... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
ہماری قوم کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے جدید ذرائع اور ٹیکنا لوجی کا منفی استعمال کیا۔ جس کی بدولت ہم انحطاط کی جانب مائل ہوتے جارہے ہیں۔ٹک ٹاک سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ۔ٹک ٹاک ایسی ایپلی کیشن ہے کہ اس پر نوجوان لڑکے خصوصاً لڑکیاں صرف پندرہ بیس سکینڈ کی ویڈیو جو فحاشی اور بے حیائی کی عکاسی کا منظر پیش کرتی ہے ، شیئر کرکے مشہور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور لایعنی شہرت کے دلدادہ بننا چاہتے ہیں۔اس طرح ٹک ٹاک نوجوان نسل میں نشے کی طرح پنپ رہی ہے اور انٹرنٹ پر دنیا کی مشہور ترین ایپلی کیشن بن گئی ہے ۔یہ ایپ نوجوانوں بلکہ نوجوان لڑکیوں میں اس لیے زیادہ مقبول ہے کیونکہ اس ایپ کے ذریعے آسانی سے خودنمائی کی شیطانی حرکتیں دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہیں اور صارفین کے دل لبھائے جاتے ہیں جسکے ردعمل میں صارفین کی طرف سے اس پر نازیبا کمنٹس کی بھر مار ہو جاتی ہے اور بعض صارفین لڑکیوں سے پرائیوٹ رابطہ نمبر اور نازیبا تصویروں کی فرمائش بھی کرتے ہیں۔جو اصلاح معاشرہ کے بجائے ہمارے معاشرے کو ہر نئے دن کے ساتھ بگاڑ اور تباہی کی طرف لے جارہا ہے اور معاشرے کے باشندے خاموشی سے اس بے حیائی اور بے شرمی کے سمندر میں ڈوبے جارہے ہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ٹک ٹاک کی اس لاعلاج بیماری میں صرف نوجوان لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ ادھیڑ عمر بوڑھے ،بوڑھی خواتین، بچے ، بہن بھائی،ماں باپ اور دیگر افراد بھی دیوانے ہورہے ہیں۔یہ لوگ غیر اخلاقی اور غیر سنجیدہ وڈیوز بناکر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں، جس سے بیہودگی اور فحاشی زیادہ بڑھ رہی ہے ۔ٹک ٹاک پر ایسی ویڈیو شیئر ہو رہی ہیں جس میں تعلیمی اداروں میں چھوٹی عمر کے طلباء اور طالبات کلاس روم میں ڈانس کر رہے ہیں اور تعلیمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔باپ کے ساتھ یا موجودگی میں کم سن لڑکیاں اور لڑکے ناچ رہے ہیں اور والدین فخر کر رہے ہیں۔
نوجوان نسل میں ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے اور اس میں ایڈونچر شامل کرنے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے ،تاکہ لائکس کمنٹس ویوز زیادہ ملیں۔ٹک ٹاک پر آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں ویڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا،ویڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا،
سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا،ریل کی پٹری پر ویڈیو بنانا اور حادثاتی طور پر ٹرین کی زد میں آ جانا،ٹک ٹاک کے ویوز لائک کمنٹس کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے انتقامی کارروائی کرنا۔
اگر پورے ملک میں مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو کئی لوگ نہروں میں، سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگاتے ہوئے حادثات کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔غرض یہ کہ لوگ ٹک ٹاک ایپ پر کسی مثبت سرگرمی کے بجائے خطرات سے کھیلنے کی ویڈیو زیادہ بناتے ہیں۔ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے کے باعث ملک بھر میں لڑکیوں سمیت درجنوں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ٹک ٹاک کو بیشتر صارفین تفریح اور شغل کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایپلی کیشن نوجوان نسل کی تباہی کا ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو غیر ارادی طور پر ان کے ذہنی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا سبب بھی بنتا جا رہا ہے ۔ٹک ٹاک صارفین اپنا زیادہ تر وقت ویڈیوز اپلوڈ کرنے اور دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جس سے ان کا تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو سکتا ہے ۔اسمارٹ سوشل ویب سائٹ کے مطابق ٹک ٹاک کی طرف نوجوان نسل کے بڑھتے ہوئے رجحان میں اہم ترین نقصان میں ‘ٹک ٹاک ایڈکشن’ عادت ہے جو بری طرح ان کی صحت اور دیگر مثبت سرگرمیوں کو روند ڈالتا ہے ۔
ٹک ٹاک ایڈکشن کی بدولت کم عمر صارفین اپنی صحت، کھانا کھانے ، اور تعلیمی سرگرمیوں پر کم توجہ دیتے ہیں جس سے ان کی مزاج میں اضطراب کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے ۔ ڈانس، موسیقی اور بیہودہ ڈائیلاگ کے امتزاج سے بننے والی یہ چند سیکنڈ کی ویڈیوز نئی نسل کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ٹک ٹاک کو دور حاضر کا خطرناک فتنہ کہا جا سکتا ہے ۔یہ بات ایک کڑوی سچائی ہے کہ موجودہ دور میں کچھ لڑکیاں شہرت کی چمک دمک کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنی عزت، وقار اور دینی حدود کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا خصوصاً ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر نام کمانے کی خواہش انہیں ایسے راستوں پر لے جاتی ہے جہاں عزت، حیا اور حفاظت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورت کو سب سے قیمتی مقام عطا کیا ہے ۔ عزت، حیا اور تحفظ کی چادر میں لپٹا ہوا ایک عظیم مقام، جب کوئی ان حدود کو توڑ کر بے راہ روی اختیار کرتی ہے ، تو وہ نہ صرف اپنے لیے خطرات کو دعوت دیتی ہے بلکہ معاشرے میں فساد اور بے حیائی کے دروازے بھی کھولتی ہے ۔ پھر انجام اکثر افسوسناک اور عبرتناک ہوتا ہے ، چاہے وہ قتل ہو، بدنامی ہو یا تنہائی۔ ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ایسا انجام درست ہے یا غلط، بلکہ اس بنیادی حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ جب انسان اپنے خالق کے قوانین کو پامال کرتا ہے ، تو وہ خود کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، دوستوں کی فہرستوں، اور روزانہ کی سرگرمیوں کا باقاعدگی سے جائزہ لیں، پیغامات، تصاویر اور پوسٹس کی نگرانی کر کے کسی بھی مشکوک یا غیر معمولی سرگرمی کا فوری ادراک ممکن بنائیں، سوشل میڈیا کے استعمال، درپیش چیلنجز اور آن لائن تنازعات پر باقاعدگی سے گفتگو کریں تاکہ ان کا شعور بڑھے اور وہ محفوظ رہ سکیں۔والدین یہ سب جاننے کے باوجود بھی کیوں اپنے نونہالوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچارہے ہیں۔ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے فخر کرتے ہیں اور جب کوئی نا قابل یقین اندوہناک واقعہ ہوتا ہے تو سوائے پچھتاوے ،دَرْد و اَلَم اور ماتم کے کچھ نہیں ہوتا ہے ۔ہمارے نوجوان جو موبائل فون میں گم ہیں۔ یقینا موبائل فون انقلاب ضرور لایا ۔نوجوانواں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار بھی موبائل فون کا ہی ہے ۔معاشرتی اقدار کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے ۔ٹک ٹاک ناسور ہے ۔شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ پہلے بھی حکومت کئی مرتبہ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرچکی ہے اور اب جب اس قسم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو حکومت کو اس پر مستقل پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔
والدین اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو ٹک ٹاک معاشرتی برائی سے بچانے کے لئے چوکس رہیں اور اس وباء کو روکنے کے لئے ممکن اقدامات کریں۔اسکول اور کالجوں میں اساتذہ کرام اگر تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک کے نقصانات اور اس کے نتائج پر بات کریں تو کافی حد تک قوم کے بچوں اور بچیوں کی جسمانی، نفسیاتی اور تعلیمی مستقبل کو سدھارا جا سکتا ہے ۔ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس کا استعمال اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کرتا ہے ۔ ٹک ٹاک اسلام اور ہماری ثقافت ختم کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کررہا ہے جو ہماری حیا ء کو بھی ختم کررہا ہے ۔
اعدادو شمار کے مطابق 16سے 24سال کی عمر کے نوجوان اوسطاً یومیہ54منٹ ٹک ٹاک پر لگاتے ہیں، روزانہ رات کو 3بجے تک ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھتے ہیں جس کے باعث ان کے مارکس کم آرہے ہیں۔یہ پلیٹ فارم معلومات کے مقصد کیلئے صحیح نہیں ہے ، معاشرے میں ٹک ٹاک کا 10فیصد مثبت اور 90فیصد منفی استعمال ہو رہا ہے ۔نوجوان جب ٹک ٹاک بنانا شروع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں میرے کتنے فالوورز اور ویوورز ہیں ا س سے ان میں فالورز بڑھانے کا نفسیاتی دباؤ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور جنریشن گیپ آرہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔