... loading ...
حمیداللہ بھٹی
چھ اور سات مئی کی شب ہونے والی بھارتی میزائل دہشت گردی سے خواتین اور بچوں سمیت 31شہری دنیا سے چلے گئے دشمن نے نیلم جہلم پن بجلی کے منصوبے کو بھی نشانہ بنایا ۔سوال یہ ہے کہ کیا میزائل حملہ اچانک ہواہے؟ کاجواب ہے نہیں ۔کیونکہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی زرائع ابلاغ اورتجزیہ کارواضح کرنے لگے تھے کہ مولانا مسعود اظہراور حافظ سعید کے مدرسوں کو نشانہ بناجائے گا ۔دراصل مولانا مسعود اظہر کو بھارتی حکومت ہر قیمت پر مارنا چاہتی تھی لیکن وہ دسمبر1999 میں طیارہ اغوا کے بدلے میں رہاہوگئے ۔اِس وقت بھارت کی جوحکمران قیادت ہے وہ مذہبی حوالے سے بہت متعصب ہے اورمسلمان دشمنی میں ہرحد تک جانے کو تیارہے۔ یہ ہندوتواکی علمبردارہے ۔حکمرانی کے لیے بھی مذہبی جنون سے فوائد سمیٹنے کو جائز تصور کرتی ہے اور جارحیت کرتے ہوئے مسلمہ عالمی اصولوں کو فراموش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔ اسی لیے میزائل حملے میں مساجد اور مدرسوں کو نشانہ بنایاگیا تاکہ دوممالک کی بجائے دومذاہب کی جنگ ثابت ہویہ روش بہت خطرناک ہے۔ پاکستان نے جواب میں صرف فوجی ٹھکانوں اور حملہ آور طیاروں کونشانہ بنایااور بھارت پر نفسیاتی برتری حاصل کی، پاک فوج کے ردِ عمل سے مہارت ،صلاحیت اور پیشہ وارانہ حکمتِ عملی کاتاثر ملتا ہے اِس دوران رافیل جس پر بھارت کو ناز تھا نہ صرف گراکر پاکستان نے بھارتی غرور خاک میں ملایا بلکہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹرسمیت کئی چیک پوسٹیں تباہ کردیں یہ جواب بھارت کے لیے اِس بناپرغیر متوقع تھا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کہہ چکے ہیں کہ بھارت محتاط کاروائی کرے اور پاکستان جس حد تک ملوث ہے تعاون کرے اِس تناظر میں قیاس تھا کہ دونوں ممالک باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کو فیس سیونگ دیں گے لیکن میزائل حملے کا جواب پاکستان نے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی طرح دلیرانہ دیا جس پر رضامندی کاتاثر دینے والے حلقوں کو سخت حیرانگی ہوئی ۔
بالاکوٹ حملے کی طرح دونوں ممالک کے پُرسکون ہو نے کااِمکان جاسوسی کی غرض سے درجنوں ڈرونز بھیجنے سے معدوم ہونے لگاہے یہ ڈرونز 36 گھنٹے تک اہداف کو نشانہ بناسکتے ہیں اِن سے لاہور میں ریڈار سسٹم کو نقصان بھی ہوا مزید یہ کہ ر اولپنڈی سمیت کئی علاقوں میں محو پرواز دیکھے گئے اِس اشتعال انگیز ی کا مطلب ہے کہ میزائل حملوں سے پاکستان کی کمزوریاں بھارت جان چکا ہے اوراب وہ زمینی کارروائی کے لیے ایسے اہداف کی تلاش میں ہے جس سے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگائی جاسکے۔ ٹرمپ کی طرف سے بھارتی حملے کو شرمناک قرار دینے کو پاکستان میں بڑی کامیابی کے طور پر لیا جارہا ہے جوکہ غلط ہے کیونکہ اگر امریکہ چاہتا توحملے روک سکتا تھا لیکن ایسا کرنے کی بجائے غیر جانبدارانہ حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے دونوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کامشورہ دینے تک محدودرہا عیاں حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے امریکہ کوحملوں کے متعلق پیشگی آگاہ کردیاتھا۔لہٰذا بیرونی مددکی بجائے پاکستان حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر ایسی ٹھوس دفاعی حکمتِ عملی اختیارکرے جس میں کسی بیرونی قوت پر انحصارکی نوبت نہ آئے اور حقائق یہ ہیں کہ پاک بھارت ٹاکرے میں سرائیل بطور فریق شامل ہو چکاہے ۔تیاری کرتے وقت ہمہ گیرپہلوئوں پر نظر رکھ کر ایک جامع حکمتِ عملی وقت کاتقاضاہے۔
میزائل حملوں کا پاکستان نے سرعت سے جواب دیا لیکن کچھ ایسی خامیاں ہیں جنھیں نظر اندازنہیں کرسکتے ۔اول، یہ کہ ہمارا دفاعی نظام بروقت میزائلوں کو تباہ نہیں کر سکتا دوم ،بھارت نے سینکڑوں کلومیٹر دورسے بھی تاک تاک کر درست نشانے لگائے جن سے میزائل سازی میں بھارت کی برتری اور مہارت ظاہر ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میزائلوں کو روکنے میں ناکامی اور درست نشانے لگانے سے ہی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرف سے پھیلائے قیاسات کو تقویت ملی ہے کہ جو ہوا وہ رضامندی سے ہواہے حالانکہ ایساقیاس کرنا درست نہیں کہ پاک فوج کسی تیسرے فریق کی ایما پر فرائض کو پسِ پشت ڈال دے افواہوں اور قیاس آرائیوں کوختم کرنے کے لیے بھی لازم ہے کہ جذبات سے نکل کر صبر اور حکمت سے ایسا سرپرائز دیاجائے جس سے نہ صرف دفاعی طاقت اُجاگر ہو بلکہ دشمن کو آئندہ حملے کی ہمت نہ ہو ہر ملک کو اپنے شہریوں کی حفاظت کا حق حاصل ہے یہاں تو 31جانیں چلی گئیں اورمزیدیہ کہ باز آنے کی بجائے دشمن مسلسل شرارتوں میں مصروف ہے جس سے مزید خطرناک اِرادوں کا تاثر مل رہا ہے۔ امریکہ ، سعودیہ اور ایران کی کوشش ہے کہ پاکستان جوابی کارروائی سے باز رہے ۔اِس حوالے سے سفارتی بھاگ دوڑ جاری ہے مگر ایسا ہونے سے جنوبی ایشیامیں عرب اسرائیل والامنظر نامہ بن جائے گا کیونکہ پاکستان کے علاوہ خطے میں اور کوئی ملک ایسا نہیں جو بھارتی ریشہ دوانیوں کامنہ توڑ جواب دے سکے ۔
پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں اِن میں وسیع جنگ پورے خطے کو متاثر کر سکتی ہے مگر اِمن کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں ہوتی ماہرین کاکہناہے کہ بھارت جان چکاہے کہ پاکستان میزائل روکنے کی صلاحیت سے محروم ہے تجربے کے طورپرہی اُس نے ہریانہ سے 9 مارچ 2022کوایک میزائل فائر کیا جو پاکستانی علاقے میاں چنوں میں آگرایہ ایک ایسی خطرناک حرکت تھی جس سے دو جوہری طاقتوں میں ٹکرائو بھی ہو سکتا تھا مگر بھارت نے تکنیکی غلطی کہہ کر معاملات نہ بڑھنے دیے اِس وضاحت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان نے بھی خاموشی اختیار کر لی مگر بھارت نے جو جانناتھا وہ جان لیا۔ اسی لیے دوبدوجنگ کی بجائے یہ تکنیک آزمارہا ہے ۔رواں ماہ چھ اور سات مئی کو میزائل حملے میاں چنوں واقعہ کے ہی اثرات ہیں ۔اگر پاکستان تین برس قبل کے واقعہ پر تحمل کی بجائے سنجیدگی اختیار کرتا تو آج درجنوں میزائل حملوں کا سامنا نہ ہوتالہذا جلدازجلدایسا حیران کُن ردِعمل ناگزیر ہے جوبھارت کے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہو وگرنہ مستقبل میں مزید حملوں کا خدشہ رہے گا ۔آئی یس پی آر کاکہنا ہے کہ پاکستان نے پانچ حملہ آور جنگی طیارے گرائے ہیں جن میں رافیل،مگ 29،ایس یو 30اور ایک اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون شامل ہے اور اگر چاہتے تو دس بھی گرا سکتے تھے لیکن بالغ نظری اوردفاعی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا نیزکسی بھارتی طیارے کا پاکستانی حدود میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے ہی پاکستانی طیاروں نے سرحد پارنہ کی اور لڑائی میزائلوں تک محدودرہی لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان نے جس بالغ نظری اور دفاعی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، کیابھارت بھی مستقبل میں ایسا کرے گا؟ظاہرہے نہیں۔تو آزادی ،خودمختاری اور بقا کاتقاضا ہے کہ ایساتگڑا جواب دیا جائے جس کے بعد بھارت کی جنونی ہندو قیادت مزیدکسی اشتعال انگیزی کی جرات نہ کر سکے۔