... loading ...
ناتمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارون الرشید
کیا ستم ہے کہ زخم پہ زخم لگتے ہیں اور دہائی تک نہیں دے سکتے ۔ دل و دماغ کے نہاں خانوں پر گزرتی عتاب کی پوری روداد تو کیا ، سفاک لوگوں کا نام بھی نہیں لے سکتے ، زندگی کی تمام رعنائی جن کے بے مہر ہاتھوں نے نچوڑ لی ہے ۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں ، گھروں اور دفتروں میں ویران زندگیاں، روحوں کے باطنوں میں لمحہ بہ لمحہ ستم کے جو باب رقم ہو رہے ہیں ، ان کی روداد تک کہہ نہیں سکتے ۔ کہنا تو کجا کسی کندھے پر وہ لوگ سر رکھ کر رو بھی نہیں سکتے جن کے لہو پر اآقایانِ ولی نعمت پل رہے ہیں ۔
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے ، مردِ غریب و بے نوا
اخبار کے پہلے صفحے پر رنگین اشتہار ہے “محنت کش ہمارے ہیرو ہیں ، ان سب کو سلام”ٹھیک اس اشتہار کے اوپر ایک دو کالمی خبر یہ ہے ”دودھ ، ادویات اور سٹیشنری پر ٹیکس رعایت کی تجویز ”۔ساتھ ہی ایف بی آر کے چیئرمین کا تبصرہ :جی نہیں ، آئی ایم ایف کے ہوتے ٹیکس میں چھوٹ ممکن نہیں”۔آئی ایم ایف کو تو یہیں رہنا ہے ، عشروں سے یہیں ہے اور یہیں رہے گی ۔ حکمران اشرافیہ کو سترہ ارب ڈالر کی سالانہ رعایت ، سمندر پار کے ساہوکاروں سے نجات ممکن کیسے ہے ۔
تفصیلات زیادہ اذیت ناک ہیں ،کچے زخموں کو چھیلتی ہوئی ۔ آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ اہداف مشکل ہوں گے ۔ قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی کے جس اجلاس میں فنانس بل کی منظوری دی گئی، انکشاف اس میں یہ ہوا کہ نجی ادارے تو درکنار متعدد سرکاری ادارے بھی ملازمین کو کم از کم اجرت نہیں دے رہے ۔ سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت ، پاکستان اسپورٹس بورڈ، نیکٹا، نیشنل بینک آف پاکستان اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون۔
کمیٹی ممبران کے دل پگھل گئے ۔ تجویز یہ آئی کہ کہ کم از کم اجرت کا ٹنٹا ہی ختم کر دیا جائے ۔ گزارہ الائونس کافی رہے گا۔ اغوا کر کے لے جانے والے خرکار جیسے بچوں کو کھانا دیا کرتے ہیں۔ سانس کی ڈور بندھی رہے ۔وزیرِ خزانہ نے ارشاد کیا، کوئی وزارت عمل درآمد نہیں کرتی،تو متعلقہ وزیر سے بات کریں گے ۔ سبحان اللہ ،سبحان اللہ ۔ وزیر بیچارے کی حیثیت ہی کیا ہے ۔ فارم 47کا فاتح ، ایک چھوٹا سا اردلی جو ہار کر جیت گیا ۔ جس ملک کے چیف جسٹس کی حیثیت یہ ہو کہ ایک شائستہ سیاستدان اسے چپڑاسی سے بھی کمتر کہے اور عدالت اس پہ چپ سادھے رکھے ، اس کا وزیر کیا کرے گا۔ جس ملک میں عدالت ِ عظمیٰ الیکشن کا حکم صادر کرے اور الیکشن کمیشن کا چیئرمین رعونت کے ساتھ ردی کی ٹوکری میںپھینک دے ، اس میں ایک وزیر سے بازپرس؟ اس وزیر سے ، جس کے کیسۂ عظمت و علم میں خوشامد کے سوا کچھ نہیں ، کچھ بھی نہیں ۔
پندرہ سولہ برس ہوتے ہیں ، ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے دولت کدے پر ایک گاڑی آکر رکی ، لدو گاڑی ۔ دو بکریاں اتاری گئیں ۔ حیرت سے ملاقاتیوں نے یہ منظر دیکھا ۔ خلقِ خدا کے لہو سے لقمۂ تر کرنے والے کھرب پتی نے بتایا:بکریاں صدرِ مکرم نے بھیجی ہیں ۔ ان جانوروں کو بادام،شہد، انجیر ،کشمش اور کاجو کھلائے جاتے ہیں ۔ ان کا دودھ آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ لاہور شہر میں دو سو کینال کا گھر ہے ، اس عوامی نمائندے کا۔ سینکڑوں کمرے اور ان مین سے بعض ایسے ہیں ، جن کے دروازوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور نہ کھڑکیوں کا ۔ ایک ناگہانی دن کا خوف ۔ وہ آدمی ، جس نے پاپڑ اور گنے کا رس بیچنے والوں کے نام پر بینکوں میں کھاتے کھولے اور اعلان کیا کہ وہ کسی جرم کا مرتکب نہیں ۔ قصوروار وہ ہیں ، جن کے نا م پر کھاتے کھلے ۔ کوئی عدالت اس سے بازپرس نہیں کر سکتی ۔ عدالت؟ عدالت ہے کہاں ؟ عمارتیں ہیں اور عظیم الشان عمارتیں ۔ جج ہیں اور ایسی مراعات کہ جس کی تیسری دنیا کے کسی ملک میں نظیر نہیں ملتی۔ ہاں ! مگر ان عمارتوں میں انصاف کا داخلہ ممنوع ہے ۔ فرعون صفت ایک سابق چیف جسٹس نے کہا تھا :ہمارا کیا قصور ، ہم مجبور ہیں ۔یہاں تاویل اور تعبیر کی جاتی ہے ۔ مباحثے ہوتے ہیں اور مدتوں جاری رہتے ہیں ۔ بعض تو اس قدر طویل کہ بے گناہوں کی رہائی کا حکم صادر ہوا توخبر ملی کہ پھانسی گھاٹ سے اتارے برسوں بیت چکے ۔ قبروں کی مٹی پرانی اور ورثا کے آنسو خشک ہو چکے ۔ ان ججوں کو ”مائی لار ڈ”کہہ کر مخاطب کیا جاتاہے ۔ احترا م ان کا ہر لحاظ میں ملحوظ رکھا جاتاہے کہ وہ بہترین مکانوں میں قیام کرتے ، طرح دار ملبوسات پہنتے اور شاہانہ کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں ، جو بیتے دنوں کے شاہزادوں کی یاد دلاتی ہیں ۔
افسران ِ گرامی کے گھر پانچ پانچ ، دس دس ایکڑ پر پھیلے ہیں ۔ باغبان ان کے صحن سنوارنے میں لگے رہتے ہیں اور نعمت کدوں میں خان سامے طرح طرح کے پکوان پکانے میں جتے رہتے ہیں۔ وہ خان سامے ، جن کے گھروں میں بھوک ناچتی ہے ، جن کے ہاں ، بچوں کے چہرے کملائے رہتے ہیں۔ جو سرکاری اسکولوں میں تعلیم پاتے ہیں ، جن کے اساتذہ تعلیم یافتہ نہیں فقط ڈگری یافتہ ہیں ۔ ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ نے کہا تھا:ایک لاکھ استاد ایسے ہیں جو درسی کتب روانی سے پڑھ نہیں سکتے ۔
اندھیر نگری ہے ، اندھیر نگری ۔ دو سو کینال والے اس گھر سے ، بیس کلومیٹر ادھر ، شہر کے دوسرے کنارے پر تین ہزار کینال پر پھیلا ہوا محل ہے ، عرب بادشاہوں سے بڑھ کر کہ سنگ و خشت ہریالی کو ترستے ہیں ۔ یہ کھیت اور کھلیان چار سے پانچ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے خریدے گئے تھے ۔ کسانوں کو انکار کی مجال کہاں تھی۔ انکار کرتے تو پولیس اور وہ پٹوار کس کے لیے بنی ہے ۔ پٹواریوں کو بتا دیا گیا کہ زمین کا انتقال کسی اور کے نام پر اب نہیں ہوگا۔ وسیع و عریض محلات میں غسل خانوں میں ہر ٹونٹی پر سونے کاپانی چڑھا ہے اورا سپین سے برآمد کی گئی ٹائلوں پر ۔
یہاں کچھ غلام بھی بستے ہیں ۔ ان میں سے ایک لاہور کا ایک مشہور باورچی تھا۔ شادیوں پر دور دور سے بلاوے آتے ۔ شومئی قسمت سے شاہی خاندا ن کو خبر ہو گئی، چنانچہ طلب کیا گیا اور نوکر ہو گیا ۔ تنخواہ ملی تو وہ ہکا بکا۔ اس سے کئی گنا تو اپنی آزادی میں اس کی یافت تھی ۔ التجا کی اور کرتا رہا مگر محلات میں غلاموں کی سنتا کون ہے ۔ ایک دن بھاگ گیا۔
لسے دا کی زور محمد رونا یا نس جانا
(کمزور کی کیا قوت ، روئے گا یا بھاگ لے گا )۔
کب تک ، دل شکستگی میں کتاب اٹھائی اور اوراق پلٹنے لگا۔ یہ مجید امجد کی کلیات ہے ۔ منفرد ، مکمل طور پر طبع زاد، نجیب اور خوددارشاعر۔ اپنی آزردہ تنہائی میں مگن ۔ وفات سے کچھ دن پہلے مرحوم کا انٹرویو ہوا ، بعد از وفات نشر کے لیے ۔ پوچھا گیا:ملک میں دو طرح کے صاحبِ ہنر ہیں ، دائیں اور بائیں بازو کے ۔ آپ کا کس سے تعلق ہے ۔ آواز اس نے بلند نہ کی اور کہا :ازل سے وہ جو نور کا سلسلہ چلا آتا ہے ، میں اس کا ایک پیروکار ہوں ۔
دل دکھا ہوا ، تو کہاں ہے اے خدائے دیر گیر ، پھر ایک ورق پہ نگاہ ٹہر گئی ۔
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
وہ دست و پا میں گڑتی سلاخوں کے روبرو
صدہا تبسموں سے لدے طاقچے گئے
آنکھوں کو چھیدتے ہوئے نیزوں کے سامنے
محرابِ زر سے اٹھتے ہوئے قہقہے گئے
ہر سانس لیتی کھال کھچی، لاش کے لیے
شہنائیوں سے جھڑتے ہوئے زمزمے گئے
دامن تھے جن کے خون کی چھینٹوں سے گلستاں
وہ اطلس و حریر کے پیکر گئے ، گئے
ہر کنجِ باغ ٹوٹے پیالوں کا ڈھیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے
یہ ہات، جھریوں بھرے ، مرجھائے ہات جو
سینوں میں اٹکے تیروں سے رستے لہو کے جام
بھر بھر کے دے رہے ہیں تمہارے غرور کو
یہ ہات، گلبنِ غمِ ہستی کی ٹہنیاں
اے کاش! انھیں بہار کا جھونکا نصیب ہو
ممکن نہیں کہ ان کی گرفتِ تپاں سے تم
تادیر اپنی ساعدِ نازک بچا سکو
تم نے فصیلِ قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں
ہم بے کسوں کی ہڈیاں لیکن یہ جان لو
اے وارثانِ طرئہ طرفِ کلاہِ کَے !
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے