وجود

... loading ...

وجود

ٹک ٹاک اخلاقی گراوٹ کا ذریعہ

جمعرات 12 جون 2025 ٹک ٹاک اخلاقی گراوٹ کا ذریعہ

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

ہماری قوم کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے جدید ذرائع اور ٹیکنا لوجی کا منفی استعمال کیا۔ جس کی بدولت ہم انحطاط کی جانب مائل ہوتے جارہے ہیں۔ٹک ٹاک سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ۔ٹک ٹاک ایسی ایپلی کیشن ہے کہ اس پر نوجوان لڑکے خصوصاً لڑکیاں صرف پندرہ بیس سکینڈ کی ویڈیو جو فحاشی اور بے حیائی کی عکاسی کا منظر پیش کرتی ہے ، شیئر کرکے مشہور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور لایعنی شہرت کے دلدادہ بننا چاہتے ہیں۔اس طرح ٹک ٹاک نوجوان نسل میں نشے کی طرح پنپ رہی ہے اور انٹرنٹ پر دنیا کی مشہور ترین ایپلی کیشن بن گئی ہے ۔یہ ایپ نوجوانوں بلکہ نوجوان لڑکیوں میں اس لیے زیادہ مقبول ہے کیونکہ اس ایپ کے ذریعے آسانی سے خودنمائی کی شیطانی حرکتیں دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہیں اور صارفین کے دل لبھائے جاتے ہیں جسکے ردعمل میں صارفین کی طرف سے اس پر نازیبا کمنٹس کی بھر مار ہو جاتی ہے اور بعض صارفین لڑکیوں سے پرائیوٹ رابطہ نمبر اور نازیبا تصویروں کی فرمائش بھی کرتے ہیں۔جو اصلاح معاشرہ کے بجائے ہمارے معاشرے کو ہر نئے دن کے ساتھ بگاڑ اور تباہی کی طرف لے جارہا ہے اور معاشرے کے باشندے خاموشی سے اس بے حیائی اور بے شرمی کے سمندر میں ڈوبے جارہے ہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ٹک ٹاک کی اس لاعلاج بیماری میں صرف نوجوان لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ ادھیڑ عمر بوڑھے ،بوڑھی خواتین، بچے ، بہن بھائی،ماں باپ اور دیگر افراد بھی دیوانے ہورہے ہیں۔یہ لوگ غیر اخلاقی اور غیر سنجیدہ وڈیوز بناکر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں، جس سے بیہودگی اور فحاشی زیادہ بڑھ رہی ہے ۔ٹک ٹاک پر ایسی ویڈیو شیئر ہو رہی ہیں جس میں تعلیمی اداروں میں چھوٹی عمر کے طلباء اور طالبات کلاس روم میں ڈانس کر رہے ہیں اور تعلیمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔باپ کے ساتھ یا موجودگی میں کم سن لڑکیاں اور لڑکے ناچ رہے ہیں اور والدین فخر کر رہے ہیں۔
نوجوان نسل میں ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے اور اس میں ایڈونچر شامل کرنے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے ،تاکہ لائکس کمنٹس ویوز زیادہ ملیں۔ٹک ٹاک پر آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں ویڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا،ویڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا،
سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا،ریل کی پٹری پر ویڈیو بنانا اور حادثاتی طور پر ٹرین کی زد میں آ جانا،ٹک ٹاک کے ویوز لائک کمنٹس کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے انتقامی کارروائی کرنا۔
اگر پورے ملک میں مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو کئی لوگ نہروں میں، سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگاتے ہوئے حادثات کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔غرض یہ کہ لوگ ٹک ٹاک ایپ پر کسی مثبت سرگرمی کے بجائے خطرات سے کھیلنے کی ویڈیو زیادہ بناتے ہیں۔ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے کے باعث ملک بھر میں لڑکیوں سمیت درجنوں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ٹک ٹاک کو بیشتر صارفین تفریح اور شغل کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایپلی کیشن نوجوان نسل کی تباہی کا ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو غیر ارادی طور پر ان کے ذہنی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا سبب بھی بنتا جا رہا ہے ۔ٹک ٹاک صارفین اپنا زیادہ تر وقت ویڈیوز اپلوڈ کرنے اور دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جس سے ان کا تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو سکتا ہے ۔اسمارٹ سوشل ویب سائٹ کے مطابق ٹک ٹاک کی طرف نوجوان نسل کے بڑھتے ہوئے رجحان میں اہم ترین نقصان میں ‘ٹک ٹاک ایڈکشن’ عادت ہے جو بری طرح ان کی صحت اور دیگر مثبت سرگرمیوں کو روند ڈالتا ہے ۔
ٹک ٹاک ایڈکشن کی بدولت کم عمر صارفین اپنی صحت، کھانا کھانے ، اور تعلیمی سرگرمیوں پر کم توجہ دیتے ہیں جس سے ان کی مزاج میں اضطراب کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے ۔ ڈانس، موسیقی اور بیہودہ ڈائیلاگ کے امتزاج سے بننے والی یہ چند سیکنڈ کی ویڈیوز نئی نسل کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ٹک ٹاک کو دور حاضر کا خطرناک فتنہ کہا جا سکتا ہے ۔یہ بات ایک کڑوی سچائی ہے کہ موجودہ دور میں کچھ لڑکیاں شہرت کی چمک دمک کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنی عزت، وقار اور دینی حدود کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا خصوصاً ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر نام کمانے کی خواہش انہیں ایسے راستوں پر لے جاتی ہے جہاں عزت، حیا اور حفاظت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورت کو سب سے قیمتی مقام عطا کیا ہے ۔ عزت، حیا اور تحفظ کی چادر میں لپٹا ہوا ایک عظیم مقام، جب کوئی ان حدود کو توڑ کر بے راہ روی اختیار کرتی ہے ، تو وہ نہ صرف اپنے لیے خطرات کو دعوت دیتی ہے بلکہ معاشرے میں فساد اور بے حیائی کے دروازے بھی کھولتی ہے ۔ پھر انجام اکثر افسوسناک اور عبرتناک ہوتا ہے ، چاہے وہ قتل ہو، بدنامی ہو یا تنہائی۔ ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ایسا انجام درست ہے یا غلط، بلکہ اس بنیادی حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ جب انسان اپنے خالق کے قوانین کو پامال کرتا ہے ، تو وہ خود کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، دوستوں کی فہرستوں، اور روزانہ کی سرگرمیوں کا باقاعدگی سے جائزہ لیں، پیغامات، تصاویر اور پوسٹس کی نگرانی کر کے کسی بھی مشکوک یا غیر معمولی سرگرمی کا فوری ادراک ممکن بنائیں، سوشل میڈیا کے استعمال، درپیش چیلنجز اور آن لائن تنازعات پر باقاعدگی سے گفتگو کریں تاکہ ان کا شعور بڑھے اور وہ محفوظ رہ سکیں۔والدین یہ سب جاننے کے باوجود بھی کیوں اپنے نونہالوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچارہے ہیں۔ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے فخر کرتے ہیں اور جب کوئی نا قابل یقین اندوہناک واقعہ ہوتا ہے تو سوائے پچھتاوے ،دَرْد و اَلَم اور ماتم کے کچھ نہیں ہوتا ہے ۔ہمارے نوجوان جو موبائل فون میں گم ہیں۔ یقینا موبائل فون انقلاب ضرور لایا ۔نوجوانواں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار بھی موبائل فون کا ہی ہے ۔معاشرتی اقدار کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے ۔ٹک ٹاک ناسور ہے ۔شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ پہلے بھی حکومت کئی مرتبہ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرچکی ہے اور اب جب اس قسم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو حکومت کو اس پر مستقل پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔
والدین اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو ٹک ٹاک معاشرتی برائی سے بچانے کے لئے چوکس رہیں اور اس وباء کو روکنے کے لئے ممکن اقدامات کریں۔اسکول اور کالجوں میں اساتذہ کرام اگر تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک کے نقصانات اور اس کے نتائج پر بات کریں تو کافی حد تک قوم کے بچوں اور بچیوں کی جسمانی، نفسیاتی اور تعلیمی مستقبل کو سدھارا جا سکتا ہے ۔ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس کا استعمال اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کرتا ہے ۔ ٹک ٹاک اسلام اور ہماری ثقافت ختم کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کررہا ہے جو ہماری حیا ء کو بھی ختم کررہا ہے ۔
اعدادو شمار کے مطابق 16سے 24سال کی عمر کے نوجوان اوسطاً یومیہ54منٹ ٹک ٹاک پر لگاتے ہیں، روزانہ رات کو 3بجے تک ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھتے ہیں جس کے باعث ان کے مارکس کم آرہے ہیں۔یہ پلیٹ فارم معلومات کے مقصد کیلئے صحیح نہیں ہے ، معاشرے میں ٹک ٹاک کا 10فیصد مثبت اور 90فیصد منفی استعمال ہو رہا ہے ۔نوجوان جب ٹک ٹاک بنانا شروع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں میرے کتنے فالوورز اور ویوورز ہیں ا س سے ان میں فالورز بڑھانے کا نفسیاتی دباؤ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور جنریشن گیپ آرہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ڈرائنگ رومز اور واٹس ایپ جرنیلوں کے نام وجود جمعه 13 جون 2025
ڈرائنگ رومز اور واٹس ایپ جرنیلوں کے نام

لیلا بجٹ وجود جمعه 13 جون 2025
لیلا بجٹ

مقبوضہ وادی میں ''چھوٹا بازار'' قتل عام وجود جمعرات 12 جون 2025
مقبوضہ وادی میں ''چھوٹا بازار'' قتل عام

ٹک ٹاک اخلاقی گراوٹ کا ذریعہ وجود جمعرات 12 جون 2025
ٹک ٹاک اخلاقی گراوٹ کا ذریعہ

مہذب ۔۔۔غیر مہذب!!s وجود جمعرات 12 جون 2025
مہذب ۔۔۔غیر مہذب!!s

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر