... loading ...
حمیداللہ بھٹی
عین ایسے حالات میں جب 1979کے ایرانی اسلامی انقلاب کے ناقدین بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور سزائوں کا سامنا کرنے کے باوجود تقویت حاصل کررہے تھے ،اسرائیلی حملوں نے صورتحال کویکسر بدل کر انقلاب مخالف قوتوںکو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اب ناقدین خاموش اور قدامت پسندوں کو فیصلہ کُن بالادستی حاصل ہو گئی ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے نبض شناس حلقوں میں یہ سوال گردش کرنے لگا ہے کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہونے اقتدار میں رہنے کے لیے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف جوچال چلی تھی کیا ناکامی سے دوچار ہوگئی اور اسرائیلی فوجی برتری کیاسوالیہ نشان بن گئی ہے؟
انقلاب کے بعد ایران میںکئی بار اندرونی خلفشار نے جنم لیااور اُس نے کئی ایک لڑائیاں لڑیں جن میں طویل ترین عراق سے آٹھ سالہ جنگ ہے جبکہ شام سے لیکر لبنان ،یمن اور فلسطین میں اپنی حامی قوتوں کے ذریعے اسرائیل کو عشروں تک زچ کیے رکھا لیکن حالات خواہ جیسے بھی رہے ملک کے جمہوری عمل میں تعطل نہ آنے دیا جو اُسے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ایسے ممالک سے ممتاز کرتاہے جہاں بادشاہت رائج ہے اور حکمران طبقہ ہر وقت عوامی بیداری سے خوفزدہ رہتا ہے جس کا فائدہ عالمی طاقتوں کو ہوتا ہے اور وہ حکمرانوں کی حمایت کے عوض مفادِ عامہ کے منافی شرائط منوا لیتی ہیں لیکن ایران نے جنگ اور امن کے دوران بھی جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھا ۔صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے بروقت انعقاد نے ایرانی عوام کی غالب اکثریت کااسلامی انقلاب پر اعتماد برقرار رکھا جس کا اسرائیل ادراک نہ کر سکا۔ رجیم تبدیلی کامنصوبہ ناکامی سے دوچارتوہوا ہی ہے جوہری پروگرام ختم کرنے کا دعویٰ بھی مشکوک نظرآتا ہے۔ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ رجیم تبدیلی کے اندازوں کا مستقبل قریب میں بھی پوراہونا مشکل ہو گیاہے۔
امریکہ ،اسرائیل اورایران تینوں فاتح ہونے کے دعویدار ہیں ۔اسرائیلی حکومت کہتی ہے کہ اُس نے ایرانی جوہری پروگرام ختم کرنے کے ساتھ تمام اہداف حاصل کرلیے ہیں اور اب ایران کی طرف سے اسرائیل کوکوئی خطرہ نہیں رہا جبکہ امریکی انتظامیہ بھی ایران کا جوہری پروگرام مکمل طورپر ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اُس نے حملہ آوروں کاحوصلے ،ثابت قدمی اورجرات سے ڈٹ کر مقابلہ کیا تینوں کاموقف درست ہونا ممکن نہیں کیونکہ بیک وقت تمام فریقوں کوفاتح نہیں کہہ سکتے صدر ٹرمپ کی طرف سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا اگست 1945کے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں سے موازنہ کرنابھی ناقابلِ فہم ہے۔ اول تو یہ کہ جاپان کے ساتھ کئی اور ممالک بھی جنگ میں شامل تھے اِس کے باوجوداُس نے دوجوہری بم گرانے پر ہی ہتھیار ڈال دیے جبکہ اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں کوئی اور ملک ایران کے ساتھ عملی طورپر شریک نہیں ہوا ،یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ بھی اِس معاملے میں الگ تھلگ رہی اور مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی یا خطے کے کسی ملک سے اُسے کوئی عملی مدد نہ ملی بلکہ واحد ایران ہی اسرائیل اور امریکہ سے مقابلہ کرتانظر آیا جون کی اِس بارہ روزہ جنگ نے کئی ایک پہلوئوں کی وضاحت کردی ہے ۔اول تو یہ کہ اسرائیل تسلیم کرلے ایران پر حملوں کے دوران وہ شام ،لیبیا،مصر،لبنان اور عراق کی تاریخ نہیں دہرا سکا جس کی وجہ ایران میں شخصی نظام رائج نہیں جبکہ ایران کے لیے سبق یہ ہے کہ وہ اندرونی حوالے سے لاکھ بہتر سہی لیکن بیرونی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے مقابلے پر بھارت پر انحصار ترک کرنے کے ساتھ فوری طورپر فضائیہ کوبہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اِس حوالے سے وہ چین اورپاکستان کی مدد حاصل کر سکتا ہے جن کی فضائیہ خطے میں سب سے مضبوط اورجدیدتصور کی جاتی ہے جبکہ بھارتی فضائیہ مہارت اور صلاحیت میں کم ترہے۔
اسرائیل نے جنگ کے آغاز میں بڑی مہارت سے پہلے ہی حملے میں ایرانی فضائی دفاعی نظام تہس نہس کردیا مگر ایران نے جوابی حملوں میں زیادہ تاخیر نہیں کی اور ہرممکن طریقہ سے اسرائیل کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جس میں جزوی حدتک کامیابی ہوئی لیکن معمولی کامیابیوں کو تین جوہری تنصیبات کی تباہی کا نعم البدل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ابتدامیںایسا لگا کہ جنگ طوالت اختیار کر سکتی ہے۔ شاید اسی لیے امریکہ کواپنے ہتھیاروں کے ذخائر میںسے سب سے بھاری ،خطرناک اور تباہ کُن بم ایرانی جوہری تنصیبات پر گرانے پڑے۔ لیکن ایران نے نفسیاتی کمزوری نہ دکھائی اور کسی حدتک مقابلہ کرنے کا تاثر دینے میں کامیاب رہا۔ اسی وجہ سے جنگ بندی کے لیے امریکہ نے قطرسے ثالثی کی مدد لی جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلہ طاقت سے حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ سفارتی ذرائع کوبروئے کارلاکر زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔علاوہ ازیں ہرجگہ رجیم تبدیلی کااندازہ پورانہیں ہو سکتابلکہ ایساہدف طے کرتے وقت خطے کی عوام کا مزاج اور حالات پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اپنے قیام کے بعد1948 سے اسرائیل عربوں سے کئی بڑی اور چھوٹی جنگیں لڑ چکا ہے اِس تناظر میں عربوں کا مزاج آشناتو کہہ سکتے ہیں مگر ایران کے خلاف گزشتہ ماہ اُس نے پہلی جنگ لڑی ہے جو بغیر کسی نتیجہ ختم ہوئی ہے یہی اِس جنگ کا سبق ہے اگرچہ 1979کے اسلامی انقلاب سے قبل ایران و اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجودتجارتی ،سیاحتی اور کسی حد تک ثقافتی روابط موجودتھے جس کاموجب شاہ ایران کی مغرب نواز پالیسیاں تھیں۔ 1955میں امریکہ نے ایران کو معاہدہ بغداد میں شامل کرتے ہوئے بھی اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنادیا لیکن اسلامی انقلاب نے ایران میں بہت کچھ بدل دیاہے نہ صرف ایران عرب ممالک سے دور ہوابلکہ جوہری پروگرام شروع کرنے کی وجہ سے اسرائیل سے بھی کشیدگی پیداہوگئی جس کا نتیجہ جون 2025 کی جنگ کی صورت میںسامنے آیا۔
امریکہ خوش ہے کہ اُس نے ایران و اسرائیل جنگ بندی کا اعزازحاصل کر لیا ہے مگر حالات وواقعات سے دیرپا جنگ بندی کا اِشارہ نہیں ملتا ۔یہ درست ہے کہ اسرائیل نے عسکری قیادت اور جوہری سائنسدانوں ،میزائل و دفاعی نظام کوتباہ کردیا ہے لیکن یہ ایران کے لیے ناقابلِ تلافی نہیں ۔ایسا امکان اب بھی موجود ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ فعال کر سکتا ہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔پہلے ہی دوعشروں سے عائد اقتصادی پابندیوں سے کمزورایرانی معیشت کوحالیہ جنگ نے مزید دگرگوںکردیا ہے ۔لہٰذا جنگ بندی کے بعد جو امن کا موقع ملا ہے اُسے ضائع ہونے سے بچانا ہے توکشیدگی بڑھانے سے ایران و اسرائیل کو گریز کرنا ہوگا۔ نیزایرانی قیادت کوبدحال عوام کو عوام کو کچھ ثمرات دینا ہوں گے وگرنہ جنگ بندی سے خوش ایرانی عوام میں بے چینی جنم لے گی جسے زیادہ دیرانقلابی نعروں سے دبانا مشکل ہوجائے گا اسی طرح اسرائیل کے لیے بھی مستقبل میں مشکلات کا جنم لینا ناممکن نہیں رہے گا ۔