... loading ...
ریاض احمدچودھری
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے کہا ہے کہ جی سیون اجلاس میں بھارت کو نہ بلایا جانا عالمی سطح پر بڑی سفارتی ناکامی ہے۔ جب آسٹریلیا، برازیل، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور یوکرین جیسے ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا گیا ہے تو ہندوستان کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کو عالمی سطح پر شدید سفارتی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 2014 سے پہلے جی 7 کو جیـ8 کہا جاتا تھا کیونکہ روس بھی اس کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ان اجلاسوں میں مدعو کیا جاتا تھا اور ان کی تجاویز کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔
کینیڈا 15 سے 17 جون تک البرٹا صوبے میں ہونے والے جی سیون سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں روسـیوکرین تنازعہ اور مغربی ایشیا کی صورت حال سمیت دنیا کو درپیش اہم چیلنجز پر غور کیا جائے گا۔ چھ سالوں میں پہلی بار، وزیر اعظم نریندر مودی کے جی سیون سربراہی اجلاس میں شرکت کا امکان نہیں ہے۔روایتی طور پر، میزبان ملک کا مہمانوں کے دعوت نامے، ایجنڈے کی ترتیب، اور سربراہی اجلاس کا لہجہ طے کرنے کا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے، جس سے وہ اس تقریب کو اپنی ترجیحات اور خارجہ پالیسی کے مقاصد کے مطابق بنا سکے۔بھارت کو اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اعلیٰ سطحی دورے کے اشارے بھی نہیں ملے ہیں، جس سے ایسا لگتا ہے کہ بھارت کینیڈا میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے گزشتہ ماہ متعدد مواقع پر کہا تھا کہ جی سیون سربراہی اجلاس کے لیے وزیر اعظم مودی کے کینیڈا کے دورے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ماضی میں، وزیر اعظم مودی نے مسلسل چھ سال تک جی سیون سربراہی کانفرنس میں شرکت کی ہے، یہ پہلی بار ہے کہ بھارت اس تقریب سے غیر حاضر رہے گا۔
جی سیون دنیا کی سب سے زیادہ صنعتی معیشتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور کینیڈا کا ایک غیر رسمی گروپ ہے۔ آئندہ سربراہی اجلاس میں چند دیگر ملکوں کے ساتھ ہی یورپی یونین، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے منگل کو دعویٰ کیا کہ بھارت کو کینیڈا میں جی سیون اجلاس میں مدعو نہ کرنا امریکہ کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ”ثالثی” کی اجازت دینے کی غلطی کے بعد ملک کے لیے ”ایک اور بڑا سفارتی دھچکا” ہے۔
جون 2023 میں کینیڈا میں خالصتانی علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد سے بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس وقت کے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ لیکن بھارت نے سختی سے تردید کی تھی اور اس الزام کو ”بے بنیاد” قرار دیا تھا۔اس واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی سردمہری آگئی ہے۔گزشتہ ہفتے 25 مئی کو کینیڈا کی نئی وزیر خارجہ انیتا آنند نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ فون پر بات چیت کی۔ مارک کارنی کے کینیڈا کے انتخابات جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے بعد دہلی اور اوٹاوا کے درمیان یہ پہلا باضابطہ سیاسی سطح کا رابطہ تھا، جس سے تعلقات میں دوبارہ بحالی کی امیدیں پیدا ہوئیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ اگر دعوت دی گئی تب بھی مودی غالباً مذکورہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، خاص طور پر جب بھارت کو یقین نہیں کہ کینیڈا کی نئی حکومت، خالصتان تحریک کی سرگرمیوں پر بھارتی خدشات کو سنجیدگی سے لے گی یا نہیں۔ دورے کی تیاری کیلئے کم وقت بچا ہے۔سِکھ علیٰحدگی پسندوں کے ممکنہ احتجاج اور کینیڈا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھارتی حکومت آخری لمحے کے دعوت نامے کو شاید قبول نہ کرے۔ دوسری جانب کینیڈین جی7 اجلاس کے ترجمان نے اِس بات کی تاحال تصدیق نہیں کی کہ آیا مودی کو دعوت دی جائے گی یا نہیں۔کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی نے بھارت پر انتخابات میں مداخلت کا سنگین الزام عائد کیا ہے پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور کا کہنا ہے کہ بھارتی ایجنٹوں نے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، جس کے واضح شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ کینیڈین سیکیورٹی انٹیلیجنس سروس کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جانب سے کینیڈا کے جمہوری عمل اور مقامی کمیونٹیز کو نشانہ بنانے کے شواہد موجود ہیں رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 2022 کے انتخابات میں بھی بھارتی ایجنٹ فنڈ ریزنگ اور دیگر سازشی سرگرمیوں میں ملوث رہے جن کا مقصد مخصوص سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اس معاملے پر کینیڈین حکومت نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور بھارت کے ان اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ حکومتی سطح پر سخت ردعمل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو سکتے ہیں پہلے ہی سفارتی سطح پر اختلافات موجود تھے، لیکن حالیہ الزامات کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
کینیڈین اخبار گلوب اینڈ میل کی ایک رپورٹ میں بھی اس حوالے سے اہم انکشافات کیے گئے ہیں رپورٹ کے مطابق بھارت کی مداخلت صرف کسی ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد کینیڈا کی تمام سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہونا ہے الیکشن انٹیگریٹی ٹاسک فورس نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی ایجنٹ مصنوعی ذہانت پراکسی نیٹ ورکس اور آن لائن ڈس انفارمیشن جیسے جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں تاکہ رائے عامہ کو تبدیل کیا جا سکے اور انتخابات کے نتائج پر اثر ڈالا جا سکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف کینیڈا تک محدود نہیں بلکہ عالمی جمہوری اقدار کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اگر بھارت کی ایسی سرگرمیوں کو روکا نہ گیا تو دیگر ممالک میں بھی انتخابات کے شفاف عمل پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو اس معاملے پر فوری طور پر نوٹس لینا ہوگا تاکہ انتخابی عمل کو بیرونی مداخلت سے محفوظ بنایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔