... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے لیے دن بدن مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں26اراکین کی معطلی کے بعد بلوچستان میں پارٹی پر پابندی کی قرارداد کی منظوری اور سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد پارٹی مشکلات کے بھنور میں پھنستی جارہی ہے، ابھی آنے والے وقت میں نہ جانے کیا کیا اور ہوگا۔حالانکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حالیہ برسوں میں پاکستان کی سب سے بڑی اور مؤثر سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے طور پر ابھرکرسامنے آئی ہے۔ تاہم 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد سے پارٹی کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے ۔9 مئی کے واقعات کے بعد پنجاب سے کئی اہم پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی چھوڑ دی ہے جس سے پارٹی کی صوبائی تنظیمیںکمزور ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو متعدد قانونی مقدمات کا سامنابھی ہے جس سے پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہوئی ہیں جس نے اس کی سیاسی حیثیت کو چاروں صوبوں میں مختلف طریقوں سے متاثر کیا ہے۔ آئندہ دنوں میں پی ٹی آئی کو ان چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے سخت جدوجہد کا سامنا کرناہوگا ۔اس وقت ملک بھر میں پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے ؟
بات پنجاب سے سے شروع کرتے ہیںپنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور قومی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے 2022 کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے کر پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی تھی جو مختصر مدت کے لیے تھی۔ 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی (جو سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحادی تھی) نے اگرچہ پنجاب میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کیں لیکن حکومت بنانے میں ناکام رہی جسکے بعد مسلم لیگ ن نے حکومت بنا لی اور پی ٹی آئی نے مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ ابھی حالیہ بجٹ کے بعد میں پی ٹی آئی کے26اراکین کی معطلی کے بعد اپوزیشن کو نہ صرف عددی نقصان کا سامنا ہے بلکہ اسمبلی اجلاس بلانے کا آئینی اختیار بھی محدود ہو گیا ہے۔ اسمبلی قواعد کے مطابق اجلاس بلانے کے لیے اپوزیشن کو کم از کم 93 اراکین کے دستخط درکار ہوتے ہیں ۔معطلی کے بعد اب اپوزیشن کے پاس صرف 79 اراکین رہ گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی کل تعداد 105 تھی، جب تک معطل اراکین کو بحال نہیں کیا جاتاتب تک اپوزیشن کسی بھی قسم کی ریکوزیشن جمع نہیں کرا سکتی جس سے ایوان میں حکومت پر دبا ڈالنے کی حکمت عملی بھی متاثر ہو گی۔ یہ ساری صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے دوران ایوان میں ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کی گئی۔ حالانکہ یہ اسمبلیوں میں معمول کی بات سمجھی جاتی رہی ہے لیکن اس بارا سپیکر ملک محمد احمد خان نے اراکین کی معطلی کے ساتھ 10 پی ٹی آئی ارکان پر اسمبلی میں توڑ پھوڑ اور مائیکروفون کو نقصان پہنچانے پر 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ ان تمام واقعات نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاسی قوت کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے جبکہ قیادت کے انخلا، ارکان کی معطلی اور مخصوص نشستوں سے محرومی نے پارٹی کو مزید مشکلات سے دوچار کردیاہے ۔اسی طرح پی ٹی آئی کو ایک اور بڑادھچکا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے بھی پہنچا ہے جس میں 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ جولائی 2024 کے سابقہ حکم کو کالعدم قرار دیتا ہے جس میں پی ٹی آئی کو پارلیمانی جماعت کے طور پر بحال کیا گیا تھا اور اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا دعویٰ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تقریباً 80 مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔پنجاب کے بعد بلوچستان میں میں پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کمزور ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں پی ٹی آئی کی کارکردگی نمایاں نہیں رہی۔ وہاں سیاسی منظر نامہ مختلف علاقائی اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان منقسم ہے جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نمایاں ہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی نے بلوچستان میں کوئی براہ راست نشست نہیں جیتی تھی ۔اس لیے اسے وہاں مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکیں ۔بلوچستان میں پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی نسبتاً کمزور ہے اور اس کی عوامی حمایت بھی محدود ہے وہاں حکومتی سطح پر بلوچستان عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا اتحاد زیادہ مضبوط ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے جو پارٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ صوبہ سندھ کی بات کریں تو وہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مضبوط گرفت ہے اور پی ٹی آئی کی حیثیت وہاں قدرے کمزور ہے۔ 2024 کے انتخابات کے بعد سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی موجودگی محدود ہے جس سے پی پی پی کو صوبے میں “ون پارٹی رول” جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی حمایت زیادہ تر کراچی اور حیدرآباد جیسے شہری مراکز تک محدود ہے جبکہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ مشکل ہے ۔تین صوبوں کے بعد چوتھے صوبے خیبر پختون خوا ہ(کے پی کے) کوپی ٹی آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہ واحد صوبہ ہے جہاں 2024 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے۔ اس وقت بھی پی ٹی آئی حکومت کو صوبہ میں مضبوط عوامی حمایت حاصل ہے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پارٹی صوبے کے معاملات چلا رہی ہے۔ اگرچہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن اسے مرکز سے قانونی اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کو 9 مئی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کریک ڈاؤن کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔پارٹی کو اس وقت قیادت کے انخلا، قانونی مقدمات اور مخصوص نشستوں کے خاتمے جیسے مسائل کا سامنا ہے جس نے اس کی ملک گیر سیاسی حیثیت کو متاثر کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے مستقبل میں اپنی سیاسی قوت کو دوبارہ مستحکم کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔