... loading ...
جاوید محمود
حال ہی میں پاک بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ میں بھارت کو انتہائی سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور منہ کی کھانی پڑی۔ بھارت نے ایک بار پھر سیز فائر کے خلاف ورزی کر کے حالات کشیدہ کر دیے ہیں ۔بڑھتی ہوئی کشیدگی کی بنیاد ی وجہ سکڑتے ہوئے آبی وسائل پر بڑھتا ہوا تنازع ہے۔ بھارت سرحد پار سے پانی کے بہاؤ کو روکنے کی دھمکی دے رہا ہے جسے پاکستان فوجی کارروائی کا پیش خیمہ سمجھتا ہے، کیا یہ پہلے ہی پانی کی کھلی جنگ ہے۔ 7مئی کو ہندوستانی میزائلوں نے پاکستان کے اندر9اہداف کو نشانہ بنایا جس میں تقریبا 20افراد شہید ہوئے۔ ہندوستان کے نقطہ نظر سے یہ کارروائی اس سال اپریل میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کا بدلہ ہے جس کے نتیجے میں ہندوستانی سیاح ہلاک ہوئے تھے ۔اگلے مرحلے میں دریائے سندھ کے پانی کے بہاؤ کو روکنا اور بارڈر کراسنگ کو بند کرنا شامل ہے ۔قیاس آرائیاں ابھر رہی ہیں کہ بھارت اس معاہدے کی شقوں کو کمزور کرنا چاہتا ہے جومتعدد سرحدی کشیدگیوں کے باوجود اب تک نافذ العمل ہے۔ 1960 میں بھارت اور پاکستان نے ورلڈ بینک کی ثالثی سے آبی معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ اس کا بنیادی مقصد دریائے سندھ کے پانیوں کی تقسیم کو منظم کرنا تھا ۔معاہدے کے مطابق بھارت نے تین مشرقی معاون دریاؤں راوی بیاس اور ستلج پر کنٹرول حاصل کر لیا جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ جہلم اور چناب پر کنٹرول حاصل ہوا جس سے نظام کے تقریبا 80فیصد آبی وسائل تک رسائی کو یقینی بنایا گیا معاہدے کے تحت فریقین کے درمیان معلومات کے تبادلے کی ضرورت ہوتی ہے اور معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ دریا کے نیٹ ورک کا ڈھانچہ اور اس کا ہندوستانی علاقے سے گزرنا ہندوستان کو پاکستان کی طرف سے آنے والے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی حقیقی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ فی الحال اس بہاؤ کو مکمل طور پر روکنے کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارت اس کی شدت میں رد و بدل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں عملا ًوقتا ًوقتاً پاکستان کی طرف پانی کی قلت یا اضافی مقدار پیدا ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات اگرچہ رسمی طور پر قانونی حدود کے اندر رہتے ہیں لیکن ملک کی آبی سلامتی کے حوالے سے پاکستان میں تشویش کا باعث بنتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی طلب اور پانی کے کم ہونے کے وسائل کے درمیان ہندوستانی حکام نے 2023کے اوائل میں ہی معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرنے پر غور شروع کیا۔ 22 اپریل 2025کو بھارتی انتظامیہ کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں واقع پہلگام کے علاقے میں ایک دہشت گردانہ حملے میں ایک سیاحتی مقام کو نشانہ بنایا گیا۔ مسلح حملہ آوروں گروپ نے وہاں ٹھہرے ہوئے سیاحوں کو حراست میں لے لیا ۔اس کے نتیجے میں 26افراد ہلاک ہوئے جن میں 25 ہندوستانی شہری تھے۔ ابتدائی طور پر اس حملے کی ذمہ داری خود کو دی ریزسٹنس فرنٹ کہلانے والی ایک تنظیم نے قبول کی تھی۔ تاہم اگلے دنوں میں اس کے نمائندوں نے بیان واپس لے لیا اور دعویٰ کیا کہ ابتدائی معلومات ہیکرز کا مبینہ طور پر ہندوستانی انٹیلی جنس سروس سے منسلک ہونے کا نتیجہ ہے جواب میں 7مئی کو ہندوستانی فوج نے ایک فضائی حملہ کیا جس میں سرکاری رپورٹس کے مطابق حملے کے لیے ذمہ دار دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا ۔بھارتی حکومت نے اس کارروائی کو قومی سلامتی کے دفاع میں انتقامی کارروائی قرار دیا۔ کشمیر، ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے بعد سے ایک متنازع خطہ رہا ہے ۔تاہم حالیہ برسوں میں بھارتی حکومت کے اقدامات نے تنازع میں شدت پیدا کر دی ہے۔ ٹی آر ایف کی سرگرمیاں 2019میں جموں و کشمیر پر ہندوستانی کنٹرول میں اضافے کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئی۔ خطے کی حیثیت میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے تنازع کی بہت سی دیگر وجوہات میں آبی وسائل پر کنٹرول ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ جموں اور کشمیر کے علاقے کے ذریعے ہی سندھ کی معاون ندیاں بہتی ہیں ۔وہ پانی جو نظریاتی طور پر پاکستان سے تعلق رکھتا ہے بھارت پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مقامی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو ایک بہانہ قرار دیتا ہے۔
تازہ پانی تک رسائی میں جاری کمی قدرتی ہائیڈرو جولوجیکل سائیکل میں رکاوٹوں کا براہ راست نتیجہ ہے ۔اس صورتحال کی بنیادی وجوہات کی جڑیں گہری انسانی صنعتی سرگرمیاں ہیں جو عالمی موسمیاتی تبدیلی میں معاون ہیں۔ بڑھتا ہوا اوسط درجہ حرارت خشک سالی کے دورانیہ کو بڑھاتا رہا ہے۔ خاص طور پر ان خطوں میں جو پہلے سے ہی ہائیڈرو جولوجیکل تناؤ کے لیے انتہائی حساس ہیں جیسے افریقہ مشرق وسطیٰ اور زیادہ تر ایشیا جہاں خشک اور نیم خشک آب و ہوا پانی پر جنگ آج پہلے سے ہی ہو رہی ہے۔ حالانکہ ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار نہیں ہوتے ۔یہ مختلف شکلیں لیتا ہے کبھی سفارت کاری کے پیچھے چھپا ہوتا ہے کبھی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے پیچھے ایتھوپیا میں گرینڈ رینسسئنس ڈیم کی تعمیرنیل سے سوڈان اور مصر تک پانی کے بہاؤ کو نمایاں طور پر محدود کر سکتی ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں دریائے اردن تک رسائی ایک فلیش پوائنٹ بنی ہوئی ہے ۔حالانکہ اسرائیل فلسطین تنازع کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔ پہلے سے تاہم سب سے زیادہ سنگین صورتحال پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں جس کے پس منظر میں سندھ کے پانیوں کا حل طلب تنازع موجود ہے۔ کشیدگی میں اضافے کا خطرہ کم ہے لیکن کسی کو یہ تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جوہری جنگ کا کیا انجام ہوگا ؟اگرچہ اس سرحد پر تناؤ سالوں میں اتنا زیادہ نہیں ہے لیکن پیچھے ہٹنے کی امید کا ایک فرق باقی ہے۔ اپنے فائدے کے لیے روکا گیا پانی اگر یہ پڑوسی ملک میں بھوک کا باعث بنتا ہے تو بالاخر اس کا ذخیرہ کرنے والوں پر جوابی فائرنگ ہوگی۔ امید ہے 6اور7مئی کی درمیانی شب تین رفال سمیت پانچ انڈین طیاروں کو گرانا انڈیا کی انکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوگا۔ 2019کی انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد جہاں انڈیا نے فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن سے 36رفال طیارے حاصل کیے تھے جو کہ یورپی گروپ کے میٹیور میزائلوں سے لیس ہیں جبکہ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ اف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مطابق اسی دورانیے میں پاکستان نے چین سے کم از کم 20جدید جے 10سی جنگی طیارے حاصل کیے اور یہ چینی ساختہ بی ایل 15میزائلوں سے لیس ہیں۔ واشنگٹن سمیت عالمی سطح پر چینی لڑاکا طیارے کی مغربی طیارے کے خلاف کارکردگی پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے ۔پاکستانی اور انڈین طیاروں کی ڈاگ فائٹ میں انڈیا کے 70جنگی طیاروں اور پاکستان کے 40 جنگی طیاروں نے حصہ لیا۔ یعنی کل 100 سے زیادہ طیارے تھے جو کہ ہوا بازی کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ پاک فضائیہ کی طرف سے اس کارروائی میں جے ایف 17 جے ایف 16 اور جے 10 طیاروں نے حصہ لیا۔ پاکستانی فضائیہ نے انڈین فضائیہ کو دن میں تارے دکھا دیے۔ واضح رہے کہ انڈیا نے پچھلی بار کہا تھا کہ اگر ان کے پاس رفال ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا ۔دنیا نے دیکھا کہ رفال طیاروں کو نشانہ بنایا گیا اور پاک فضائیہ کے مطابق وہ مزید طیاروں کو گرا سکتے تھے مگر انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ بھارت کو رفال طیاروں پر بڑا ہیومن گھمنڈ تھا جوپاک فضائیہ نے خاک میں ملا دیا اور اب بھارت پاکستان سے شکست کھانے کے بعد اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔