... loading ...
حمیداللہ بھٹی
یوں توہر پاکستانی اپنی صلاحیتوں پر نازاں ہے لیکن سانحہ سوات نے ہماری استعداد کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ یہ سانحہ من حیث القوم ہماری لاپروائی ،بے حسی کو اُجاگر کرتا اور اجتماعی سوچ کے فقدان نیز تماشہ دیکھنے کی جبلت سے پردہ ہٹاتا ہے مگر حکومتی اور عوامی سطح پر کہیں شرمندگی کا احساس تک نہیں۔ ایسا لگتا ہے ایک معمول کا واقعہ تصور کیاجارہا ہے شاید اب چندروز بیان بازی تو ہوگی لیکن مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیربھی ہوں گی اِس بارے کچھ کہناقبل ازوقت ہوگا ۔کیونکہ ماضی کے واقعات شاہد ہیں کہ حکومت اور عوام دونوں کارویہ ایک جیسا ہے لہٰذا کسی قسم کی توقع خام خیالی ہوگی یہ سوچ یا طرزِ عمل باشعور قوم کے شایانِ شان نہیں بلکہ یہ طرزِ عمل ایسے ہجوم کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو ہمہ وقت تماشے کی جستجومیں ہو جسے کسی صورت قابلِ تعریف یا قابلِ رشک نہیں کہہ سکتے۔
امداد کے منتظر بچے بوڑھے اور خواتین دن دیہاڑے لہروں کی نذرہوگئے لیکن کسی حکومتی اِداروں نے ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے مدد نہ کی شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ مرنے والے خاص نہیں عام لوگ تھے جن کا کوئی قریبی عزیز کسی حکومتی منصب پر فائز نہ تھا اور نہ ہی کسی اہم اِدارے میں موجود تھااسی لیے بے یارومددگارمرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔اگر مرنے والوں میں کوئی اہم عہدیدار ہوتا یا کسی اہم عہدیدار کا قریبی ،تو ذرادل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا پھر بھی ایسی ہی سردمہری یا بے حسی کا مظاہرہ ہوتا؟ہر گزنہیں ۔بلکہ ملک کے طول و عرض میں صفِ ماتم بچھ چکی ہوتی اور ذرائع ابلاغ پر بھی آہ و بکا ہورہی ہوتی یہاںکیونکہ عام لوگوں کی موت ہوئی ہے اسی لیے معمول کا واقعہ جان کر نظرانداز کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اوربس اِتنا ہوا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کا چندروزکے لیے بہانہ مِل گیا ہے دونوں طرف سے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے ماہرین صف آراہیں اور تماشے کی متمنی عوام دلچسپی سے سننے میں مگن ہے۔
سوات صوبہ کے پی کے کا حصہ ہے جہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اسی لیے اگر ذمہ داران کا تعین کیا جائے تو صوبائی حکومت کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے ،دوگھنٹے تک پانی کی بے رحم لہروں کے درمیان سیالکوٹ کاسیاح خاندان امداد کا منتظر رہا لیکن کسی طر ف سے کوئی مددنہ ملناسراسر نااہلی ہے۔ یہ نہیں کہ یہ واقعہ دور دراز کسی علاقے میں پیش آیا اِس لیے ذرائع ابلاغ سے پوشیدہ رہا بلکہ دریا کے کناروں پر موجود لوگ لمحہ لمحہ کے مناظر سوشل میڈیا پر لگاتے رہے اور تحریکِ انصاف جس کی اصل طاقت ہی سوشل میڈیا ہے ۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت سانحہ سے لا علم رہی جبکہ موقع پر موجود مقامی افراد کی بڑی تعدادبھی عملی طورپر کچھ مدد کرنے کی بجائے محض ویڈیو بنانے تک محدودرہی ۔یہ لاپرواہی ،بے حسی اور سنگدلی کی انتہاہے۔ اب صوبائی حکومت اپنی نااہلی کو چند ایک آفیسروں کی معطلی اورمرحومین کے ورثاکی مالی مدد چھپاناچاہتی ہے جو بے حسی اور فرائض سے غفلت کو جواز دینے کے مترادف ہے۔ ایسا کسی مہذب معاشرے میں ہوا ہوتا تو اب تک حکومتیں مستعفی ہوچکی ہوتیںلیکن ہمارے ہاں سانحات کی کوئی زمہ داری قبول ہی نہیں کرتا بلکہ ملبہ ایک دوسرے پر گرانے کی کوشش کی جاتی ہے ایسا کچھ ہی سانحہ سوات کے سلسے میں بھی ہورہا ہے۔
جب سوات سانحہ کی ویڈیوزسوشل میڈیا پر گردش کررہی تھیں تو صوبائی وزیرِ اعلیٰ امین علی گنڈاپور اسلام آباد سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھے حالانکہ جب اُن کے علم میں آگیاکہ دریائے سوات کی لہروں سے سیاح خاندان نبردآزما ہے تو ماتحت اِداروں کومددکاکہہ سکتے تھے مگر انھوں نے انسانی جانوں پر سیاسی سرگرمیوں کو ترجیح دی اور سانحہ سوات کے متعلق پوچھنے پر سفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے ماتحت اِدارے کام کررہے ہیں لہٰذا میں نے کون سا جا کر تنبو دینے ہیں۔ جانے ایسے شخص کو کون لوگ ووٹ دیتے ہیں جسے عوامی جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں جس نے صوبائی وسائل سیاسی سرگرمیوں کے لیے تو وقف کررکھے ہیں لیکن عوام کو حالات کے رحم و کرم پر بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔
سیاحت کا خیبر پختونخواہ کی ترقی میں بہت عمل دخل ہے ۔یہ روزگار کے مواقع پیداکرنے کے ساتھ کاروبارکوفروغ دینے کا باعث ہے پھربھی اِس شعبے کو بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اسی بناپر اب یہ شعبہ بھی زوال کاشکار ہے ۔حالانکہ موسم کے بارے آگاہی، آسان رسائی ورہائش جیسی سہولتیں دیکر صوبائی حکومت آمدن میں نمایا ں اضافہ کر سکتی ہے کیونکہ دلکش قدرتی مناظر سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں لیکن کسی قسم کی سہولتیں فراہم کرنے یا سیاحوں کی ہنگامی حالات میں مدد کرنے کی بجائے صوبائی حکومت کی نظر صرف آمدن پر ہے ۔ یہاں مافیاکاراج ہے کھانے پینے کی اشیا ء ناقص اور گراں ہیں۔ رہائش کی سہولتیں بھی بہتر نہیں، آمدورفت بھی مشکل ہے اِس کے باوجود سیاحت غنیمت ہے لیکن بڑھتی اموات سے سیاحوں کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے، یوں لامحالہ روزگار اور کاروبارکے مواقع محدودہو ں گے جس کا نتیجہ غربت و افلاس کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت سیاحت کے فروغ کو ترجیح دے اور ہنگامی حالات میں امدادفراہم کرنے والے اِداروں کو نہ صرف ہر لمحہ چوکس رکھے بلکہ اُن کی استعداد میں بھی اضافہ کرے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائج سیاست میں فرائض پر توجہ دینے کی بجائے ایک دوسرے کی خامیاں اُجاگر کرنے پر توجہ دی جاتی ہے تسلیم کہ سانحہ سوات میں صوبائی حکومت غفلت و لاپروائی کی مرتکب ہوئی ہے ۔نیز سوات سانحہ کی سب سے زیادہ ذمہ دار بھی وہی ہے مگر کیا وفاقی حکومت معصوم ہے اور اُس کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ سانحہ سوات چشم زدن میں نہیں ہوگیا بلکہ بدقسمت خاندان دوگھنٹے تک مددکی دہائی دیتارہا۔یہ کوئی تھوڑا وقت نہیں مگر وفاقی حکومت کی طرف سے بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی اِن حالات میں پاکستان کو سیاحت کا اولیں مقام بنانے پر کوئی یقین نہیں کر سکتا۔ عوامی حلقے دریافت کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب نواز شریف کے لیے ہیلی کاپڑوں پر مری ناشتے بھجوائے جا سکتے ہیں۔ علیمہ خان کی مدد کے لیے فضائی سروس دی جا سکتی ہے۔ سوات واقعہ سے چند روز قبل خیبرپختونخواہ کاہیلی کاپٹر چترال شندورمیلہ کے تین دنوں میں نجی طوپر بارہ دفعہ استعمال ہو چکا ہیلی کاپٹرپر بیرسٹر سیف کاخاندان،وزیرکھیل اور مزیددرجن بھر اشرافیہ خاندان چترال گھومنے جا تے رہے جوسب ریکارڈ پر ہے تو عام سیاحوں کے لیے ایسی مددسے پہلوتہی سفاکانہ اور مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیاہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔