... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز محکمہ پولیس اور ڈی ایم جی افسران کو ترقیاں دی گئی۔ ابھی کل ہی کی بات محسوس ہوتی ہے کہ گریڈ20اور21میں ترقیاں پانے والے چند ایک افسران میرے سامنے سرکاری نوکری میں آئے اور آج اعلیٰ افسران میں انکا شمار ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ لوگ آج بھی اسی گریڈ اور سکیل میں کام کررہے ہیں جنکی بدولت ایک عام بچہ افسر بن جاتا ہے، میری مراد ہمارے اساتذہ سے ہے جو اپنی پوری مدت ملازمت میں ایک اسکیل کی بھی ترقی نہیں کرپاتے جس گریڈ میں آتے ہیں اسی میں گھر چلے جاتے ہیں ۔سوائے چند ایک اساتذہ کے یہ صرف ایک صوبے کا مسئلہ نہیں۔ بلکہ پورا ملک اپنے روحانی باپ کا استحصال کرنے میں مصروف ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان میں سرکاری تعلیمی نظام ملکی ترقی کا ایک اہم ستون ہے اور اس نظام کا دارومدار اساتذہ پر ہے۔ یہ اساتذہ لاکھوں طلباء کے مستقبل کو سنوارنے اور انہیں علم کی روشنی سے منور کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں جو پرائمری سے لے کر ہائر سیکنڈری تک تعلیم فراہم کرتے ہیں ان اسکولوں میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ کی مجموعی تعداد لاکھوں میں ہے تاہم بڑھتی ہوئی آبادی اور تعلیم کی طلب کے پیش نظر اساتذہ کی تعداد اب بھی مطلوبہ معیار سے کم نظر آتی ہے۔ خاص طور پر دور دراز اور دیہی علاقوں میں جہاں اساتذہ کی شدید کمی کا سامنا ہے اساتذہ کی تعداد میں کمی کے باعث ایک استاد کو زیادہ طلباء پڑھانانے پڑتے ہیں جس سے تدریس کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ سرکاری اساتذہ کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میںناقص مراعات اور تنخواہیں سر فہرست ہیں۔ دوسرے نمبر پر بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے ۔کئی سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات جیسے مناسب عمارتیں، فرنیچر، لیبارٹریز اور لائبریریاں موجود نہیں جو تدریسی عمل کو متاثر کرتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ترقی کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے اساتذہ کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے خاطر خواہ تربیت اور ترقی کے مواقع میسر نہیں ہوتے اوربعض اوقات اساتذہ کی بھرتی اور تقرریوں میں سیاسی مداخلت دیکھنے میں آتی ہے جس سے میرٹ متاثر ہوتا ہے۔
ماضی کے مقابلے میں اساتذہ کی سماجی حیثیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث یہ شعبہ نوجوانوں کے لیے کشش کھو چکا ہے۔ اس شعبہ میں سب سے دل شکنی والا کام ترقیوں کا نہ ہونا ہے ۔ایک ہی وقت میں ٹیچر اور سول سروس میں آنے والے کے معیار میں زمین و آسمان کا فرق آجاتا ہے۔ ایک ٹیچر ایم اے یا ایم ایس سی کرنے کے بعد ایم فل کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ 16ویں اسکیل میںٹیچر بن کر ساری عمر اسی اسکیل میں گزار کر گھر چلا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں اسی ٹیچر سے پڑھ کر گریجویشن کرنے ولابچہ سول سروس میں آتے ہی سرکاری گاڑی ،سرکاری گھر،ملازمین کی فوج اور لامحدود اختیارات کے ساتھ ترقیوں کی سیڑھی پر چھلانگیں مارتا ہوا گریڈ 20اور21تک پہنچ جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ افسران ساری عمر ریٹائر نہیں ہوتے۔60سال مدت ملازمت کے بعد پھر کسی نہ کسی ادارے میں فٹ ہو جاتے ہیں۔ یہی افسران اپنے اساتذہ کے اوپر آکر سیکریٹری لگ جاتے ہیں ۔پھر انہیں بتاتے ہیں کہ نظام تعلیم کیسے چلے گا۔اسی لیے تو آج ہم جہالت کی بلندیوں پر ہیں۔ اگر دیکھا جائے توسرکاری اساتذہ کے لیے ترقیوں کا ایک مخصوص نظام موجود ہے جو سنیارٹی اور کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن اس پرسرے سے عمل ہی نہیں ہوتا یا ہونے نہیں دیا جاتا ۔اساتذہ میں ترقیوں کا سلسلہ اگر ہوتا تو کچھ یوں ہوتا ۔پرائمری اسکول ٹیچر (PST) یہ ابتدائی گریڈ ہوتا ہے جس سے اساتذہ اپنے کیریئر کا آغاز کرتے ہیں جسکے بعدسیکنڈری اسکول ٹیچر (SST)(پرائمری اسکول ٹیچر سے ایک مخصوص مدت اور تجربے کے بعد اس گریڈ میں ترقی دی جاتی ہے)اسی طرح سبجیکٹ سپیشلسٹ/ ہیڈ ماسٹر مزید تجربے اور تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر اساتذہ کو سبجیکٹ سپیشلسٹ یا ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اساتذہ کو ترقیاں دینا ممنوع قرار دیا ہوا ہے جس سے قوم کے معماروں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو ہمارے سرکاری اداروں میں اہم سیٹوں پر بیٹھے ہوئے جاہلوں نے اساتذہ کی بے عزتی کو بھی معمول بنایا ہوا ہے، خاص کر تھانہ میں اساتذہ کی عزت افزائی کے چند مناظر نظروں سے گزرے اور دکھ ہوا۔
ہمارے بہت ہی بڑے افسانہ نگار اور مصنف اشفاق احمد کا ایک قصہ ہے وہ بھی پڑھ لیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے اپنے ٹیچرز کی عزت کیسے کرتے ہیں ۔اشفاق احمد صاحب اپنی کتاب “زاویہ” میں روم (اٹلی) میں پیش آنے والے ایک دلچسپ عدالتی واقعے کا ذکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں اٹلی میں مقیم تھے اور وہاں ٹریفک کے کسی قانون کی خلاف ورزی پرمیرا چالان ہو گیا۔ مصروفیت کی وجہ سے وہ بروقت جرمانہ ادا نہ کر سکے۔ اس تاخیر کے نتیجے میں مجھے عدالت میں پیش ہونا پڑا۔جب میں جج کے سامنے پیش ہوا تو جج نے ان سے تاخیر کی وجہ پوچھی جس پر اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک “پروفیسر” (استاد) ہیں اور اپنی مصروفیات کے باعث وقت پر جرمانہ ادا نہیں کر سکے ۔اشفاق احمد کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہونے کی دیر تھی کہ جج اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا اور بلند آواز میں کہا۔ ایک استاد عدالت میں ۔یہ سنتے ہی عدالت میں موجود تمام لوگ احتراماً کھڑے ہو گئے۔ جج نے اشفاق احمد کو کرسی پیش کی اور ان کا چالان معاف کر دیا ۔اس کے علاوہ عدالت میں لائے جانے پر ان سے معذرت بھی کی گئی جس پر اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ اس دن انہیں اس قوم کی ترقی کا راز سمجھ آیا کہ وہ لوگ استاد کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے بگڑے اور الجھے ہوئے نظام کو درست کرلیں۔ سرکاری اساتذہ کے نظام کو بہتر بنانے اور ان کی کارکردگی میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اساتذہ کو پرکشش تنخواہیں اور بہتر مراعات فراہم کی جائیں تاکہ بہترین افراد اس شعبے کی طرف راغب ہو سکیں۔ اساتذہ کے لیے باقاعدہ تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔ تاکہ وہ جدید تدریسی طریقوں سے واقف ہو سکیں اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکیں۔ ترقیوں کے نظام کو بروقت ،شفاف اور میرٹ پر مبنی بنایا جائے تاکہ اساتذہ میں اعتماد پیدا ہو ۔ سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کو بہتر بنایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔ اساتذہ کی سماجی حیثیت کو بلند کیا جائے اور انہیں معاشرے میں عزت کا مقام دیا جائے۔ آبادی کے تناسب سے اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ طلباء کو مناسب تعداد میں اساتذہ میسر آ سکیں۔ اگرا یسا نہ کیا گیا تو ہم بد سے بدترین معاشرہ بن جائیں گے کیونکہ غربت ،پسماندگی اور جہالت ہماری ہڈیوں کے اندر تک پہنچ چکی ہے۔ بے حسی میں ہم سب سے آگے ہیں تعلیم اور صحت ہماری پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔
پرائیوٹ اداروں میں علم اور علاج مشکل ہو چکا ہے۔ ان حالات میں ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے ہی ہمیں بچا سکتے ہیںجو نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ،ان کی تعداد، معیار اور انہیں ملنے والی سہولیات براہ راست ملکی ترقی اور نوجوان نسل کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اساتذہ کے درپیش مسائل کو حل کرنا، ان کی پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع فراہم کرنا اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ ایک مضبوط اور باصلاحیت تعلیمی شعبہ ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اس لیے خدارا محکمہ تعلیم میں اساتذہ کو وقت پر ترقیاں دی جائیں اور محکمہ تعلیم کے ماہرین کو ہی اس محکمہ کا سیکریٹری ،ایڈیشنل سیکریٹری اور ڈپٹی سیکریٹری لگایا جائے تاکہ ہم بھی اٹلی جیسے جج پیدا کرسکیں۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پھر انسانوں کی عدالت کے بعد ایک اور عدالت بھی ہے ۔وہ ہے اللہ کی عدالت جہاں بلاشبہ روم کی عدالت سے بڑھ کر بات سنی جائیگی۔