وجود

... loading ...

وجود

آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ

بدھ 09 جولائی 2025 آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ

ریاض احمدچودھری

کانگریس کے رہنما اور ریاست کرناٹک کے وزیر پرینک کھرگے نے ”آر ایس ایس ” کو کینسرقرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ تنظیم ہے جو قومی اتحاد، قومی ترانہ، قومی پرچم اور دستور کیلئے خطرہ ہے۔ آر ایس ایس اپنے قیام کے سو برس منانے کی تیاری کر رہی ہے ، اسے بتانا چاہیے کہ ان سو برسوں میں اس نے ملک کیلئے کونسے دس کام کیے ہیں، اس نے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کیا کیا، اس نے سماجی اصلاحات کیلئے کیا کیا، اس نے نابرابری اور ظلم و زیادتی کو مٹانے کیلئے کیا گیا ، اس نے غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے کونسے پروگرام چلائے، کیا اس نے ملک کے اتحاد کیلئے کام کیا۔ آر ایس ایس کا دفاع کرنے والی بی جے پی کو اس سب کا جواب دینا چاہیے۔ بی جے پی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آر ایس ایس کینسر ہے اور کینسر کا علاج موجود ہے۔ یاد رہے کہ پرینگ کھرگے نے قبل ازیں ایک بیان میں کہا تھا کہ کانگریس مرکز میں برسر اقتدار آئی تو آر ایس ایس پر پابندی لگا دے گی۔ پرینک کھرگے کانگریس کے صدر ملکار جن کھرکے کے بیٹے ہیں۔
معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز مودی کا ہندوستان کو ہندو ملک بنانے کا منصوبہ سامنے لے آیا ہے، ہندو انتہا پسند ہمیشہ سے بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کرکے اسے ہندو ملک کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔مودی ہندو انتہاء پسند تنظیم آر ایس ایس کا سرگرم رکن ہے، مودی تیسری مرتبہ الیکشن جیت کر آئین تبدیل کرکے بھارت کو ہندوملک قرار دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔عالمی میڈیا میں مودی کی ہندو انتہا پسند پالیسیوں پر شدید اضطراب پایا جاتا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کیا ہندوستان ہندو ملک بننے جا رہا ہے، عالمی میڈیا نے بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مودی سرکار نے جان بوجھ کر مسلمان مخالف قوانین بنائے ہیں اور ان قوانین میں شہریت کے قوانین کی تبدیلی اور کشمیر کے ناجائز غاصبانہ انضمام کا بھی حوالہ دیا گیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مودی ہندو انتہاء پسند تنظیم آر ایس ایس کا سرگرم رکن ہے، مودی سرکار نے منظم انداز میں آزادیِ اظہار پر کریک ڈاؤن کیا، تنقیدی آوازوں کو دہشتگردی قوانین سے دبایا گیا، میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے ایمرجنسی کا سہارا لیا گیا، ہندو انتہا پسند ہمیشہ سے بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کر کے اسے ہندو ملک کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ممتاز امریکی صحافی لیڈیا پولگرین نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کے تحت بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور مجرموں کو اکثر سزا نہیں ملتی ہے۔ مودی حکومت نے ایسے قوانین اور پالیسیاں نافذ کررکھی ہیں جن کا مقصدمسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔شہریت کے قوانین میں تبدیلیاں جن سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کی وجہ مسلم اکثریتی علاقے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنا بھی ان میں شامل ہے۔لیکن یہ سوچنا غلط ہوگا کہ بھارت میں صرف مسلمانوں کو خطرہ ہےْ۔
بھارتی حکومت نے منظم طریقے سے آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے تمام طریقوں پر کریک ڈائون کیا ہے، اپنے ہنگامی اختیارات میں اضافہ کیا ہے تاکہ ان معلومات کو روکا جا سکے جو وہ بھارتی عوام سے دور رکھنا چاہتی ہے اور انسداددہشت گردی کے گھنائونے قوانین کے تحت مخالفین کو دبانا آسان بنارہی ہے۔ میرا ایک بھارتی صحافی دوست ان بہت سے لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے گزشتہ کچھ سالوں میں مایوس ہوکر ملک چھوڑدیاہے۔ انہوں نے اس صورتحال کو اس طرح بیان کیاکہ یہ صرف مسلمانوں پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام بھارتیوں پر حملہ ہے کیونکہ اس سے ہم اپنے خیالات، سوچ، خوابوں اور بھرپور زندگی سے محروم ہورہے ہیں۔انہوں نے ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت آزادی اور رواداری کو ختم کررہی ہے ”کے عنوان سے لکھا کہ ایپل اور ٹیکنالوجی کی دیگر کمپنیوں کی طرح سابقہ بائیڈن انتظامیہ بھارت میں کام کرنے کے خواہشمندتھے۔انہوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ تیسری بار جیتنے کی خواہش رکھنے والے مودی آئین کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے اور بھارت کو ایک ہندو ملک قرار دینے کی کوشش کریں گے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا قیام 1925 میں کیشو رام بلی رام ہیڈگیوار کی جانب سے ناگپور میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنا اور بھارت کو ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لیے آر ایس ایس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں درجنوں تنظیمیں قائم کیں۔سماجی امور کے ایک ماہر ڈاکٹر مہیپال سنگھ راٹھور کا بھی یہی خیال ہے کہ آر ایس ایس کا قیام ہندوتوا نظریات کو پروان چڑھا کر بھارت کے سیکولر تصور کو ختم کرنا اور اسے ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ آر ایس ایس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ایک ثقافتی تنظیم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ آر ایس ایس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی ہندو تہذیب و ثقافت کا تحفظ کر رہی ہے ۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی آر ایس ایس کا حصہ رہے ہیں۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی آر ایس ایس کا حصہ رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ہندوؤں کی بھارت میں اجارہ داری اور برتری کا حصول آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور اسے ہندوتوا بھی کہا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کے کارکنوں کو جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی تربیت دی جاتی ہے۔ جسمانی تربیت میدانوں میں دی جاتی ہے جسے شاکھا کہتے ہیں۔ اس تربیت کے دوران آر ایس ایس میں شامل ہونے والے رضاکاروں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور دوسروں کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی پہلے ہندو تھے جنہوں نے بعد میں مذہب تبدیل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
رجیم تبدیلی کے اندازے ! وجود بدھ 09 جولائی 2025
رجیم تبدیلی کے اندازے !

آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ وجود بدھ 09 جولائی 2025
آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ

منہدم ہو رہے ہیں اندر سے وجود منگل 08 جولائی 2025
منہدم ہو رہے ہیں اندر سے

مودی کا 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان وجود منگل 08 جولائی 2025
مودی کا 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان

اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت ! وجود اتوار 06 جولائی 2025
اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر