... loading ...
جاوید محمود
سنگاپور میں شنگری لا ڈائلا سیکیورٹی فارم کے موقع پر دو بین الاقوامی میڈیا تنظیموں کو دانشتا اور حسابی انٹرویو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہندوستان کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان نے جنگ کے پہلے دن ہندوستانی فضائی اثاثوں کے نقصان کا اعتراف کر کے عالمی سطح پر اپنا مقام بنایا ہے جبکہ نقصانات کا اندازہ کیے بغیر انہیں سوشل میڈیا پر حکمران بی جی پی کے ساتھ منسلک دائیں بازو کے ٹرولوں کے ذریعے شیطانی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت پاکستانی فوج اوران کی جنگی صلاحیتوں سے خوفزدہ رہتا ہے۔ بھارت مسلسل ہتھیاروں کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔ اس نے 2025اور 2026 کے دفاعی بجٹ میں ریکارڈ 9.53 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے کیونکہ بھارت اپنی ایم او ڈی ہندوستانی وزارت دفاع مسلح افواج کو جدید بنانے اور بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی خطرات کے خلاف دفاعی پیداوار کو مقامی بنانا چاہتا ہے ۔اس کے باوجود ہندوستان ہتھیاروں کا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کندہ ہے جس کا انحصار فرانس روس اور امریکہ پر اس کے اہم سپلائرز کے طور پر ہے۔ حال ہی میں 4فروری کو ہندوستانی وزیر دفاع راجیش کمار نے اپنے ہم منصب کے ساتھ ماسکو سے اینٹی شپ کروزمیزائلوں کی خریداری کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔بھارت کو اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر کشیدگی کا سامنا ہے۔ مغرب کے نزدیک پاکستان اور بھارت کشمیر کے علاقے پر کنٹرول کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کی بحریہ اگلے عشرے میں 50جہازوں پر مشتمل فورس بنانے کے عزائم رکھتی ہے۔ مشرق میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں نے اپنی مشترکہ اور متنازع 3,440کلومیٹر سرحد پر جھڑپیں کی ہیں۔ چین بحیرۂ ہند اور بحرجنوبی چین میں بھی تیزی سے جارحانہ کردار ادا کر رہا ہے ۔اب توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ہندوستان کا اہم او ڈی اس جغرافیائی سیاسی منظر نامے کے درمیان کن پروکیورمنٹ پروگراموں کو ترجیح دے۔ ایک اہم توجہ کا مرکز جس میں ہوا بازی اوردفاع یو اے وی ایس کا اور مقامی بنانے کی طرف دھکیلے گا توقع ہے کہ بغیر کریوڈ ایرل وہیکلز میں حکومتی وزراء نے پہلے ہندوستان کو 2030 تک عالمی ڈرون مرکز بننے کا مطالبہ کیا تھا۔ انڈیا کی وزارت دفاع نے جدید ترین ففتھ جنریشن اسٹیلتھ جنگی طیارے ملک میں بنانے کی منظوری دیتے ہوئے دفاعی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ ان جنگی طیاروں کی پروٹو ٹائپ بنانے کے لیے اظہار دلچسپی کی دستاویزات جمع کروائیں۔ فضائی جنگ کے لیے انتہائی کارآمد فائٹر جیٹ فی الحال صرف امریکہ روس اور چین ہی تیار کر رہے ہیں ۔
انڈین دفاعی ماہرین کے مطابق انڈین فضائیہ کی جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنے کا یہ ایک بڑا منصوبہ ہے اور اس منصوبے میں پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی نمایاں خصوصیت اسٹیلتھ ٹیکنالوجی ہے جو طیارے کی ریڈار کراس سکشن اور حرارت کے ذریعے شناخت کو کم کرتی ہے جس کی وجہ سے طیارے کی موجودگی کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان طیاروں میں ہتھیاروں کے نظام کو حرکت کرنے کی صلاحیت مینور ایبلٹی اور مسلسل سپر سونک پرواز جیسے شعبوں میں بھی نمایاں ترقی ہوتی ہے۔ اس طیارے کا ڈیزائن اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ ریڈار ویوز کو منتشر کر دے جبکہ ریڈار جذب کرنے والے مواد یا کمپوزٹ مٹیریل ریڈار سگنل کی جانب کر کے طیارے کا مکمل عکس واپس بھیجنے سے روکتے ہیں جس سے ریڈار سسٹم کے لیے طیارے کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے ۔یہ تمام خصوصیات جیسے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی جدید مینور ایبلٹی چالاکی سے حرکت کرنے کی صلاحیت اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار مل کرففتھ جنریشن کے جنگی طیاروں کو نہایت خطرناک بنا دیتی ہیں جنہیں تلاش کرنا اور نشانہ بنانا جدید ترین ٹیکنالوجی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ فوجی ٹکراؤ میں فضائیہ کی پرائمسی یا مستقبل کی لڑائی میں فضائیہ اور جنگی طیاروں کی اہمیت واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستانی طیاروں نے انڈین رفعال طیاروں سمیت چھ طیارے مار گرائے تھے ۔اس حالیہ ٹکراؤ میں بنیادی طور پر دونوں ملکوں کی فضائیہ شامل تھیں۔ اس چار دن کی لڑائی میں جنگی جہاز ڈرون میزائلوں اور ایئر ڈیفنس سسٹم کا استعمال کیا گیا ۔دونوں ملکوں کے پاس اس وقت جو جنگی جہاز ہیں، وہ فورتھ یا فور اینڈ ہاف جنریشن کے جہاز ہیں بظاہر اب حکام کی جو توجہ ہوگی وہ فضائیہ پر مرکوز ہوگی ۔اسٹیلتھ فائٹر جیٹ کا منصوبہ بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے اور زمینی فوج کی اہمیت محدود ہو گئی ہے۔ دوسری جانب دفاعی تجریہ کار کہتے ہیں کہ ففتتھ جنریشن ایئر کرافٹ کی اہمیت انڈیا کے لیے اس لیے اب بہت زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ چین نے پاکستان کو ففتتھ جنریشن اسٹیلتھ جے 35 اے فائٹر جیٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ جنگی طیارے پاکستان کے پاس ہوں گے اور یہ پہلی بار ہوگا جب اس طرح کا اسٹیلتھ جنگی جہاز انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا حصہ ہوگا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ انڈین فضائیہ کے لیے ایک مشکل صورتحال ہوگی اور یہ دونوں ممالک میں فضائیہ کے توازن کو پاکستان کے حق میں کر دے گا ۔دوسری جانب انڈیا کے پاس ففتھ جنریشن جہاز نہیں ہے۔ انڈیا نے جس اسٹیلتھ فائٹر کے پروجیکٹ کی اب منظوری دی ہے اس کا پروٹو ٹائپ یعنی تجرباتی ماڈل 2028 میں تیار ہونا ہے۔ اسٹلتھ جہاز کا پروجیکٹ خود انحصاری کے لیے ایک اچھی سوچ ہے لیکن اس وقت جو حالات ہیں وہ اس کے لیے نہیں ہیں ۔آپریشن سندور کے بعد اس وقت صرف جنگ بندی ہے امن قائم نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ان حالات میں انڈیا کو بہت جلد ففتھ جنریشن جنگی جہاز باہر سے خریدنا پڑے گا کیونکہ انڈین منصوبے کے مطابق انڈیا میں بنانے والے طیارے آئندہ 10برس میں دستیاب ہوں گے۔ اسٹیلتھ فائٹر کا پروجیکٹ طویل عرصے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔یہ پروجیکٹ انڈیا کے لیے بہت بڑا چیلنج بھی ہے کیونکہ انڈیا میں سب سے بڑا مسئلہ انجن کا ہے۔ ابھی انڈیا میں نہ تو جنگی طیارے کا کوئی انجن بنا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں بننے کی کوئی امید ہے ۔انڈیا میں انجن بنانے کی دو سال پہلے امریکہ سے بات چیت ہوئی تھی لیکن وہ بات چیت بھی اب کمزور پڑ چکی ہے۔ انڈیا کے ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کے اس منصوبے میں ابھی کافی وقت لگے گا اور اس میں بین الاقوامی ایروناٹیکل کمپنیوں کا بھی کردار رہے گا۔ یاد رہے کہ چند مہینے قبل وزیراعظم مودی کے امریکہ کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ انڈیا کو جے 35فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔ انڈیا نے جہاز کے لیے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ اس کے بارے میں انڈیا کی فضائیہ میں تحفظات ہیں ایک تو یہ جہاز بہت مہنگا ہے اور اس کی ایک گھنٹے کی پرواز پر تقریبا 30لاکھ انڈین روپے خرچ ہوتے ہیں ۔دوسرا اس کی دیکھ بھال کے لیے فضائیہ کو الگ سے انتظام کرنا پڑے گا۔ چین جنگی طیاروں کی تیاری میں ایک قدم آگے نکل گیا ہے اور اب چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے سکستھ جنریشن ڈبل انجن کا فائٹر جیٹ بھی بنا لیا ہے جس کی تجرباتی پرواز گزشتہ سال دسمبر میں کی گئی تھی۔ انڈیا اپنے فضائی دفاع کو بہتر کرنے کے لیے ایک سے دو برس کے اندر تقریبا ً500ملین ڈالر مالیت کے ڈرون خرید نے کی تیاری کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈیا اور پاکستان میں اگر کوئی لڑائی ہوئی تو اب ڈرون کا اتنا رول نہیں ہوگا ۔اصل لڑائی دونوں ملکوں کی فضائیہ کے درمیان ہوگی۔ آپریشن سندور میں ڈرونز کا کردار زیادہ تھا۔ دونوں ملکوں کی فضائیہ کے درمیان صرف ایک رات لڑائی ہوئی تھی لیکن بڑی لڑائی کی صورت میں جنگ فضائیہ کے درمیان ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس چار روزہ جنگ میں بھارت شکست کھانے کے بعد بوکھلا گیا ہے اور وہ جدید اسلحہ اور طیاروں کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔ کوئی اس سے پوچھے اگر وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو وہ آخر پاکستانی پائلٹ کہاں سے لائے گا جو جنگ میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔