور جبر کے سائے تلے زندگی گزار رہی ہیں۔ہندوستان میں اقلیتیں آر ایس ایس کے زیر اثر نریندر مودی کی حکومت میں اپنی زندگی کی حفاظت اور مذہب کے حوالے سے مسلسل خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بالادست ہندوتوا حکومت ریاستی پالیسی کے طور پر اقلیتوں کی نسل کشی، ان کے مذہبی مقامات مسمار کرنے اور ان کی بے حرمتی کا ارتکاب کر رہی ہے ، بھارتی ریاست عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکی ہے ۔عالمی طاقتیں دہشت گرد بھارتی ریاست کے خلاف سخت اقدامات کریں۔بھارت میں دلت باشندوں پر اونچی ذات کے ہندووں کا ظلم تمام حدود پار کر گیا۔دلت ہونا جرم بن گیا ہے ۔
دنیا کے سب سے بڑے نام نہاد جمہوری ملک بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حالت زار بدستور ابتر ہے اور اکثریتی ہندو طبقے کی طرف سے انہیں مسلسل ظلم و ستم کا سامنا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور سکھوں کو دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ نہایت ظالمانہ رویہ روا رکھا جا تا ہے ۔
بھارت میں ہر دس منٹ میں ایک دلت نشانہ ستم بنتا ہے ۔نسلی برتری کی یہ لعنت تعلیم گاہوں خصوصا اسکولوں میں بھی وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے ۔انسانیت سوز واقعہ اس وقت پیش آیا جب بھارت میں نچلی ذات کے افراد کے ساتھ گھٹیا سلوک کرنے کی روش ختم نہیں ہوسکی۔ بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں ایس وی ویٹرنری یونیورسٹی کے ڈیری ٹیکنالوجی کالج کے پرنسپل کی طرف سے دلت اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر روی کو مبینہ طور پر ذات پات کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا پرنسپل نے ان کے کمرے سے کرسی ہٹا دی جس کے باعث دلت ڈاکٹر روی فرش پر بیٹھ کر کام کرنے پر مجبور ہوگئے ۔
استاد کی تذلیل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل خطرے میں ہیں۔اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان بھارت جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد وہاں کے مسلمانوں نے بھارت سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف کھل کر ہرزہ سرائی کی، دل کھول کر پاکستان کو برا بھلا کہا، وہاں مودی نواز نام نہاد مولویوں، مسلمان سیاستدانوں، اداکاروں اور عوام نے مودی کی چمچہ گیری میں انتہا کر دی۔لیکن آج بھی ان کی عزت دو ٹکے کی ہے ۔یہ کچھ بھی کر لیں اپنے وجود کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم نہیں کروا سکتے ہیں۔
عالمی طاقتیں دہشت گرد بھارتی ریاست کے خلاف سخت اقدامات کریں تاکہ نہ صرف اقلیتوں کو بھارتی ریاستی دہشت گردی سے بچایا جا سکے بلکہ تنازعہ کشمیر کے مستقل حل کو یقینی بنایا جا سکے ۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔