... loading ...
ریاض احمدچودھری
کانگریس کے رہنما اور ریاست کرناٹک کے وزیر پرینک کھرگے نے ”آر ایس ایس ” کو کینسرقرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ تنظیم ہے جو قومی اتحاد، قومی ترانہ، قومی پرچم اور دستور کیلئے خطرہ ہے۔ آر ایس ایس اپنے قیام کے سو برس منانے کی تیاری کر رہی ہے ، اسے بتانا چاہیے کہ ان سو برسوں میں اس نے ملک کیلئے کونسے دس کام کیے ہیں، اس نے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کیا کیا، اس نے سماجی اصلاحات کیلئے کیا کیا، اس نے نابرابری اور ظلم و زیادتی کو مٹانے کیلئے کیا گیا ، اس نے غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے کونسے پروگرام چلائے، کیا اس نے ملک کے اتحاد کیلئے کام کیا۔ آر ایس ایس کا دفاع کرنے والی بی جے پی کو اس سب کا جواب دینا چاہیے۔ بی جے پی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آر ایس ایس کینسر ہے اور کینسر کا علاج موجود ہے۔ یاد رہے کہ پرینگ کھرگے نے قبل ازیں ایک بیان میں کہا تھا کہ کانگریس مرکز میں برسر اقتدار آئی تو آر ایس ایس پر پابندی لگا دے گی۔ پرینک کھرگے کانگریس کے صدر ملکار جن کھرکے کے بیٹے ہیں۔
معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز مودی کا ہندوستان کو ہندو ملک بنانے کا منصوبہ سامنے لے آیا ہے، ہندو انتہا پسند ہمیشہ سے بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کرکے اسے ہندو ملک کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔مودی ہندو انتہاء پسند تنظیم آر ایس ایس کا سرگرم رکن ہے، مودی تیسری مرتبہ الیکشن جیت کر آئین تبدیل کرکے بھارت کو ہندوملک قرار دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔عالمی میڈیا میں مودی کی ہندو انتہا پسند پالیسیوں پر شدید اضطراب پایا جاتا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کیا ہندوستان ہندو ملک بننے جا رہا ہے، عالمی میڈیا نے بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مودی سرکار نے جان بوجھ کر مسلمان مخالف قوانین بنائے ہیں اور ان قوانین میں شہریت کے قوانین کی تبدیلی اور کشمیر کے ناجائز غاصبانہ انضمام کا بھی حوالہ دیا گیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مودی ہندو انتہاء پسند تنظیم آر ایس ایس کا سرگرم رکن ہے، مودی سرکار نے منظم انداز میں آزادیِ اظہار پر کریک ڈاؤن کیا، تنقیدی آوازوں کو دہشتگردی قوانین سے دبایا گیا، میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے ایمرجنسی کا سہارا لیا گیا، ہندو انتہا پسند ہمیشہ سے بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کر کے اسے ہندو ملک کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ممتاز امریکی صحافی لیڈیا پولگرین نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کے تحت بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور مجرموں کو اکثر سزا نہیں ملتی ہے۔ مودی حکومت نے ایسے قوانین اور پالیسیاں نافذ کررکھی ہیں جن کا مقصدمسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔شہریت کے قوانین میں تبدیلیاں جن سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کی وجہ مسلم اکثریتی علاقے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنا بھی ان میں شامل ہے۔لیکن یہ سوچنا غلط ہوگا کہ بھارت میں صرف مسلمانوں کو خطرہ ہےْ۔
بھارتی حکومت نے منظم طریقے سے آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے تمام طریقوں پر کریک ڈائون کیا ہے، اپنے ہنگامی اختیارات میں اضافہ کیا ہے تاکہ ان معلومات کو روکا جا سکے جو وہ بھارتی عوام سے دور رکھنا چاہتی ہے اور انسداددہشت گردی کے گھنائونے قوانین کے تحت مخالفین کو دبانا آسان بنارہی ہے۔ میرا ایک بھارتی صحافی دوست ان بہت سے لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے گزشتہ کچھ سالوں میں مایوس ہوکر ملک چھوڑدیاہے۔ انہوں نے اس صورتحال کو اس طرح بیان کیاکہ یہ صرف مسلمانوں پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام بھارتیوں پر حملہ ہے کیونکہ اس سے ہم اپنے خیالات، سوچ، خوابوں اور بھرپور زندگی سے محروم ہورہے ہیں۔انہوں نے ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت آزادی اور رواداری کو ختم کررہی ہے ”کے عنوان سے لکھا کہ ایپل اور ٹیکنالوجی کی دیگر کمپنیوں کی طرح سابقہ بائیڈن انتظامیہ بھارت میں کام کرنے کے خواہشمندتھے۔انہوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ تیسری بار جیتنے کی خواہش رکھنے والے مودی آئین کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے اور بھارت کو ایک ہندو ملک قرار دینے کی کوشش کریں گے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا قیام 1925 میں کیشو رام بلی رام ہیڈگیوار کی جانب سے ناگپور میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنا اور بھارت کو ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لیے آر ایس ایس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں درجنوں تنظیمیں قائم کیں۔سماجی امور کے ایک ماہر ڈاکٹر مہیپال سنگھ راٹھور کا بھی یہی خیال ہے کہ آر ایس ایس کا قیام ہندوتوا نظریات کو پروان چڑھا کر بھارت کے سیکولر تصور کو ختم کرنا اور اسے ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ آر ایس ایس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ایک ثقافتی تنظیم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ آر ایس ایس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی ہندو تہذیب و ثقافت کا تحفظ کر رہی ہے ۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی آر ایس ایس کا حصہ رہے ہیں۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی آر ایس ایس کا حصہ رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ہندوؤں کی بھارت میں اجارہ داری اور برتری کا حصول آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور اسے ہندوتوا بھی کہا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کے کارکنوں کو جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی تربیت دی جاتی ہے۔ جسمانی تربیت میدانوں میں دی جاتی ہے جسے شاکھا کہتے ہیں۔ اس تربیت کے دوران آر ایس ایس میں شامل ہونے والے رضاکاروں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور دوسروں کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی پہلے ہندو تھے جنہوں نے بعد میں مذہب تبدیل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔