... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں مودی سرکار کے دور میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک، نفرت انگیز مہم اور معاشی بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے کاروبار کو تباہ کرنے کے لیے جھوٹے الزامات اور سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کا سہارا لے لیا ہے۔ ہندو انتہا پسند گروہ مسلسل مسلمانوں کے کاروبار اور روزگار کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ مسلم دکانداروں، ہوٹل مالکان اور سبزی فروشوں کے خلاف بے بنیاد دعوے کیے جا رہے ہیں کہ وہ کھانوں میں گائے کا گوشت، پیشاب اور تھوک کی ملاوٹ کرتے ہیں۔ ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو دکانیں کرائے پر نہ دینے کے مطالبات کر رہی ہیں۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں سبزی فروشوں اور چھوٹے دکانداروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔کئی ذبح خانے غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیے گئے ہیں، جس سے ہزاروں مسلمان بے روزگار ہو گئے ہیں۔
اترپردیش میں ایک ہوٹل مالک وسیم احمد نے بتایا کہ پروپیگنڈے کے باعث ان کا ہوٹل ویران ہو چکا ہے اور کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ہندو مذہبی رہنما بھی اس مہم میں پیش پیش ہیں، سوامی یشویت مہاراج نے کہا کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے ہوٹلوں سے کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کو سماجی اور اقتصادی طور پر بے دخل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔جب بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں اہلیہ نگر ضلع کے مادھی گاؤں کی پنچایت نے سالانہ کانیف ناتھ مہاراج یاترا کے موقع پر مسلمان دکانداروں کی شرکت پر پابندی لگائی تو وہاں کے مقامی سرکاری اہلکار نے پنچایت کی اس قرارداد کو ‘غیر قانونی’ کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔لیکن ریاست کے ایک وزیر نتیش رانے نے اس قرارداد کی حمایت کی اور کہا کہ سرکاری اہکار کو معلوم ہونا چاہیے کہ ‘ریاست میں ایک ہندوتوا کی حکومت ہے۔’
یہ سالانہ مذہبی میلہ مارچ کے وسط میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میں ضلع اور پوری ریاست سے ہزاروں ہندو زائرین اور تاجر شرکت کرتے آئے ہیں جہاں تمام برادریوں کے لوگ سٹال لگا کر مختلف اشیا فروخت کرتے ہیں۔مادھی گاؤں کی آبادی تقریبآ پانچ ہزار ہے جس میں 650 مسلمان بھی شامل ہیں۔ گاؤں کی منتخب پنچایت نے 22 فروری کو یہ فیصلہ کیا کہ اس مذہبی یاترا میں مسلم تاجروں کو کاروبار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اس قرارداد میں کہا گیا کہ یاترا کے دوران ‘ہندو روایتوں کے تقدس کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ مسلم تاجر ہندو مذہبی رسم و رواج و روایات پر عمل نہیں کرتے اس لیے ان کی شرکت پر پابندی لگائی گئی ہے۔’
جنوری میں دریائے گنگا و جمنا کے سنگم پر مہا کمبھ کے آغاز سے قبل ہندو سادھوؤں کی ملک کی سب سے بڑی تنظیم اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد نے کمبھ کے ایک مہینے کے اجتماع کے دوران مسلمانوں کو میلے کی حدود میں داخل نہ ہونے دینے کی کال دی تھی۔اس میلے میں اس سے پہلے دکانیں اور سٹال وغیرہ لگانے پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ اسی طرح کی ایک کال متھرا بھی سے آئی جس میں مسلمانوں کو ہولی کے تہوار سے باہر رکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔
بھارت میں پچھلے کچھ سالوں سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کی طرح طرح کی ویڈیوز اور اپیلیں جاری کی جاتی رہی ہیں۔ سخت گیر ہندو تنظیموں اور حکمراں جماعت بی جے پی سے وابستہ مقامی رہنما مسلمانوں کو دکان اور مکان کرائے پر نہ دینے اور ان سے خرید و فروخت نہ کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کی مہم کا مسلمانوں کے کاروبار پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔
ہر برس لاکھوں ہندو زائرین پورے ملک سے زیارت کے لیے ہندوؤں کے مقدس شہر ہری دورار آتے ہیں۔ راستے میں مغربی اتر پردیش کا شہر مظفر نگر ہے جہاں دور دراز سے طویل سفر کے بعد پہنچنے والے زائرین شاہراہ پر واقع ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کھانے اور ٹھہرنے کے لیے رْکتے آئے ہیں۔ شاہراہ پر واقع ریستورانوں اور ہوٹل مالکان کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ہندو زائرین کا خیال رکھتے ہوئے بیشتر ریستوران میں صرف ویجیٹیرین کھانا ہی پیش کیا جاتا ہے۔ ان ریستورانوں میں بیشتر ملازمین اور باورچی ہندو ہیں۔ریستوران مالکوں نے اپنے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے نام بھی ہندو طرز پر رکھ لیے ہیں۔ لیکن پچھلی یاترا سے پہلے بعض مقامی ہندو رہنماؤں اور تنظیموں کی مہم کے بعد اتر پردیش کی حکومت نے حکم جاری کیا کہ دکانوں کے سائن بورڈ پر اصل مالکوں کے نام لکھے جائیں۔انتظامیہ کا یہ کہنا تھا کہ یہ قدم سکیورٹی اور شفافیت کے لیے اٹھایا گیا ہے لیکن اس عمل کا مقصد بظاہر دکانوں کے مالکوں کی مذہبی شناخت اجاگر کرنا تھا۔ نام لکھنے کے ساتھ ساتھ کئی جگہ یہ مہم بھی شروع ہو گئی کہ ہندوؤں کے مقدس مقامات اور زائرین کے راستے میں مسلمانوں کو کاروبار نہ کرنے دیا جائے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ریستورانوں اور ہوٹلوں پر پڑا ہے۔
امریکی جریدے نے پہلگام فالس فلیگ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کا پردہ فاش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ حملے کے بعد مودی سرکار اور انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف مہم تیز کر دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کو حراست میں لے لیا گیا اور ان کے گھر تک مسمار کر دیئے گئے۔ کشمیریوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اظہار تشویش کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ء کی ڈپٹی ڈائریکٹر مینا کشی کنگولی کا کہنا ہے کہ پہلگام میں حملہ کو اقلیتی گروپوں پر انتقامی کارروائیوں کے جواز کے طور پرنہیں استعمال کیا جا نا چاہیے ۔ ایسا کرنے سے مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل بھی متوقع ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے بین الاقوامی جریدے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم کی گواہی مودی کی جارحیت کا ثبوت ہے۔