وجود

... loading ...

وجود

مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے!

اتوار 18 مئی 2025 مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے!

جاوید محمود

برطانوی اسپیشل فورسز کے سابق ارکان نے برسوں کی خاموشی توڑتے ہوئے پہلی بار عوامی سطح پر بیانات دیتے ہوئے ا اعتراف کیا کہ کیسے انہوں نے ایس اے ایس کے ارکان کو نیند کی حالت میں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے زیر حراست افراد کو قتل کرتے دیکھا جن میں بچے بھی شامل تھے۔ افغانستان میں ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک نوجوان لڑکے کو ہتھکڑیاں لگائیں اور اسے گولی مار دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کی تلاشی لیتے انہیں ہتھکڑیاں لگاتے اور پھر انہیں گولی مار دیتے اور اس کے بعد پلاسٹک کی ہتھکڑیاں کاٹ دیتے تھے اوران کی لاش کے پاس پستول رکھ دیتے۔ رائل نیوی کی ایلیٹ اسپیشل فورس رجمنٹ ایس بی ایس کو بھی پہلی بار انتہائی سنگین الزامات میں ملوث کیا گیا ہے جس میں نہتے اور زخمی افراد کو پھانسی دینا شامل ہے ۔ایس اے ایس میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی کے مطابق کچھ فوجیوں میں موب مینٹلٹی تھی اور انہوں نے ان کے رویے کو وحشیانہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے سب سے پرسکون لوگوں کو تبدیل ہوتے دیکھا ۔ان میں نفسیاتی امراض کی سنگین خصوصیات ظاہر ہوئیں،وہ لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہے تھے ، انہیں لگ رہا تھا کہ انہیں کوئی نہیں پکڑ سکتا ۔
برطانوی فوجیوں کو طالبان جنگجوؤں اوربم منانے والوں سے بچانے کے لیے افغانستان میں خصوصی فورسز تعینات کی گئی تھیں۔ یہ جنگ برطانیہ کی مسلح افواج کے ارکان کے لیے ایک مہلک جنگ تھی جس میں 457افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو ان کے دور میں بار بار متنبہ کیا گیا تھا کہ برطانیہ کی اسپیشل فورسز افغانستان میں عام شہریوں کو ہلاک کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ کچھ کاروائیوں میں فوج گیسٹ ہاؤس جیسی عمارتوں میں جاتی تھی اور وہاں موجود تمام لوگوں کو ہلاک کر دیتی تھی وہ اندر جاتے اور وہاں سوتے ہوئے سبھی لوگوں کو گولی مار دیتے لوگوں کو نیند میں مارنا جائز نہیں ہے کسی علاقے کو کنٹرول میں لانے کے بعد حملہ اور ٹیمیں علاقے میں گھس کر وہاں موجود کسی بھی شخص کو گولی مار دیتی۔ لاشوں کی جانچ پڑتال کرتی اور زندہ بن جانے والے شخص کو بھی ہلاک کر دیتی۔ عینی شاہدین نے انکشاف کیا کہ عراق اور افغانستان میں کاروائیوں کے دوران ملک کی ایلیٹ رجیمنٹوں کی جانب سے جنگی قوانین کو باقاعدگی سے اور جان بوجھ کر توڑا جا رہا تھا۔ برطانوی اور بین الاقوامی قوانین فوجیوں کو جان بوجھ کرنہتے شہریوں کو یا جنگی قیدیوں کو قتل کرنے سے روکتے ہیں۔ ایس اے ایس کے ایک سابق آپریٹر نے عراق میں ایک آپریشن کے بارے میں بھی بتایا جس کے دوران کسی کو قتل کیا گیا انہوں نے کہا کہ میں دیکھ سکتا تھا کہ بالکل واضح تھا کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا ۔وہ مسلح نہیں تھا یہ شرم ناک ہے اس میں کوئی پیشہ ورانہ مہارت نہیں ہے ۔برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے کمانڈ ڈھانچے کے اندر ہر کوئی جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ میں ذاتی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہو رہا لیکن ہر کوئی جانتا ہے جو کچھ ہو رہا تھا اس کے لیے واضح منظوری تھیں۔ ہلاکتوں کی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے ایس اے ایس اور ایس بی ایس کے ارکان مرنے والوں کی لاشوں پر نام نہاد ڈراپ ہتھیار نصب کرتے تھے ۔تاکہ موقع پر اسپیشل فورسز کی ٹیموں کی جانب سے باقاعدگی سے لی جانے والی تصاویر میں ایسا لگ سکے کہ وہ مسلح ہیں۔ ایس اے ایس کے ہلکار اپنے ساتھ ایک جعلی دستی بم لے کر جاتے تھے جو پھٹ نہیں سکتا تھا اس کے علاوہ 47 رائفلیں لے کر جاتے جن میں فولڈنگ سٹاک ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے بیگز میں بآسانی ا جاتی اور اسے کسی لاش کے ساتھ رکھنا آسان ہوتا ہے۔ گواہوں کے مطابق اس کے بعد افسران پوسٹ آپریشنل رپورٹس کو غلط ثابت کرتے ہیں ۔تاکہ حملہ کرنے والی ٹیموں کی کارروائیوں کو جانچ پڑتال سے بچا سکے ۔نیٹو میں امریکہ کے سابق سفیر جنرل ڈگلس لوٹ نے کہا کہ افغان صدر رات کے وقت چھاپوں میں شہریوں کی ہلاکتوں اور حراستوں کے بارے میں اپنی شکایت اتنی مستقل کرتے رہے کہ کوئی بھی سینئر مغربی سفارت کار یا فوجی رہنما اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرتا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک بڑی پریشانی تھی۔ جنرل لوٹ نے کہا کہ یہ حد درجہ غیر معمولی ہوتا اگر برطانوی افواج کے خلاف کوئی ایسا دعویٰ کیا جاتا جس کے بارے میں برطانوی چیف اف کمانڈ کو علم نہیں ہوتا۔ لارڈ کیمرون کے ایک ترجمان نے پنورامہ کو بتایا کہ لارڈ کیمرون کی یادداشت کے مطابق صدر کرزئی جانب سے اٹھائے گئے مسائل عمومی طور پر نیٹو افواج کے بارے میں تھے اور برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے حوالے سے مخصوص واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا ۔ترجمان نے یہ بھی کہا کہ یہ درست ہے کہ ہم انکوائری کے سرکاری نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ امریکہ اور فرانس سمیت بہت سے دوسرے ممالک کے برعکس برطانیہ کے پاس اپنی ایلیٹ ا سپیشل فورس رجمنٹوں کی کوئی پارلیمانی نگراں نہیں ہے۔ ان کے اقدامات کی اسٹریٹیجک ذمہ داری بالاخر وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع اور اس اسپیشل فورسز کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے ۔سابق ڈائریکٹر آف سروس پراسیکیوشن بروس ہولڈر کے مطابق انہیں امید ہے کہ عوامی تحقیقات میں اس چیز کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ لارڈ کیمرون کو برطانوی اسپیشل فورسز کی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کے بارے میں کتنا علم تھا۔ بروس ہولڈر کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ بیماری کس حد تک بڑھ چکی ہے ۔
تصور کریں عراق اور افغانستان میں جس بیدردی سے انسانیت کا قتل عام کیا گیا اگر اس طرح کے اقدامات کسی مسلمان سربراہ کی نگرانی میں کیا جاتا تو یقینا اس کا انجام بھی عراق کی طرح ہوتا۔ مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر کیوں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
امن ممکن ہے مگر..... وجود اتوار 18 مئی 2025
امن ممکن ہے مگر.....

مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے! وجود اتوار 18 مئی 2025
مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے!

اروناچل پردیش چین کا حصہ قرار وجود اتوار 18 مئی 2025
اروناچل پردیش چین کا حصہ قرار

بھارت بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث وجود جمعه 16 مئی 2025
بھارت بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث

ہندوستان۔۔پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت وجود جمعه 16 مئی 2025
ہندوستان۔۔پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر