... loading ...
آواز
۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی
نیا وفاقی بجٹ ابھی پیش نہیں ہوا لیکن خوف و ہراس اتناہے کہ عوام کو ابھی سے بجٹ بخار چڑھاگیاہے ۔ شنیدہے کہ حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھتی جارہی ہے ۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ مصنوعی دعوؤں سے معیشت میں بہتری نہیں لائی جاسکتی۔ اس کے لئے عملی اقدامات کرناپڑتے ہیں ۔اشرافیہ کو قربانیاں دیناپڑتی ہیں پھربھی نہ جانے کیوں ہمارے لنڈے کے دانشور فلسفہ بگھاڑرہے ہیں کہ اس کا عوام پر کوئی ا ثر نہیں پڑے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے نوید سنائی کہ اب ہر کوئی مان رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری آچکی ہے، آنے والے بجٹ میں ایسی اصلاحات لا رہے ہیں جس سے ملک آگے بڑھ سکے گا۔ حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بہتری صرف اشرافیہ کے حالات میں آئی ہے ۔شاعر ِ انقلاب حبیب جالب نے تو بہت عرصہ پہلے بتادیا تھا
حالات وہی ہیں فقیروں کے
دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے
ہربلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اکثرکہاجاتاہے کہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف تیارکرتی ہے ۔بلاشبہ مقروض ملکوںکی معیشت اور عوام کے ساتھ یہی سلوک ہوتاہے۔ کیونکہ قرض عزت، غیرت،حمیت اور خودمختاری پر سب سے پہلے کاری ضرب لگاتی ہے ۔پاکستان چونکہ ایک طویل عرصہ سے غیر ملکی قرضوں کے مایہ جال میں پھنسا ہوا ہے۔ اس لئے جب تلک قرضوںسے جان نہیں چھوٹتی ترقی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے ہر سال ایک کروڑ سے زائد پاکستانی خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہورہے ہیں اور ملک کی ظالم اشرافیہ ان کی بے بسی اور بے کسی کا تماشا دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہی ہے۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان کیلئے ہمیشہ غریب طبقے نے قربانیاں دیں عوام متحد ہو جائیں تو وہ طبقہ جو ٹیکس نہیں دیتا۔ اس کو اب ٹیکس دینے پر مجبور کیا جاسکتاہے کیونکہ وڈیروں اور اشرافیہ کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ۔اب اشرافیہ کی باری ہے کے نعرے کو فروغ دیناہوگا کیونکہ آج پاکستان بدترین اقتصادی حالات سے گزررہاہے ۔اس کے باوجود اشرافیہ ا پنی مراعات میں کمی یا اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ یہی اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ بہرحال وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے بجٹ مذاکرات کامیاب رہے ہیں جس سے معیشت کیلئے نئی ترقیاتی منزل کا راستہ ہموار ہوا ہے جبکہ اصل صورت ِ حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف مزید مطالبات سامنے آگئے ۔یہ لوگ مطمئن ہی نہیں ہورہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں تمام طے شدہ شرائط پر عملدر آمد کیا جائے، صوبائی حکومتیں اخراجات کم کرنے کے اقدامات کی تحریری ضمانت دیں۔ صوبائی حکومتیں بجٹ میں کاروبار کا ماحول بہتر بنانے کے اقدمات کو یقینی بنائیں ۔بجلی اور گیس پر کوئی سبسڈی فراہم نہ کریں، صوبائی حکومتوں کو رائٹ سائزنگ کر کے نئی ملازمتوں پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ طے کردہ اہداف پر پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ان کا حصول یقینی بنایا جائے۔ بجلی، گیس چوری اور اسمگلنگ روکنے کیلئے وفاق اور صوبے مل کر عملی اقدامات کریں۔ آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ صوبے زرعی آمدن اور خدمات پر ٹیکس وصولی کیلئے لائحہ عمل کو بجٹ کا حصہ بنائیں ۔ادھرسالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی نے آئندہ مالی سال2025ـ26 کیلئے1000ارب روپے مالیت کے وفاقی ترقیاتی بجٹ، معاشی ترقی کا ہدف4.2 فیصد مقرر کرنے اور دیگر اہم معاشی اہداف کی منظوری دیدی ہے ۔پاکستانی معیشت کے خدو خال یہ ہیں کہ بجٹ کی نصف سے زائد رقم قرضوں کی ادائیگی میں چلی جائے گی جس ے ترقیاتی کام شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے اسی لئے حکومت 118سے زائد غیر ضروری منصوبے بند کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔بھارت کی جانب سے پانی بند کرنے کی دھمکی کے باوجود حکومت نے پانی کے شعبے کا بجٹ 45 فیصد یا 119 ارب روپے کم کر کے محض 140 ارب روپے تجویز کیا ہے جو انتہائی خوفناک ہے۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر اور بیرونِ ملک پاکستانیوں سے 39 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر کی توقع ہے ۔ وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کیلئے بیرون ملک سے270 ارب قرض لے گی۔ اس کے علاوہ چاروں صوبے اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں82ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیں گے۔ پنجاب حکومت ترقیاتی منصوبوں پر1190 ارب خرچ کریگی۔ بہرحال نئے وفاقی بجٹ میں مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی پر 6 ہزار 200 ارب روپے خرچ ہوں گے، جو بجٹ خسارے کے برابر ہیں۔ بجٹ خسارے کا ہدف بھی یہی 6200 ارب روپے رکھا گیا ہے۔آئی ایم ایف کی سخت شرائط اورمالی مشکلات کے پیش نظر حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 5 سے 7.5 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔ اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تنخواہوں اور پنشن میں10فیصدتک اضافہ کیا جائے ۔اس تجویز سے آئی ایم ایف کو بھی آگاہ کیا گیا ہے مسلح افواج کے لئے اضافی مراعات دینے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں جن میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ شامل ہے۔ دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ دوسری جانب تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے نسبتاً کم فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے لئے صرف 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کے لیے 14 ارب 30 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کے لئے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے، جسے معیشت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF ) انکم ٹیکس کی شرح کم کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے جس سے تمام سلیبز پر انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کا امکان ہے، انکم ٹیکس ایکٹ کی شق 129 میں ترمیم زیر غور ہے، سالانہ ٹیکس فری آمدن کی حد 6 لاکھ سے بڑھائی جا سکتی ہے ۔ ماہانہ 83 ہزار روپے تنخواہ تک ٹیکس فری کرنے پر اتفاق ہوا جس سے ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس 5 فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد ہونے کا امکان ہے جبکہ عوام کے لئے ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ ملک بھر کے بجلی صارفین کو مالی سال 2025ـ26میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ آٹھوں سرکاری ڈسکوز گیپکو، میپکو، کیسکو، سیپکو، حیسکو، پیسکو، ٹیسکو اور ہزیکو نے مالی سال 2025ـ26کیلئے عبوری ریونیو تقاضے پیش کئے ہیں جن کی مجموعی مالیت کھربوں روپے تک پہنچتی ہے ۔تمام سرکاری بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے نیپرا سے اربوں روپے کی اضافی رقوم صارفین سے وصول کرنے کی اجازت مانگ لی ہے۔ بہرحال عوام یہ چاہتے ہیں بجٹ کی کوئی نہ کوئی کل سیدھی ہونی چاہیے تاکہ عام آدمی کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملنا چاہیے ۔نیا وفاقی بجٹ ابھی پیش نہیں ہوا لیکن خوف و ہراس اتناہے کہ عوام کو ابھی سے بجٹ بخار چڑھاگیاہے ۔شنیدہے کہ حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ مصنوعی دعوؤں سے معیشت بہتر نہیں لائی جاسکتی۔ اس کیلئے عملی اقدامات کرناپڑتے ہیں ۔اشرافیہ کو قربانیاں دیناپڑتی ہیں پھربھی نہ جانے کیوں ہمارے لنڈے کے دانشور فلسفہ بگھاڑرہے ہیں کہ اس کا عوام پر کوئی ا ثر نہیں پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔