... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
George Carlin کہتا ہے ” کچھ راتیں ایسی ہوتی ہیں جب بھیڑئیے خاموش ہوتے ہیں اور صرف چاند چیختا ہے ”۔ لیکن ہماری زندگیوں میں ہررات ایسی رات ہوتی ہے جہاں چاند پوری رات چیختا رہتا ہے ”۔خلیل جبران کہتا تھا ” میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ انسان اچانک نہیں مرتا بلکہ تنہا تھوڑا تھوڑا مر تا ہے جب اس کا کوئی دوست چلا جاتا ہے تو وہ تھوڑا سا مرجا تا ہے جب اس کا کوئی پیارا اسے چھوڑجاتا ہے تو تھوڑا سا اورمر جاتا ہے جب اس کا کوئی خواب پورا نہیں ہو تا تو وہ تھوڑا سا اور مر جاتا ہے پھر آخر میں ان سب مرے ہوئے ٹکڑوں کو ڈھونڈنے کے لیے موت آتی ہے اور وہ ان سب کوسمیٹ کر لے جاتی ہے ”۔ مصری ادیب یوسف القیعد اپنی ایک علامتی کہانی میں لکھتا ہے ” جس سال ملک میں تبدیلی آئی اور لوگوں نے امید کی کہ اب زندگی بہتر ہو جائے گی ان ہی دنوں اس گھر کے حالات بگڑ گئے ان کے پاس کھا نے کو کچھ نہیں رہا ماں کی چھا تیاں خشک ہوگئیں اس نے خاندان کے سربراہ سے کہا کہ وہ صورتحال ٹھیک ہونے تک آرام سے سو جائے وہ گزارہ کرلیں گے چاہے گھر کا سربراہ موجود نہ ہو،وہ گھر سے نکلی اور بے مقصد آوارہ گردی کرنے لگی مرد لیٹ کر سوگیا اور چار سال تک سو تا رہا اس کی آنکھ سائرن اور قومی ترانوں سے کھلی۔ اس نے اپنے بچوں سے پوچھا کیا تمہیں کھانے کو کچھ ملا؟ انہوں نے بتا یاکہ وہ اب تک فاقے سے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے انہیں کچھ نہیں ملا ۔ماں تاریخی سفر سے واپس نہیں آئی تھی ملک اپنے دشموں سے حالت جنگ میں تھا۔ بچوں نے امید ظاہر کی کہ جنگ ختم ہوگی تو انہیں کچھ کھانے کومل سکے گا۔ با پ دوبارہ سونے چلا گیا ۔پانچ سال بعد وہ گلی میں شور سے بیدار ہوا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا ایک بچہ غائب تھا ،جو موجود تھے انہیں تب تک کھانے کو کچھ نہیں مل سکا تھا۔ ماں کا سفر جاری تھا ملک ایک سنسنی خیز مباحثے میں الجھا ہوا تھا کہ انڈے کو کھانے سے پہلے توڑ نے کا بہترین طریقہ کیا ہے ۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انڈے کو دائیں جانب سے توڑا جائے ۔ کچھ کا اصرار تھاکہ بائیں طرف سے توڑنا بہتر ہے۔ معتدل مزاج لوگوں کی رائے تھی کہ انڈے کو درمیان سے توڑنا چاہیے ۔باپ نے ان دلائل کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن اسکا ذہن تھک گیا اور وہ سونے کے لیے لیٹ گیا اس نے بچوں سے کہا کہ جب انہیں کھانے کو کچھ مل جائے تو اسے اٹھا دیں لیکن کسی نے اسے زحمت نہیں دی ۔ وہ چھ سال بعد ایک بار پھر سائرن اورجنگی ترانوں سے جاگا۔ اس نے غورکیا کہ اس کا ایک اور بچہ موجود نہیں ۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ بچہ اس جنگ میں شہید ہو گیا جو ان کی ریاست نے کسی دوردراز دشمن ملک سے چھیڑ ی تھی ،باقی حالات ویسے ہی تھے جیسے پہلے تھے ۔ماں دنیا دریافت کرنے کے سفر کی وجہ سے غیر حاضر تھی اور بچے بدستور بھوکے تھے۔ دشمن ان کے ملک کی سرحدتک پہنچ چکے تھے اور ان سے لڑنا ضروری ہوگیا تھا۔ بچے خاموش تھے باپ نے ایک لفظ کہے سنے بغیر صورتحال بھانپ لی ۔وہ پھر سونے چلا گیا باپ کے اعصابی نظام نے بظاہر اتنے ہی اور سال کے لیے اسے سلادیا اس بار وہ چوکنا ہوا تو ایک اور بچہ غائب تھا اور ملک آخری جنگ لڑرہا تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ماں واپس آرہی ہے لیکن وہ ابھی تک بھوکے ہی تھے ۔ لیکن خوراک ،امیداور ایک نئی زندگی ان کی جانب آرہی تھی ۔انہیں بس ایک اور سال کے لیے صبر کرنا تھا۔ باپ مزید تین سال سونے کے لیے چلا گیا ۔اس بار بھی اس کی آنکھ شور سے کھلی اس نے دیکھا کہ اس کے جو بچے باقی رہ گئے تھے وہ ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے تھے جب انہیں احساس ہوا کہ باپ جاگ گیا ہے تو ان کے خون آلود منہ کھلے رہ گئے ۔وہ دہشت زدہ ہوکر بھاگا اور شہر کی مر کزی شاہراہ پر پہنچا یہ وہ ہی سٹرک تھی جہاں فوجی پریڈ ہوتی تھی اور جلوس نکلتے تھے۔ اس کی نظر اپنی بیوی پر پڑی جو وہاں موجود تھی لیکن اس کے بدن پر کچھ نہ تھا کئی اجنبی اس کے بدن کے مختلف حصوں کو چھور ہے تھے اور وہ ایسے ہنس رہی تھی کہ اس سے پہلے کبھی بھی اپنی بیوی کو اس طرح ہنستے نہیں دیکھا تھا لیکن پھر کچھ لوگ اسے کھانے کے لیے اس پر ٹوٹ پڑے اس نے بیوی کو پکارا کہ اسے بچائے بیو ی نے جواباً چلا کر کہا کہ ہر شخص دوسرے کو کھارہا ہے اور تمہیں کھانے کا سب سے زیادہ حق مجھے ہے ۔وہ واحد شخص تھا جس کی تمام ہڈیاںاور گوشت باتی تھا۔ سڑک پر موجود لوگ ایک دوسرے کو ہڑپ کررہے تھے اور کچھ غریب لوگ اپنے آپ کو کھا رہے تھے ۔گھر کا سربراہ یہ سب دیکھ کر لرز اٹھا۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کوئی ایسی جگہ ملے جہاں وہ سو سکے لیکن چاروں طرف سے بھوکے ہاتھ آئے اور اسے نوچنے لگے۔ اس کے پا س ان ہاتھو ں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ ان ہاتھوں کے اوپر سو گیا بھوکے ہاتھوں نے اسے بلند کیااور اسے لے کر چلے جیسے مرکزی شاہرہ پر عظیم جلوس جنازہ رواں دواں ہو”۔
اس دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز صرف اور صرف بھوک ہے ۔ بھوک کے آگے تمام مذاہب انسانیت ، تہذیب و تمدن بے بس ہیں ۔ تمام تعلیمات ، فلسفے بے کار ہیں ۔ جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو دنیا کی تمام چیزیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں حتی کہ باقی انسان بھی ۔ جہاں بھوک ہوگی وہاں اخلاقیات ، انسانیت کا وجود نہیں ہوگا۔ بھوک صدقے کا نہیں بلکہ انصاف کا مسئلہ ہے۔ بھوکا آدمی صحیح یا غلط کو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ صرف کھانا دیکھتا ہے ۔ کھانا ہر انسان کی مشترکہ بنیادہے ۔ایک بھوکاآدمی کبھی آزاد آدمی نہیںہوتا ۔ خوراک قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ بندوق جو بنائی جاتی ہے، ہر جنگی جہاز جو لانچ کیاجاتا ہے، ہر راکٹ جو فائر کیا جاتا ہے ۔ آخری معنی میں ان لوگوں سے چوری کی علامت ہے جو بھوکے ہیں اور کھانا نہیں کھاتے ۔ بھوک بڑے پیمانے پر تباہی کابدترین ہتھیارہے ۔ سماجی انصاف کاپہلا لازمی جزو تمام انسانوں کے لیے خوراک ہے۔ کھانا ان تمام لوگوں کا اخلاقی حق ہے جو اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں ۔ بھوک کے آگے موت سے لے کر ہر شے کا نپتی ہے ۔ تمام اذیتیں بھوک سے جنم لیتی ہیں ۔ایک طاقتور اور ایٹمی ملک اپنے آپ پر فخر نہیں کر سکتا جس میں لاکھوں لوگ بھوکے سو تے ہوں ۔ اور اس سے زیادہ غیر محفو ظ ملک اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ بات ہرشخص کے سوچنے کی ہے اگر وہ سو چ سکتا ہے ورنہ توسو ویت یونین ہزاروں ایٹم بم رکھنے کے باوجود بکھرگیا ۔ کسی بھی ملک کو محفوظ اور متحد صرف اور صرف روٹی رکھ سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔