وجود

... loading ...

وجود

امن ممکن ہے مگر.....

اتوار 18 مئی 2025 امن ممکن ہے مگر.....

حمیداللہ بھٹی

اشتعال انگیزیوں کے جواب میں غیرمتوقع پاکستانی دندان شکن ردِعمل پر بھارت ابھی تک صدمے میں ہے لیکن کیا اُسے اپنی حماقتوں اور خامیوں کا کچھ ادراک ہو گیا ہے؟ اِس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا اِس بنا پر مشکل ہے کہ وہ تو لگنے والے زخموں کو تسلیم کرنے سے انکار ی ہے اور دنیا کو باور کرانے کی تگ ودو میں ہے کہ پاکستان پر کاری وارتوہم نے کیا ،حالانکہ دنیا بھارتی معاشرے کی طرح احمق نہیں جوہر جھوٹ پر یقین کرلے۔ یہ سچ توسب پر آشکار ہے کہ بھارت نے رات کی تاریکی میں مذہبی مقامات اور شہری آبادی کونشانہ بنایا جبکہ پاکستان نے دن کے اُجالے میں چھبیس کے قریب دفاعی مقامات کو تباہ کردیا۔ یہ ایک جچا تلا دلیرانہ جواب تھا جوکسی سے پوشیدہ نہیں ۔اسی بناپر حکومتی ہدایات کے مطابق بھارتی میڈیا باوجود کوشش سچ کوجھٹلانے سے قاصر ہے، بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں سنانے سے بھارتی میڈیا خود اپنی ساکھ سے محروم ہورہا ہے جو ایسا تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ فضائی جھڑپوں میں بھارت نے پاکستان کوسخت نقصان پہنچایا ہے۔ دراصل گودی میڈیا سُبکی چھپانے کے لیے کامیابی کے افسانے تراش رہا ہے۔ ایسے جھوٹ بولنے کی ہرگز ضرورت پیش نہ آئے اگر مودی حکومت نفرت،تعصب اور جلائو گھیرائو کی سیاست ترک کردے اورخطے میں امن کے فروغ میں حصہ دار بنے ۔
جنگ بندی کے لیے بھارت نے امریکہ سے رابطہ کیااور پاکستان پر دبائو ڈالنے اور جنگ بندی پر آمادہ کرنے کا مطالبہ کیانہ صرف امریکی وزیرِ خارجہ بلکہ نائب صدر بھی دونوں ممالک سے رابطے میں رہے ۔اِس دوران سعودی عرب اور ترکیہ نے بھرپور معاونت کی اور پاکستان کوجوابی ردِ عمل محدودرکھنے پر آمادہ کیا۔ پاکستان نے ماضی میں بھی کبھی کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کی بلکہ ہمیشہ کشیدگی بڑھانے سے حتی الامکان گریز کیا۔ اب بھی دوست ممالک کی فرمائش پر واضح فتح کے باوجودجنگ بندی پر آمادہ ہوا مگر بھارت نے خطے کا امن دائو پر لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اب بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ جنگ بندی کامطالبہ پاکستان نے کیا ،وہ تو یہ تسلیم کرنے سے بھی گریز اں ہے کہ پاکستان کوسخت ردِ عمل دینے پر اُس نے خود مجبور کیا۔ نریندرامودی جسے سیاست چمکانے کے لیے ہمیشہ بہانوں کی تلاش رہتی ہے۔ وہ پاکستان سے مقابلے میں ایسا کچھ حاصل نہیں کرسکا ۔اِس کے باجود کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ملک میں کبھی فتح کی ریلیاں نکلوائی جاتی ہیں اور کبھی دفاعی نظام ایس 400کی تباہی کی خبروں کو غلط ثابت کرنے کے لیے جعلی تصویروں کا سہارا لیا جانے لگا ہے ۔مگر عالمی ذرائع ابلاغ بھارت کی کسی جھوٹی کہانی کو اہمیت نہیں دے رہے۔ اب بھی بھارت سے کسی بھی غیرذمہ دارانہ کارروائی کا اندیشہ موجود ہے۔ لہٰذا دانشمندی کاتقاضا ہے کہ پاکستان ہر قسم کے حالات کی تیاری رکھے کیونکہ اسلحہ خریدنے میں اچانک تیزی بھارتی نیت کے کھوٹ کو ظاہرکرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب جنگ بندی ہوچکی تو دھڑا دھڑ اسلحہ کے انبار جمع کرنے کا کیا جواز ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاک بھارت جنگ بندی کاکریڈٹ لیتے ہیں ،ریاض دورے کے دوران انھوں نے خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے خودکو امن کے داعی کے طورپر نمایاں کیاہے ۔بلاشبہ پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ ایک ایسی تاریخی کامیابی ہے جس میں امریکہ کا کلیدی کردار ہے، مگر امریکی اسلحہ کی بھارت کوفراہمی میں غیرضروری تیزی ناقابلِ فہم ہے ۔یہ تو صاف الفاظ میں بھارت جیسے منتقم مزاج ملک کو اُکسانے والی بات ہے۔ جب صدر ٹرمپ پاک بھارت قیادت کوکہتے ہیں کہ ایٹمی میزائلوں کی تجارت نہ کریں بلکہ اِن چیزوں کی تجارت کریں جو آپ خوبصورتی سے بناتے ہیں تو اُنھیں خود بھی جنوبی ایشیا کو بارودکے ڈھیر لگانے میں حصہ دارلینے سے گریزکرنا چاہیے ۔اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ چانکیائی سیاست کے علمبردار بھارت سے توقع رکھنا کہ جارحانہ عزائم چھوڑ کر امن پسند ہوجائے گا۔ درست نہیں بلکہ جارحانہ عزائم رکھنے والے ملک سے محتاط رہناہی دانشمندی ہے ۔بھارت ایک ایسا ملک ہے جو صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ یہ موقع کی تاک میں رہتا ہے اور سازگار حالات دیکھ کر وارکرگزرتا ہے۔ نئے ہتھیاروں کی فراہمی سے کسی وقت بھی اُس کا دماغ خراب ہو سکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ خطے کا امن برقرار رکھنے کے لیے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی پرامریکہ نظر ثانی کرے۔
رواں ہفتے 13مئی کوسعودی عرب کے دورے کے دوران امریکی صدر نے پاکستان اور بھارت کے لیے مصالحتی کردار کا اعادہ کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ شایدوہ پاک بھارت قیادت کو ایک خوشگوار عشایئے پر اکٹھا کر لیں اگر ایسا ہوتا ہے تو جنوبی ایشیا کے دونوں جوہری ممالک میں مستقل طورپر تصادم کا امکان ختم ہوسکتا ہے مگر ایسے حالات میں جب دونوں طرف لفظی جنگ جاری ہے ۔نیز دونوں ہی ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر نکل جانے کا حکم دے رہے ہیں۔ اِس تناظر میں دومتحارب ممالک کی قیادت کو عشایئے پر اکٹھا کرنے کی خواہش یا تجویز بظاہر بعید ازامکان لگتی ہے کیونکہ ایسا تبھی ممکن ہے جب دونوں طرف امن کی ایسی خواہش موجود ہو جبکہ حالات یہ ہیں کہ بھارت پر بالادستی کا بھوت سوار ہے اور دس مئی کے واقعات کے بعد نریندرمودی جنھیں میڈیا کاایک حصہ سرنڈرمودی کالقب دینے لگا ہے ۔وہ سبق حاصل کرنے کی بجائے دوملکی اختلافات کو مذہبی آویزش بنانے کے چکر میں ہیں ۔ایسی خواہش یا تجویز خطے کے امن کے لیے تباہ کُن ہو سکتی ہے۔ اگر امریکی صدر اپنی خواہش یا تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہیں تو اُنھیں بھارتی قیادت کو جارحانہ عزائم ترک اورپُرامن ہمسائیگی پر آمادہ کرنا ہوگا ۔
پاک بھارت دوستی مشکل ضرورہے ناممکن نہیں دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صدیوں کے دشمن ایک دوسرے کے بااعتماد دوست بن گئے اِس کی وجہ یہ تھی کہ اپنے تنازعات کو مزاکرات سے حل کیا اور آنے والی نسلوں کو امن و خوشحالی دینے کے لیے اعتمادو تعاون کی کیفیت لانے پر سنجیدگی سے کام کیا ۔نفاق کا شکار یورپ آج جس طرح یکجا اور ایک ہے، یہ دوستی قیادت کی فہم و فراست کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر قیادت حقائق کا ادراک نہ کرتی اور تنازعات حل کرنے کی بجائے برقرار رکھتے ہوئے جنگ وجدل میں الجھی رہتی تو آج جس طرح یورپ جنگوں سے پاک اور ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن ہے، یہ منزل ہر گز حاصل نہ ہوتی ۔جنوبی ایشیا میں بھی ایسا ماحول چنداں مشکل نہیں اگر بھارت آبی جارحیت سے تنائو نہ بڑھائے۔ ہمسایہ ممالک میں دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑ دے۔ تقسیم ہند کے اصول کے مطابق مسلہ کشمیر حل کرنے میں نیک نیتی کامظاہرہ کرے۔ خطے میں امن تبھی ممکن ہے ،جب امریکہ بھی باتوں تک محدودنہ رہے اور بھارت کو اسلحہ فراہمی جیسی بے جاعنایات سے دستکش ہوجائے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
امن ممکن ہے مگر..... وجود اتوار 18 مئی 2025
امن ممکن ہے مگر.....

مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے! وجود اتوار 18 مئی 2025
مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے!

اروناچل پردیش چین کا حصہ قرار وجود اتوار 18 مئی 2025
اروناچل پردیش چین کا حصہ قرار

بھارت بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث وجود جمعه 16 مئی 2025
بھارت بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث

ہندوستان۔۔پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت وجود جمعه 16 مئی 2025
ہندوستان۔۔پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر