... loading ...
ریاض احمدچودھری
ترک صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ ایران کو دفاع کا قانونی اور جائز حق حاصل ہے۔نیتن یاہو نے مظالم میں ہٹلر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ مذاکرات ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر ایران پراسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے۔ ایران کو اپنے دفاع کا قانونی، جائز اور فطری حق حاصل ہے اور اسرائیل کی جانب سے مذاکرات ختم ہونے سے پہلے ایران پر کیا گیا حملہ کھلی دہشت گردی ہے۔صدر اردوان نے اسرائیلی وزیراعظم پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”نیتن یاہو نے اپنے مظالم میں بہت پہلے ہٹلر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔” ایران کی مزاحمت، درحقیقت اپنے ملک کے دفاع کا حق ادا کرنا ہے۔ایران جوہری مذاکرات کے دوران اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنا، جو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل خود جوہری ہتھیار رکھتا ہے اور عالمی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ ایسے میں مذاکرات مکمل ہونے سے قبل ایران پر حملہ ناقابلِ قبول دہشت گردی ہے۔
نیتن یاہو ہٹلر پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے لہٰذا، مسلمانوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور یہ وقت ہے کہ اپنے اختلافات کو ختم کرکے ایک ہو جائیں۔ متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کیخلاف آواز بلند کریں۔ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں پر حملے کر رہا ہے اور مسلسل خطے کو عدم استحکام کا شکارکر رہا ہے۔ نیتن یاہو حکومت خطے میں امن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل نے یمن، لیبیا اور شام پرجارحیت کے بعد ایران پر حملہ کر دیا ہے۔
اسرائیل کی ایران پر جارحیت کی مذمت کرتے ہیں، ترک عوام ایرانی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خطے کو مزید تباہی سے بچانا ہو گا۔ عالمی برادری اسرائیلی جارحیت رکوانے کیلئے کردار ادا کرے، اسرائیلی حملوں سے خطہ تباہی کی طرف جارہا ہے لہٰذا، اسرائیل اورایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو روکنا ہو گا۔ اسرائیل دہشتگرد ریاست ہے۔ ترک اسرائیل پورے خطے میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے اور اسرائیل کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کا حل سفارت کاری اور مذاکرات میں ہے، ہمارا خطہ مزید جنگ یا عدم استحکام برداشت نہیں کر سکتا۔او آئی سی نے فلسطین کے دو ریاستی حل کا بھی مطالبہ کرتے کہا غزہ کے عوام کا دکھ ہمارا دکھ ہے، خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا ترکیے میں 2 روزہ اجلاس میں ایران پر اسرائیلی جارحیت ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی او آئی سی اجلاس میں شریک ہیں جب کہ اجلاس میں مختلف ممالک کے 40 سے زائد سفارت کار شریک ہوئے۔
سیکریٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طحہ نے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کی ایران اور غزہ پر جارحیت کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ایران اسرائیل تنازع کا پرامن حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ اسرائیل سے متعلق او آئی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ ترک وزیر خارجہ نے پاکستان بھارت کے درمیان جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے کہا مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشا میں امن کیلئے ضروری ہے۔ ترکیہ کے صدر نے اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو سال سے اسرائیل عالمی طاقتوں کی پشت پناہی میں جارحیت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں اور غزہ میں اس وقت بھوک اور افلاس کا راج ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی موجودگی میں خطے میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ”اسرائیلی حکومت اور نیتن یاہو نے ثابت کیا ہے کہ وہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جو کوئی بھی سفارتی حل چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے اسرائیلی رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔”انہوں نے ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کو سفارت کاری کی کھلی توہین قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے ایسے وقت میں کئے گئے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات جاری تھے، جو اسرائیل کے اصل عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔ اردگان نے اپنی بات کو تاریخی مثال سے جوڑتے ہوئے کہا، ”جس طرح ہٹلر کی لگائی گئی آگ نے دنیا میں تباہی مچائی، آج اسرائیل اسی روش پر گامزن ہے اور دنیا میں شرارتیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔”
مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر تشویش ہے اسرائیلی جارحیت سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہیں۔ امت مسلمہ کو مختلف چیلنجز درپیش ہیں اسلاموفوبیا کی روک تھام ملکر اقدامات کرنا ہوں گے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں۔ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ملکر کام کرنا اہم ضرورت ہے امید ہے چینلجز سے نمٹنے کیلئے او آئی سی بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اسرائیلی جارحیت سے عالمی امن کو خطرہ ہے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل غزہ میں ہزاروں بچوں اور قوانین کو شہید کر چکا ہے غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسرائیلی اقدامات عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے پاکستان پر بلاجواز جارحیت کی اور شہریوں کو نشانہ بنایا، پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف اپنا حق استعمال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔