وجود

... loading ...

وجود

سانحہ سوات بے حسی اور غفلت کی دردناک کہانی

بدھ 02 جولائی 2025 سانحہ سوات بے حسی اور غفلت کی دردناک کہانی

حمیداللہ بھٹی

یوں توہر پاکستانی اپنی صلاحیتوں پر نازاں ہے لیکن سانحہ سوات نے ہماری استعداد کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ یہ سانحہ من حیث القوم ہماری لاپروائی ،بے حسی کو اُجاگر کرتا اور اجتماعی سوچ کے فقدان نیز تماشہ دیکھنے کی جبلت سے پردہ ہٹاتا ہے مگر حکومتی اور عوامی سطح پر کہیں شرمندگی کا احساس تک نہیں۔ ایسا لگتا ہے ایک معمول کا واقعہ تصور کیاجارہا ہے شاید اب چندروز بیان بازی تو ہوگی لیکن مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیربھی ہوں گی اِس بارے کچھ کہناقبل ازوقت ہوگا ۔کیونکہ ماضی کے واقعات شاہد ہیں کہ حکومت اور عوام دونوں کارویہ ایک جیسا ہے لہٰذا کسی قسم کی توقع خام خیالی ہوگی یہ سوچ یا طرزِ عمل باشعور قوم کے شایانِ شان نہیں بلکہ یہ طرزِ عمل ایسے ہجوم کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو ہمہ وقت تماشے کی جستجومیں ہو جسے کسی صورت قابلِ تعریف یا قابلِ رشک نہیں کہہ سکتے۔
امداد کے منتظر بچے بوڑھے اور خواتین دن دیہاڑے لہروں کی نذرہوگئے لیکن کسی حکومتی اِداروں نے ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے مدد نہ کی شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ مرنے والے خاص نہیں عام لوگ تھے جن کا کوئی قریبی عزیز کسی حکومتی منصب پر فائز نہ تھا اور نہ ہی کسی اہم اِدارے میں موجود تھااسی لیے بے یارومددگارمرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔اگر مرنے والوں میں کوئی اہم عہدیدار ہوتا یا کسی اہم عہدیدار کا قریبی ،تو ذرادل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا پھر بھی ایسی ہی سردمہری یا بے حسی کا مظاہرہ ہوتا؟ہر گزنہیں ۔بلکہ ملک کے طول و عرض میں صفِ ماتم بچھ چکی ہوتی اور ذرائع ابلاغ پر بھی آہ و بکا ہورہی ہوتی یہاںکیونکہ عام لوگوں کی موت ہوئی ہے اسی لیے معمول کا واقعہ جان کر نظرانداز کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اوربس اِتنا ہوا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کا چندروزکے لیے بہانہ مِل گیا ہے دونوں طرف سے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے ماہرین صف آراہیں اور تماشے کی متمنی عوام دلچسپی سے سننے میں مگن ہے۔
سوات صوبہ کے پی کے کا حصہ ہے جہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اسی لیے اگر ذمہ داران کا تعین کیا جائے تو صوبائی حکومت کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے ،دوگھنٹے تک پانی کی بے رحم لہروں کے درمیان سیالکوٹ کاسیاح خاندان امداد کا منتظر رہا لیکن کسی طر ف سے کوئی مددنہ ملناسراسر نااہلی ہے۔ یہ نہیں کہ یہ واقعہ دور دراز کسی علاقے میں پیش آیا اِس لیے ذرائع ابلاغ سے پوشیدہ رہا بلکہ دریا کے کناروں پر موجود لوگ لمحہ لمحہ کے مناظر سوشل میڈیا پر لگاتے رہے اور تحریکِ انصاف جس کی اصل طاقت ہی سوشل میڈیا ہے ۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت سانحہ سے لا علم رہی جبکہ موقع پر موجود مقامی افراد کی بڑی تعدادبھی عملی طورپر کچھ مدد کرنے کی بجائے محض ویڈیو بنانے تک محدودرہی ۔یہ لاپرواہی ،بے حسی اور سنگدلی کی انتہاہے۔ اب صوبائی حکومت اپنی نااہلی کو چند ایک آفیسروں کی معطلی اورمرحومین کے ورثاکی مالی مدد چھپاناچاہتی ہے جو بے حسی اور فرائض سے غفلت کو جواز دینے کے مترادف ہے۔ ایسا کسی مہذب معاشرے میں ہوا ہوتا تو اب تک حکومتیں مستعفی ہوچکی ہوتیںلیکن ہمارے ہاں سانحات کی کوئی زمہ داری قبول ہی نہیں کرتا بلکہ ملبہ ایک دوسرے پر گرانے کی کوشش کی جاتی ہے ایسا کچھ ہی سانحہ سوات کے سلسے میں بھی ہورہا ہے۔
جب سوات سانحہ کی ویڈیوزسوشل میڈیا پر گردش کررہی تھیں تو صوبائی وزیرِ اعلیٰ امین علی گنڈاپور اسلام آباد سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھے حالانکہ جب اُن کے علم میں آگیاکہ دریائے سوات کی لہروں سے سیاح خاندان نبردآزما ہے تو ماتحت اِداروں کومددکاکہہ سکتے تھے مگر انھوں نے انسانی جانوں پر سیاسی سرگرمیوں کو ترجیح دی اور سانحہ سوات کے متعلق پوچھنے پر سفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے ماتحت اِدارے کام کررہے ہیں لہٰذا میں نے کون سا جا کر تنبو دینے ہیں۔ جانے ایسے شخص کو کون لوگ ووٹ دیتے ہیں جسے عوامی جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں جس نے صوبائی وسائل سیاسی سرگرمیوں کے لیے تو وقف کررکھے ہیں لیکن عوام کو حالات کے رحم و کرم پر بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔
سیاحت کا خیبر پختونخواہ کی ترقی میں بہت عمل دخل ہے ۔یہ روزگار کے مواقع پیداکرنے کے ساتھ کاروبارکوفروغ دینے کا باعث ہے پھربھی اِس شعبے کو بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اسی بناپر اب یہ شعبہ بھی زوال کاشکار ہے ۔حالانکہ موسم کے بارے آگاہی، آسان رسائی ورہائش جیسی سہولتیں دیکر صوبائی حکومت آمدن میں نمایا ں اضافہ کر سکتی ہے کیونکہ دلکش قدرتی مناظر سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں لیکن کسی قسم کی سہولتیں فراہم کرنے یا سیاحوں کی ہنگامی حالات میں مدد کرنے کی بجائے صوبائی حکومت کی نظر صرف آمدن پر ہے ۔ یہاں مافیاکاراج ہے کھانے پینے کی اشیا ء ناقص اور گراں ہیں۔ رہائش کی سہولتیں بھی بہتر نہیں، آمدورفت بھی مشکل ہے اِس کے باوجود سیاحت غنیمت ہے لیکن بڑھتی اموات سے سیاحوں کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے، یوں لامحالہ روزگار اور کاروبارکے مواقع محدودہو ں گے جس کا نتیجہ غربت و افلاس کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت سیاحت کے فروغ کو ترجیح دے اور ہنگامی حالات میں امدادفراہم کرنے والے اِداروں کو نہ صرف ہر لمحہ چوکس رکھے بلکہ اُن کی استعداد میں بھی اضافہ کرے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائج سیاست میں فرائض پر توجہ دینے کی بجائے ایک دوسرے کی خامیاں اُجاگر کرنے پر توجہ دی جاتی ہے تسلیم کہ سانحہ سوات میں صوبائی حکومت غفلت و لاپروائی کی مرتکب ہوئی ہے ۔نیز سوات سانحہ کی سب سے زیادہ ذمہ دار بھی وہی ہے مگر کیا وفاقی حکومت معصوم ہے اور اُس کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ سانحہ سوات چشم زدن میں نہیں ہوگیا بلکہ بدقسمت خاندان دوگھنٹے تک مددکی دہائی دیتارہا۔یہ کوئی تھوڑا وقت نہیں مگر وفاقی حکومت کی طرف سے بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی اِن حالات میں پاکستان کو سیاحت کا اولیں مقام بنانے پر کوئی یقین نہیں کر سکتا۔ عوامی حلقے دریافت کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب نواز شریف کے لیے ہیلی کاپڑوں پر مری ناشتے بھجوائے جا سکتے ہیں۔ علیمہ خان کی مدد کے لیے فضائی سروس دی جا سکتی ہے۔ سوات واقعہ سے چند روز قبل خیبرپختونخواہ کاہیلی کاپٹر چترال شندورمیلہ کے تین دنوں میں نجی طوپر بارہ دفعہ استعمال ہو چکا ہیلی کاپٹرپر بیرسٹر سیف کاخاندان،وزیرکھیل اور مزیددرجن بھر اشرافیہ خاندان چترال گھومنے جا تے رہے جوسب ریکارڈ پر ہے تو عام سیاحوں کے لیے ایسی مددسے پہلوتہی سفاکانہ اور مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیاہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مقبوضہ وادی میں مسلم تشخص خطرے میں وجود بدھ 02 جولائی 2025
مقبوضہ وادی میں مسلم تشخص خطرے میں

سانحہ سوات بے حسی اور غفلت کی دردناک کہانی وجود بدھ 02 جولائی 2025
سانحہ سوات بے حسی اور غفلت کی دردناک کہانی

پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج وجود منگل 01 جولائی 2025
پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

بیانیہ، بیداری اور فیصلے : استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی وجود منگل 01 جولائی 2025
بیانیہ، بیداری اور فیصلے : استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی

بھارت خطے کا امن داؤ پر لگا رہا ہے! وجود منگل 01 جولائی 2025
بھارت خطے کا امن داؤ پر لگا رہا ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر